حضرت عمر فاروق ؓ

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



حضرت   عمر فاروق ؓ


حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے کئی رُکاوٹوں، مشکلات اور مصائب کا سامنا رہا۔ نبوت کے ابتدائی برسوں میں مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ مکہ میں آباد مختلف قبائل کے سردار اور دیگر بارسوخ افراد  مسلمانوں پر بہت سختیاں کرتے تھے۔  ان دنوں میں اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی یا اللہ تو عمر سے اسلام کو تقویت عطا فرما۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ کا شمار  پیغمبر اسلام کے سخت مخالفین میں ہوتا تھا۔ ایک روز عمر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردینے کے ارادے سے گھر سے نکلے ۔ راستے میں کسی نے کہا کہ  پہلے اپنے خاندان کی خبر تو لو ، تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام قبول کرچکے ہیں۔ یہ سن کر عمرؓ شدید غصے کے عالم میں اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں انہیں بہن نے قرآن کی چند آیات پڑھنے کے لیے دیں، ان آیات کو پڑھتے ہی حضرت عمرؓ کے دل کی دنیا بدل گئی اور اپنی بہن کے گھر سے نکل  کر سیدھے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ انہیں دین اسلام میں شمولیت  کا شرف عطا کیا  جائے۔ یہ سن 616 عیسوی کا واقعہ ہے۔
خلیفۂ رسول حضرت ابو بکر ؓ کی وفات  13 ہجری کے بعد حضرت عمر  امیر المومنین بنے۔ حضرت عمر کا دور اُمت مسلمہ اور اسلامی ریاست کے لیے ایک سنہری دور کہلاتا ہے۔ دنیا میں کسی حکمران نے اپنی مملکت اور رعایا کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام نہیں دیے جو چشم فلک نے حضرت عمر کے ذریعے مشاہدہ کیے۔ دورِ فاروقی  مملکت میں انصاف، خوشحالی، ترقی اور ریاست اسلامی میں شاندار توسیع کا دور تھا۔ حضرت عمر کی شہادت یکم محرم الحرام 24ہجری  (644ء) کو ہوئی۔ اس وقت اسلامی ریاست کا رقبہ 22 لاکھ مربع میل تھا۔ اس رقبے کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا رقبہ 3 لاکھ  مربع میل ہے۔



اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

‘‘اگر میرے بعد کوئی نبی  ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے ۔’’

[جامع ترمذی؛  مُسند احمد؛ مستدرک حاکم]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے