تعمیر شخصیت اور کردار سازی - 1

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

Personality Development and Character Building


تعمیر شخصیت اور کردار سازی

کتاب اللہ اور تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی  میں

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی 



حصہ اول: 

ہر مرد ہر عورت، سب لوگ اس دنیا میں کامیابیاں پانا چاہتے ہیں۔ اچھا کریئر، پُرمسرت ازدواجی زندگی، خوشیوں بھرا گھرانہ، سوسائٹی میں نمایاں مقام، پروفیشن میں ایسی پوزیشن کہ سینئرز مثال دیں اور جونیئرز تقلید کرنا چاہیں۔ پروفیشنل، سوشل اور دیگر معاملات میں صائب الرائے (A person having good Judgment)سمجھے جائیں۔
ان مقاصد کو پانے اور ان بلندیوں کو سر کرنے کے لیے ایک پُراعتماد(Confident)، مضبوط (Strong)، معاملہ فہم (Judicious)، فیصلہ ساز(Decision Maker) اور فعال(Proactive) شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اوصاف پانے کے لیے مستحکم اور مثبت بنیادوں پر شخصیت کی تعمیر (Personal Development)لازمی  ہے۔




<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

اچھی اور معیاری تعلیم:

Good Education & Quality Education 

کہتے ہیں کہ اچھی اور معیاری تعلیم شخصیت کو نکھارتی ہے۔ تھوڑا سا غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بات جزوی طور پر صحیح ہے۔ شخصیت کی بہتر تعمیر کے لیے کئی اجزا درکار ہیں، تعلیم ان میں سے ایک ہے۔ آپ نے کئی ایسے مرد و خواتین دیکھے ہوں گے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پُراعتماد اور متاثر کن شخصیت کے مالک نہیں بن سکے تھے۔ ایسے نوجوان پاکستان کے ممتاز ترین تعلیمی اداروںسے یا برطانیہ ، امریکہ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کی کسی ممتاز یونیورسٹی سے بیچلرز یا ماسٹرز کرنے کے باوجود پروفیشن میں کوئی خاص جگہ نہ بنا سکے یا اپنے جمے جمائے خاندانی کاروبار کو مزید ترقی دینے میں کوئی اہم کردار ادا نہ کرسکے۔ خاندانی کاروبار میں تو ایسے بعض نوجوانوں کی خراب کارکردگی نے ان کے والدین کو شدید فکر و پریشانی میں مبتلا کردیا۔ 
ایسی کئی خواتین شادی کے بعد گھریلو ذمہ داریاں ٹھیک طرح انجام نہ دے سکیں۔ حصولِ تعلیم کے بعد کوئی کریئر اختیار کرنے والی خواتین پرعموماً دہری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں، ایک پروفیشنل اور دوسرے گھریلو ذمہ داریاں ۔ گھریلو ذمہ داریوں میں اہم ترین اولاد کی اچھی پرورش ہے۔ کچھ خواتین اچھی تعلیم کے باوجود اپنی معاشی اور گھریلو ذمہ داریوں میں توازن قائم نہیں کرپاتیں۔
 عملی زندگی میں اچھی کارکردگی نہ دکھا پانے والے وہ مرد اور عورتیں اعلیٰ تعلیم سے تو محروم نہ تھے البتہ ان کی شخصیت کی تعمیر ٹھیک طرح نہ ہوسکی تھی۔

آئیے ۔۔۔۔! دیکھتے ہیں کہ
*....تعمیر شخصیت کیا ہے۔۔۔۔؟  یہ کیوں ضروری ہے۔۔۔۔؟
*....شخصیت کی تعمیر کے لیے مذہبی تعلیمات سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے۔۔۔۔۔؟
*....مثبت بنیادوں پر تعمیر شخصیت سے افراد، اداروں اور معاشرے میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں....؟


شخصیت کیسے بنتی ہے: 

How Personality Develops? 

ہر آدمی کی شخصیت والدین کے ذریعے ملنے والی نسلی یا موروثی خصوصیات (Genetic Characteristics)، گھر یا خاندان کے ماحول، تربیت، معاشرتی ماحول اور بعض دیگر عاملین سے مل کر بنتی ہے۔
ہر فرد کی شخصیت میں ایک بہت اہم عامل( Factor)اس کی موروثی خصوصیات ہیں۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنی ماں اپنے باپ، دادا دادی، نانا نانی اور ان سب کے والدین یعنی اپنے پر دادا پر دادی، پر نانا پر نانی اور ان سے بھی پہلے کے اسلاف میں سے کسی شباہت ، ان میں سے کسی کی کوئی عادت، کسی صفت کا حامل (Bearer,Carrier)ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آج ایک نوجوان کے پر دادا بہت بہادر اور جرات مند فوجی افسر تھے۔ انہوں نے بادشاہ کی فوج میں کئی پرخطر مہمات میں کامیابیاں حاصل کیں۔ ان بہادر فوجی کی اولاد نے سپہ گیری کو اپنا پیشہ نہ بنایا بلکہ زراعت یا تجارت وغیرہ سے وابستہ ہوگئے۔ فوج سے ہٹ کر دیگر پیشوں میں چلے جانے والوں کو جنگی معاملات سے کبھی واسطہ ہی نہ پڑا نہ انہیں کبھی اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کے مواقع ملے۔ اس وجہ سے وہ خصوصیات جن کا تعلق سپاہ گیری ، مہم جوئی اور فوجی منصوبہ بندی سے تھا، ان کی اولاد میں رفتہ رفتہ پس ماندہ ہوتی گئیں لیکن آئندہ نسلوں کے خون میں یہ خصوصیات موجود رہیں۔ عین ممکن ہے کہ تین چار نسلوں کے بعد آج اس خاندان کے ایک نوجوان میں فوجی پس منظر رکھنے والے اپنے ایک بزرگ کی وہ خصوصیات نمایاں ہو رہی ہوں۔  وہ نوجوان اپنی موروثی خصوصیات کی وجہ سے آج ایک اچھا فوجی افسر بن جائے۔ 



نسلی ورثہ بذریعہ ڈی این اے (DNA):

Hereditary Characteristics through DNA

 انسان کی ہر خوبی مثلاً اچھے اخلاق، سخاوت، دوسروں کے کام آنا، وسیع القلبی، شکر گزاری وغیرہ اور ہر خامی مثلاً بد اخلاقی، لالچ، کنجوسی، خود غرضی، لوگوں کی حق تلفی، تنگ دلی، اذیت رسانی، حسد وغیرہ طبیعت یا مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اچھی یا بری عادتیں مثلاً چستی یا پھرتی، سستی و کاہلی وغیرہ بھی آدمی کے مزاج کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ ہر اچھی سوچ اور بری سوچ، ہر اچھا عمل اور ہر برا عمل آدمی کی جینز کا حصہ بن کر ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid)کے ذریعے اس کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کا مظاہرہ کسی نسل میں بھی ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے