تعمیر شخصیت اور کردار سازی - 2

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


Personality Development and Character Building



تعمیر شخصیت اور کردار سازی


کتاب اللہ اور تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی  میں

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی 


حصہ دوم:  گذشتہ سے پیوستہ


نسلی ورثہ بذریعہ ڈی این اے (DNA):

Hereditary Characteristics through DNA

 انسان کی ہر خوبی مثلاً اچھے اخلاق، سخاوت، دوسروں کے کام آنا، وسیع القلبی، شکر گزاری وغیرہ اور ہر خامی مثلاً بد اخلاقی، لالچ، کنجوسی، خود غرضی، لوگوں کی حق تلفی، تنگ دلی، اذیت رسانی، حسد وغیرہ طبیعت یا مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اچھی یا بری عادتیں مثلاً چستی یا پھرتی، سستی و کاہلی وغیرہ بھی آدمی کے مزاج کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ ہر اچھی سوچ اور بری سوچ، ہر اچھا عمل اور ہر برا عمل آدمی کی جینز کا حصہ بن کر ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid)کے ذریعے اس کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کا مظاہرہ کسی نسل میں بھی ہوسکتا ہے۔





<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 



شخصیت پر ماحول کے اثرات: 

Impact of Environment on Personality



موروثی خصوصیات کے بعد گھر یا خاندان کا ماحول اور معاشرے کا ماحول انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچہ وہی زبان بولتا ہے جو گھر میں  اس کے ماں باپ بولتے ہیں۔ ان ہی رسوم و رواج کو اختیار کرلیتا ہے جن پر اس کے خاندان اور معاشرے میں عمل ہورہا ہوتا ہے۔
 اکثر انسانوں کا عقیدہ، مذہب و مسلک بھی خاندانی اور معاشرتی اثرات کے تحت ہوتا ہے۔  یعنی مذہب سے وابستگی کے اسباب بالعموم ارادی اور شعوری نہیں بلکہ زیادہ تر خاندان اور ماحول کے زیر اثر ہوتے ہیں۔


خاندان اور معاشرے سے ملنے والے کئی تصورات اور نظریات مذہبی تعلیمات اور احکامات پر بھی حاوی آسکتے ہیں۔ کئی مسلمان گھرانوں میں اپنے ہی خاندان یا برادری سے باہر رشتہ نہ کرنا اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ایسی سوچ یا رواج اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں لیکن بالعموم مذہبی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا کئی گھرانے بھی اس غیر اسلامی رواج پر اس لیے اصرار کرتے ہیں کہ ان کی برادری میں نسل در نسل ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ 

بعض گھرانوں میں لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک معاشرتی اثرات کی شدت کو واضح کرتا ہے۔ کئی گھرانوں میں دوران پرورش لڑکی کو نظر انداز کرکے لڑکے کو اچھی غذا کھلائی جاتی ہے۔ دودھ کا اگر ایک گلاس ہو تو وہ لڑکی کو نہیں بلکہ لڑکے کو پلا دیا جاتا ہے حالانکہ کئی وجوہات کے تحت بچپن سے ہی لڑکیوں کو کیلشیم کی زیادہ فراہمی ضروری ہے۔ تعلیم کی فراہمی میں بھی کئی گھرانے لڑکوں کی تعلیم پرزیادہ اخراجات کے لیے بخوشی تیار ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم دینا کئی گھرانوں میں غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کچھ گھرانے تیار بھی ہوں تو وہ لڑکی کے لیے لڑکے کی نسبت کم تر تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں۔ وراثت کے معاملات میں بھی کئی گھرانوں میں لڑکیوں کی حق تلفی عام سی بات ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اسلامی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے لیکن ہمارے ہاں کئی گھرانوں میں سماجی روایات کی پاس داری کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔


پنچائیت میں کیے جانے والے کئی فیصلے اسلامی قوانین اور ملکی قوانین سے متصادم ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں کے کسی قبیلے یا برادری کے لوگ اس غیر اسلامی فیصلے کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس پر عمل کے لیے ضروری اقدامات بھی کرتے ہیں۔یہ سب کام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کئی علاقوں میں ایک تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں۔ ایسے فیصلے کرنے والی برادریوں کے لوگ ان فیصلوں کی اہمیت کے قائل ہیں اور ان کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ ان دلائل میں زیادہ تر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ہماری برادری کی روایات ہیں اور ہم اپنی روایات اور رواج میں کسی کی مخالفت یا مداخلت پسند نہیں کریں گے۔
ان چند مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ بعض افراد مذہبی احکامات کو بھی خاندان یا معاشرے سے بننے والی فکر و نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔۔

(جاری ہے)

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے