ذیابیطس سے حفاظت
ذیابیطس کا عالمی دن
World-Diabetese-Day
دنیا بھر میں ذیابیطس Diabetesکا عالمی دن ہر سال 14 نومبر کو منایا جاتاہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ سے بھی زائد افراد اس خطرناک مرض میں مبتلا ہیں ۔ماہرین کے مطابق 2000ء تک پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی کل تعداد 52لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 71 لاکھ سے زائد ہو چُکی ہے، 2030ء تک یہ تعداد ایک کروڑ 39 لاکھ تک کا خدشہ ہے۔
تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ اکثر افراد کو معلوم ہی نہیں کہ انہیں ذیابیطس کا مرض ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
* دنیا کا ہر آٹھواں شخص جبکہ پاکستان کا ہر بیسواں شہری ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے۔
* پاکستان اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کا ساتواں بڑا ملک ہے جو 2030 تک چوتھا بڑا ملک بن جائے گا ۔
* دنیا بھر میں جاں بحق ہونے والا ہر چھٹا فرد ذیابیطس کا مریض ہوتا ہے ۔
* ہلاک ہونے والے 80 فیصد کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے۔
وجوہات
جب جسم میں موجود لبلبہ درست طریقے سے کام کرنا چھوڑ دے اور مطلوبہ مقدار میں انسولین پیدا نہ کر سکے، تو غذا میں موجود شکر ہضم نہیں ہو پاتی اور جسم میں ذخیرہ ہوتی رہتی ہے نتیجتاً شوگر کی بیماری جنم لیتی ہے۔
ماہرین کے مطابق غیر صحت مند خوراک اور غیر متوازن طرززندگی، موٹاپا، تمباکو نوشی اور ورزش نہ کرنا اس مرض میں اضافے کے اسباب ہیں۔ ذیابیطس دو اقسام کی ہوتی ہے۔ ٹائپ 1 اور ٹائپ 2۔ بچپن یا جوانی میں ذیابیطس ٹائپ 1 میں مبتلا ہونے والے افراد کا علاج صرف انسولین کے ٹیکوں سے ممکن ہے۔ 40 سال کے بعد ہونے والی شوگر ٹائپ 2 کہلاتی ہے، ان مریضوں کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔
اثرات
ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے، جو بہت سی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔ ذیابیطس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں جیسے کہ آنکھوں اور بینائی پر اثرات، بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) اور نتیجتاً دل کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، پورے جسم خصوصاً ٹانگوں پر چوٹوں کا ٹھیک نہ ہونا، گردوں کی بیماریاں.... اس کے علاوہ یہ مرض رگوں اور شریانوں پر بھی اثر انداز ہو تا ہے۔
ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والے امراض میں امراض قلب سرِفہرست ہیں۔ شوگر کے مریضوں میں سے پچاس فیصد کی اموات کا سبب عارضہ قلب ہی ہوتا ہے۔ ذیابیطس پر ناقص کنٹرول کے باعث کئی لوگ گردوں کی خرابی کی زد میں بھی آجاتے ہیں۔
علامات
ذیابیطس میں مبتلا اکثر افراد کو اس بیماری کا علم نہیں ہو پاتا، یا جب تک انہیں علم ہوتا ہے اس وقت تک یہ مرض بہت بڑھ چکا ہوتا ہے۔ یہاں ایسی علامات بتائی جارہی ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
بار بار باتھ روم جانا : جب جسم غذا میں موجود شکر کے ذرات کو جذب نہیں کر پاتا تو نتیجتاً جسم کو اسے خارج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
بار بار پیاس لگنا: زیادہ باتھ روم جانے کی صورت میں جسم میں پانی کی کمی ہونے لگتی ہے نتیجتاً جسم کو مزید پانی درکار ہوتا ہے اور زیادہ پیاس محسوس ہوتی ہے۔
تھکاوٹ اور کمزوری : جسم سے نمکیات کا مسلسل اخراج تھکاوٹ اور کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ ذیابیطس میں اگر وٹامن اور نمکیات سے بھرپور غذا لیں لیں تب بھی تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے، کیونکہ صحت مند اجزا جذب ہو کر جسم کا حصہ نہیں بن پاتے۔
زخم دیر سے بھرنا: ذیابیطس کے مریض کو اگر کوئی کٹ یا زخم ہوجائے تو وہ بہت دیر سے مندمل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جلد کو صحت مند رکھنے والے اجزا اس تک پہنچ نہیں پاتے۔
وزن میں تیزی سے کمی: اگر وزن بغیر کسی وجہ کے تیزی سے کم ہو رہا ہے تو یہ بھی ذیابیطس کی ایک واضح علامت ہے ۔ جب جسم کو مطلوبہ توانائی نہیں ملتی تو یہ خلیات کو جلا کر ان سے تونائی حاصل کرنا شروع کردیتا ہے جس سے وزن تیزی سے گرنے لگتا ہے۔
<!....ADV>
<!....ADV>
ذیابیطس سے حفاظت
ذیابیطس سے حفاظت کےلیے وزن کو بڑھنے نہ دینا، پوری نیند لینا، دن میں جاگنا اور رات میں بروقت سونا، غذا میں توازن رکھنا، سبزیوں کے استعمال سے پروٹین کا مناسب حصول، زیادہ چکنائی اور نشاستہ سے بھری غذاؤں سے اجتناب جبکہ گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال ترک کرنا (کیونکہ ان سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ سکتی ہے) موزوں بلکہ بہتر اقدامات کا درجہ رکھتے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ غذا میں مغزیات جیسے کہ مونگ پھلی، زیتون کا تیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ شامل رکھے جائیں اور روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کی عادت اپنائی جائے، چاہے وہ ورزش تیز قدموں سے پیدل چلنے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔
معالجین اس پر متفق ہیں کہ اگر شوگر کا مریض ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنالے تو وہ اس بیماری کے بُرے اثرات سے محفوظ رہ کر پرلطف زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ ورزش سے اس مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے اور ورزش بالواسطہ طور پر لبلبے کو تحریک دے کر انسولین کے افراز میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ علاوہ ازیں ورزش انسانی جسم میں انسولین لیول متوازن کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ذیابیطس سے حفاظت کےلیے ضروری ہے کہ اپنی غذا سے مضر صحت چینی اور کاربوہائیڈریٹس پر مبنی غذاؤں کے بجائے صحت بخش غذا اپنائیں تاکہ طویل اور صحت مند زندگی پاسکیں۔
بادام: تحقیق کے مطابق کھانے کے بعد بادام استعمال کرنے سے جسم میں گلوکوز اور انسولین کی سطح قابو میں رہتی ہے۔ بادام جسمانی وزن کو معمول پر رکھنے میں بھی مددگار ہوتاہے ۔ اسے کھانے کے بعد پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ہرے پتوں والی سبزیاں: پالک، بروکولی، گوبھی ، سلاد اور میتھی جیسی سبزیوں اور لوبیا پھلیوں میں کیلوریز اور کاربوہائیڈریٹ کافی کم مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ جنہیں روزانہ کھانے سے ذیابیطس ہونے کا خطرہ 14 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
مچھلی: مچھلی میں اہم فیٹی ایسڈز موجود ہوتے ہیں جو بلڈ شوگر کی سطح کو معمول پر رکھنے کے ساتھ جسمانی سوجن اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم کرنے کے لیے بھی اہم ہیں۔ذیابیطس کے مریض کو ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی کا استعمال کرنا چاہیے ۔
شکرقندی: شکرقندی انسولین کی مزاحمت کو کم کرتی ہے، ساتھ ساتھ بلڈ شوگر کی سطح کو مستحکم رکھتی ہے۔
دلیا: دلیا معدے میں غذا میں موجود گلوکوز کو جذب کرنے کی رفتار سست کرکے شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے۔
ہلدی: ماہرین کے مطابق ہلدی کا استعمال شوگر لیول کو متوازن رکھتا ہے اور جسم سے کیلوریز تیزی سے کم کرتا ہے۔
چقندر : اس میں گلائی کولک ایسڈGlycolic Acid کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ اس میں موجود فائبر جسم سے زائد گلوکوز اور کولیسٹرول کو خارج کر کے دل اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے آسانی کاباعث بنتا ہے۔
ٹماٹر: ٹماٹر بلند فشار خون ذیابیطس اور سرطان جیسی بیماریوں کے خلاف ڈھال ہوتے ہیں ۔ ذیابیطس کی ٹائپ ٹو میں مبتلا افراد اپنی خوراک میں ٹماٹر کا استعمال کرکے خون میں شوگر لیول کو بہتر کر سکتے ہیں۔
کریلا: کریلے میں شامل اجزاء ان خلیوں کو تعمیر کرتے ہیں جو ذیابیطس کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
جامن : جامن میں شامل گلوکوسائڈ نشاستے کو گلوکوز بننے سے روک کر ذیابیطس کنٹرول کرنے میں اہم کردار اداکرتا ہے۔
السی : السی کے بیجوں میں فائبرکی وافر مقدار پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ کولیسٹرول کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈرائی فروٹس، فائبر والی سبزیاں، بھوسی والا اناج، دالین اور گرین ٹی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔