روحانی ڈیفینس سسٹم

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی
Spiritual Defense System

روحانی ڈیفینس سسٹم 

بیماریوں سے مدافعت کا  روحانی نظام....



بیماری کیا ہے اور صحت کیا ہے۔ انسان بیمار کیوں پڑتا ہے  اور کیسے صحت   مند ہوجاتا ہے....؟
میڈیکل سائنس اس بارے میں بتاتی ہے کہ ہمارے جسم میں ایک خاص مدافعتی نظام کام کر رہا ہے جسے Immune System کہتے ہیں۔ یہ امیون سسٹم ہمیں مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ انسانی جسم  میں White Blood Cell یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے یہ نظام متاثر یا  کمزور پڑجائے تو جسم بیمار پڑ جاتا ہے۔ 
ہمارا امیون سسٹم کب متاثر ہوتا ہے....؟
سائنس بتاتی ہے کہ جب آدمی اسٹریس میں ہوتا ہے تو اس کے امیون سسٹم پر برا اثر پڑتا ہےاور بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آدمی ذہنی طور پر مطمئن ہو تو اس کے امیون سسٹم میں ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہوتی ہے۔  
ذہنی دباؤ سے جنم لینے والی کچھ بیماریاں یہ ہیں ۔ مائگرین، معدے کا السر، انگزایٹی، بدہضمی، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، سو رائسز، آرتھرائٹس وغیرہ۔یعنی بیماریوں کا اصل تعلق  جسم سے  نہیں ذہن سے ہے۔ جسم تو صرف اس کے اثرات کا اظہار کرتا ہے،   ہم ذہنی طور پر پرسکون رہ کر بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔


 علمائے باطن  بتاتے ہیں کہ انسان تین اجزاء کا مجموعہ ہے۔ایک انسان کا مادّی جسم جو گوشت پوست ، کھال و ہڈیوں سے بنا ہوا ہے۔ دوسرا جز  انسان کی روح ہے ۔ تیسرا جز روشنیوں کاہیولیٰ ہے، اس غیر مرئی ہیولیٰ کو علمائے باطن نے جسم مثالی کا نام دیا ہے۔  سائنسدان اسے اورا AURA  کا نام دیتے ہیں۔

انسانی زندگی کے جتنے بھی تقاضے ہیں سب اسی جسم مثالی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہاں سے منتقل ہو کر گوشت پوست کے جسم کے اوپر ظاہر ہوتے ہیں۔ 
 نسمہ کوہم قوت حیات یا انرجی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی انرجی ہمارے جسم کو چلا رہی ہے۔  اس غیر مادی قوت حیات میں کمزوری آنا ذہنی یا جسمانی بیماری کا سبب بنتا ہے۔   اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ نسمہ ہمارا باطنی امیون سسٹم یا  روحانی ڈیفینس سسٹم ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ روحانی ڈیفینس سسٹم  متاثر یا  کمزور پڑجائے تو جسم بیمار پڑ جاتا ہے۔  اس روحانی ڈیفینس سسٹم کو  مضبوط اور مستحکم کرکے ہم بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

معروف روحانی اسکالر  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی کتاب ’’مراقبہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں  
’’نظریہ رنگ و نور ہمیں بتاتا ہے کہ نہ صرف انسان کے جسم بلکہ حواس میں بھی رنگوں کی مخصوص مقداریں کام کرتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے رنگوں کے نظام میں تبدیلی واقع ہو جائے، کسی رنگ کی کمی ہو جائے، کوئی رنگ زیادہ ہو جائے یا رنگوں کے تناسب میں فرق آ جائے تو محسوسات میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب ایک عام شخص میں رنگوں اور روشنیوں میں معمول سے ہٹ کر تبدیلی واقع ہوتی ہے تو طبیعت اس کو برداشت نہیں کر پاتی اور اس کا مظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یا ذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہم اس کو کسی نہ کسی بیماری کا نام دیتے ہیں ۔ ‘‘

Image result for ‫اورا site:roohanidigest.online‬‎






<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

جواب:

 نسمہ کی لہروں یعنی روحانی ڈیفینس سسٹم  کے توازن  کو برقرار رکھنے کے لئے کئی طریقہ علاج رائج ہیں۔ ان طریقوں میں مادی طریقے مثلاً جڑی بوٹیوں، رنگ روشنی  سے علاج،   بایو فیڈ بیک   کے ساتھ ساتھ کچھ رُوحانی طریقے جیسے ورد ،  ذکر ،  مراقبہ، یوگا اور ریکی وغیرہ شامل ہیں۔
ماہرین نفسیات ذہنی مسائل کے حل کے لیے  سادہ  اور مثبت اندازِفکر پر بہت زور دیتے ہیں۔ یعنی آپ تذبذب اور  ذہنی کی کیفیت سے بچنے کی کوشش کریں کیونکہ اس سے ذہنی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ ذہنی صحت متاثر ہونے سے جسمانی صحت پر بھی برے اثرات پڑسکتے ہیں۔ چنانچہ  آدمی کو حسد، انتقام، غصہ، منافقت، شکوک و شبہات اور اخلاقی برائیوں سے بچنا چاہیے۔

 ذہنی سکون حاصل کرنے کا ایک طریقہ مراقبہ  Meditationہے۔ مراقبہ  اسٹریس سے جنم لینے والے کئی  مسائل مثلاً مائگرین، معدہ کا السر اور انگزائٹی وغیرہ کو قابو کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔  
روحانی ڈیفینس سسٹم کو مضبوط رکھنے  میں یوگا کی  خاص  اہمیت  ہے۔   یوگا ایسے اصولوں کا مجموعہ ہے جس میں جسمانی نشست، برخاست کے ذریعے سکون  حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مغربی ماہرین کی تحقیق میں  دیکھا گیا کہ یوگا کرنے سے انگزائٹی، دباؤ، ڈپریشن اور غصے میں کمی آئی۔  
ایک طریقہ علاج ریکی ہے ۔ ریکی Reiki  تھیوری کے مطابق جسم میں کائناتی توانائی (نسمہ)کے کچھ چینلز موجود ہیں،  جہاں توانائی Circulate کرتی رہتی ہے۔ اگر جسم کے کسی حصے پر توانائی کے بہاؤ میں کمی آجائے تو وہاں بیماری کا حملہ ہوجاتا ہے۔ ریکی طریقہ علاج سے اس حصے میں توانائی  کا بہاؤ بہتر کیا جاتا ہے۔
 جسم اور ذہن کی  لہروں کے توازن کو ہم آہنگ کرنے کے لیے  ایک طریقہ بائیو فیڈبیک   Biofeedbackہے،   اس میں  انسانی جسم پر الیکٹروڈز لگائے جاتے ہیں  جن کی ذریعے جسمانی  لہروں کا ردعمل پولی گراف مشین  پر  ظاہر ہونے لگتا ہے ۔  اس مشین کے ذریعے  لہروں کو توازن میں لایا جاتا ہے۔ 
 مذہبی تعلیمات میں  جو عبادت، اذکار اور تسبیحات بتائی جاتی ہیں ان  سے آدمی ذہنی سکون محسوس کرتا ہے۔ مثلاً اگر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ، تسبیحات اور ذکر و اذکار کیا  جائے تو  بہت سکون ملتا ہے۔ طبیعت میں ٹھہراؤ اور تازگی آجاتی ہے۔ اس ذہنی سکون کا ہماری صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔

کتاب ’’نظر بد اور شر سے حفاظت ‘‘ میں
’’روحانی قو  تِ مدافعت  ‘‘
  کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے کہ
’’بیماریوں سے جسم کی حفاظت اور اگر بیماری کا حملہ ہوجائے تواس سے مقابلے کے لیے  قدرت نے جسم میں ایک خاص نظام وضع کیا ہے۔ اسے جسم کا مدافعتی  نظامImmune System  کہا جاتاہے۔  بیماریوں سے حفاظت یا مقابلہ کی  اس صلاحیت کوقوتِ مدافعت  Immunity  کہا جاتا ہے۔ جسمانی کمزوری سے اس قوتِ مدافعت میں کمی واقع ہوسکتی ہے ۔صحت بہتر بنا کر اوربیرونی مدد Vaccination  سے اس قوتِ مدافعت کوبڑھایا جاسکتاہے۔    جس طرح بیماریوں کے خلاف جسم میں قوت ِمدافعت  پائی جاتی ہے، اسی طرح غیر مادی اسباب  سے لاحق ہونے والی بیماریوں  یاتکالیف سے بچاؤ اور نجات کے لیے بھی قدرت نے نظام بنائے ہیں۔
 جسم انسانی کی حالتِ صحت اورحالتِ مرض  کے بارے میں اور بیماریوں  کے علاج کے بارے میں پہلے انسان کی معلومات بہت کم تھیں۔ علم کے فروغ اور غوروفکر کے ذریعہ انسان اپنے جسم کے بارے میں اور علاج معالجے  کے بارے میں بہت کچھ جان گیا ہے۔ بیماریوں اور تکالیف کے  غیر مادی اسباب پر انسان جتنا زیادہ غوروفکر Research  کرتا جائے گا،  اسی مناسبت سے  زیادہ حقائق اس کے  سامنے واضح ہوتے رہیں گے۔ جدید محققین خصوصاً ماہرین نفسیات، ماہرین مابعد  النفسیات اورڈاکٹرز کو اس شعبے پر توجہ دینی چاہیے۔  
انسان کی فلاح کے لیے مختلف علوم کے حاملین کو مل کر تحقیق کرنے  کی ضرورت ہے۔  اس سوچ کے پیش نظر میری (وقار یوسف عظیمی ) یہ رائے ہے کہ مختلف  امراض کے ماوائی  یا روحانی اسباب، ان کی نوعیت اورعلاج کے موضوع پر ماہرینِ نفسیات، ڈاکٹرز اور روحانی علاج کے اساتذہ کو مل کر تحقیق کرنی چاہیے۔ اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام کی  عظیم المرتبت ہستیاں  انسانوں کے لیے رُشدوہدایت  کے ساتھ عوام کے لیے شفاء اور سکون کا ذریعہ بھی  رہی ہیں۔ بیشتر  اولیا اللہ کی بےشمار اعلیٰ صفات میں یہ صفت  شامل ہے کہ وہ بہترین نفسیاتی معالج بھی ہوتے ہیں۔
 اولیاء اللہ کے اس فیض کو نوع انسانی کی بھلائی کے لیے، نفسیاتی اور دیگر امراض  سے نجات کے لیے تحقیق کا موضوع بنانا چاہیے۔ ان تحقیقات میں میڈیکل سائنس، سوشل سائنس اورنفسیاتی علوم کے ماہرین اہل تصوف کے ساتھ شامل ہوں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ  سائنٹسٹ  اور سائیں یعنی اہل علم اور اہل تصوف  کی یہ   مشترکہ عملی جدوجہد نوعِ انسانی کے لیے  فلاح اورسکون کا ذریعہ بنے گی‘‘۔   (بحوالہ کتاب نظر بد اور شر سے حفاظت از ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)


ڑوحانی ڈائجسٹ کے مضمون   سے اقتباس 

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے