دنیا میں کامیابیوں کے حصول کا فارمولا

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


دنیا میں کامیابیوں کے حصول کا فارمولا

دین الگ دنیا الگ گناہ اور جرم میں فرق ۔۔۔؟جائز اور قانونی آمدنی۔۔۔؟



آج ہمارا معاشرہ ابتری اور افراتفری کا شکار کیوں ہے؟....ہمارے ملک میں رشوت، ملاوٹ، میرٹ کا قتل، ظلم و زیادتی کیوں عام ہے۔ قرآن اور تعلیماتِ نبویﷺ سے آگہی کے باوجود ہم ان خراب حالات سے کیوں دوچار ہیں؟....
ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟....سنجیدگی اور غیرجانبداری سے غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارا مسئلہ ہماری ذہنی کجی ہے۔ ہم اپنی سوچ و فکرکا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اپنی ذات ، اپنے معاشرہ، اپنے ملک میں ہم دُہرے معیارات پر عمل پیر اہیں۔ ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی اُس کی ہدایت کے مطابق بسر نہیں کرتے۔ حضرت محمدﷺ سے تعلق بلکہ عشق کا دَم بھرتے ہیں لیکن اس کا اظہار آپﷺ کے اُسوئہ حسنہ پر عمل کے ذریعہ نہیں کرتے۔
ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ ان کے لئے دین الگ ہے اور دنیا الگ....اس طرزِفکر اور طرزِعمل نے ہمارا حال بگاڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا حال درست کس طرح ہوسکتا ہے۔ آئیے اس سوال کا جواب قرآن سے حاصل کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس چیز کو مان لیا جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوئی اور وہ سراسر حق ہے ان کی رب کی جانب سے۔ اللہ  نے ان کی برائیاں ان سے دور کردیں اور ان کا حال درست کردیا۔  [سورۂ محمد  (47): آیت 2 ]
سورۂ محمد کی اس آیت میں دنیا میں کامیابیوں کے حصول کے فارمولہ کا بیان ہوا ہے۔ دنیا کی ایسی کامیابی جس کے ساتھ اللہ  کی رضا ، اللہ  کی مدد اور اللہ  کا فضل شامل ہے۔ یہ فارمولہ نہایت واضح اجزاء پر مشتمل ہے۔
1- یہ اُن لوگوں کے لئے ہے جو اللہ  پر ایمان لائے....
2- یہ اُن ایمان لانے والوں کے لئے ہے جنہوں نے اس دنیا میں اچھے کام کئے۔ (اچھے کام کیا ہیں؟....اس کا مختصر جائزہ ہم آئندہ سطور میں لیں گے)
3- ان ایمان لانے والوں اور اچھے کام کرنے والوں نے محمدﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کو’’ جو باری تعالیٰ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوا ہے‘‘  مکمل ضابطۂ حیات کی حیثیت سے تسلیم کرلیا ہے۔
جو لوگ اس راستہ کو اختیار کرلیتے ہیں قرآن کے مطابق اللہ  ان کی برائیاں ان سے دور کردیتا ہے اور ان کے حال کی اصلاح کردی جاتی ہے۔ 
برائیاں دور کرنے اور حال کی درستگی کی مثال ایک بیمار جسم سے بھی دی جاسکتی ہے۔ یعنی کوئی جسم جو بیماریوں کا گھر بن چکا ہو اس کی تمام بیماریاں ختم ہوجائیں اور وہ دوبارہ صحتمند و تندرست ہوجائے....
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہمارا اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی نظر آئے گا۔ ہمارے معاشرے میں کئی طرح کی خرابیاں اور کئی اقسام کی بیماریاں محسوس ہوں گی۔ اپنے معاشرہ کی خرابیوں کو دیکھ کر دُکھ اور اضطراب میں مبتلا بعض ہم وطنوں پر مایوسی بھی طاری ہونے لگتی ہے۔ 
ایک طرف نہایت اچھی اچھی باتیں!....دوسری طرف رشوت، ملاوٹ،دھوکہ دہی، ظلم و زیادتی، انتشار، نسلی لسانی تقسیم، فرقہ بندی اور مذہبی انتہا پسندی کی شدت!....
ہمارے معاشرہ میں Polarisation پر مبنی یہ صورتحال کیوں ہے؟....اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اختیار کردہ دُہرے معیارات ہیں۔ اچھائی اور بُرائی کے اپنے وضع کردہ پیمانے ہیں۔ آئیے قرآن کی سورئہ محمد کی مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں اپنے حالات کو سمجھنے اور سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور محمدﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کو تسلیم کرلیا، ان کی برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کردی جاتی ہے۔
آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نتیجہ کس میکنزم سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا پہلا حصہ ایمان ہے، یعنی اللہ  قادر مطلق وحدہٗ لاشریک پر ایمان!....اس ایمان میں روزِ قیامت پر پختہ یقین بھی شامل ہے۔ 
آئیے! ہم اپنے آپ کو ٹٹولیں کیا ایمان ہمارے قلوب میں پوری طرح جاگزیں ہوچکا ہے؟ 
کیا روزِ قیامت اپنے اعمال کی جوابدہی کا یقین ہمارے اندر  راسخ ہے؟....
 کیا ہمارے سرکاری اہلکارکو ، تاجر کو پورا یقین ہے کہ جو مال ہم رشوت اور دیگر حرام ذرائع سے کمائیں گے قیامت کے دن اس کا پورا پورا جواب دینا ہوگا۔ 
اگر واقعی قیامت کا یقین ہمارے دل میں بسا ہوا ہوتا تو کیا ہم رشوت، ملاوٹ، دھوکہ دہی، فریب سے دولت کمانے کا تصور بھی کرسکتے تھے؟....
ہم امریکہ اور مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں کہ لوگ سرکاری دستاویز اور تجارتی لین دین میں جھوٹ نہیں بولتے۔ 




<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

ایسا کیوں  ہے؟....کیا وہ لوگ صرف سچ بولنا جانتے ہیں اور جھو ٹ سے ناواقف ہیں؟.... 
اصل بات یہ ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ جھوٹ بولیں گے تو وہاں کارفرما نظام انہیں کبھی نہ کبھی پکڑلے گا اور پھر ان کی جاں بخشی مشکل ہوگی۔ لہٰذا جوابدہی کا یقین انہیں اپنے ملک میں جھو ٹ بولنے سے باز رکھتا ہے۔
 جن لوگوں کو قیامت کے دن بلکہ اس دنیا میں بھی مکافاتِ عمل کے تحت جوابدہی کا یقین ہے وہ راستہ پر چلتے ہوئے تمام قوانین و ضوابط کی پابندی کرتے ہیں۔ جو محض زبان سے قیامت کا ذکر کرتے ہیں مگر اُنہوں نے اپنے دلوں میں یقین کو نہیں بسایا ہوتا وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں، رشوت بھی لیتے ہیں، ملاوٹ بھی کرتے ہیں اور جھوٹی گواہی بھی دیتے ہیں۔ ایسے کچھ لوگ کرسیٔ عدل پر بیٹھ کر ناانصافی کرتے ہیں۔ ظلم و زیادتی کے کاموں میں شریک و معاون ہوتے ہیں۔ اِس گروہ سے تعلق رکھنے والے رہنما اور دانشور قوم کو سیاسی، لسانی و مذہبی گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے نفرت کے الاؤ روشن کرتے ہیں۔
قرآن بتاتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہوتا....
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ 
اور یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا ہے۔ [سورۂ الحجرات(49): آیت 14]
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں اپنے معاشرتی رویّوں کا جائزہ لیں ....کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ آج ہمارا معاشرہ ایسی ہی کیفیت میں ہے کہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل نہیں ہوا؟....
کامیابی کی پہلی شرط ایمان ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے یہ شرط پوری کرنے کی طرف توجہ کی جانی چاہئے۔ کامیابی کی دوسری شرط اچھے کاموں کی انجام دہی ہے۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیںکہ اچھے کاموں کے لئے کہتے ہیں اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہیں۔ [ سورۂ توبہ (9): آیت  71]

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف بلائے اور اچھے کاموں کے لئے کہے اور بُرے کاموں سے منع کرے۔[ سورۂ آل عمران (3):آیت  104]

اپنے معاشرتی حالات سدھارنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کن بُرے کاموں سے بچنا، کن اچھائیوں کو اپنانا اور پھیلانا ہوگا۔ بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، نیکی کے کام ہیں۔ یقینا یہ نیکی کے کام ہیں۔ نماز، روزہ، ارکانِ اسلام میں شامل ہیں۔ یہ عبادات کا سب سے اہم حصہ ہیں تاہم نیکی کا دائرہ عبادات سے آگے بڑھ کر انفرادی و معاشرتی معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دائرہ میںسیاست و حکومت، نظامِ عدل، معیشت و کاروبار، عمرانیات وغیرہ ....معاشرہ کے سب ہی شعبے شامل ہیں۔ اپنے حالات کے سدھار کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں ہمیں اچھائی اور بُرائی کی حقیقی تعریف متعین کرنا ہوگی۔
کیا آپ نے اس بات پر کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے معاشرہ کے کئی لوگ مذہبی فریضہ سمجھ کر اپنے ذمہ واجب الادا پوری زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ لیکن انکم ٹیکس کی ادائیگی یا تو کرتے ہی نہیں یا پھر اصل آمدنی کو کم ظاہر کرتے ہوئے کم سے کم انکم ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں۔ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی گناہ ہے۔ انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی یا کم ادائیگی ملکی قانون کے تحت جرم ہے۔
روزہ کے دوران جان بوجھ کر کچھ کھالینا حتیٰ کہ افطار سے چند سیکنڈ پہلے ہی کچھ کھالینا ملکی قانون کے تحت جرم کے زُمرہ میں تو نہیں آتا لیکن یہ اعمال گناہ میں شمار ہوتے ہیں۔ کوئی شخص خواہ پابندی سے نماز ادا نہ کرتا ہو لیکن وہ جب بھی نماز ادا کرے گا پاک صاف اور باوضو ہوکر نماز ادا کرے گا۔ بے وضو نماز ہوتی ہی نہیں ہے۔ بے وضو نماز ادا کرنا گناہ کے زُمرہ میں آتا ہے۔ 
اہم نکتہ یہ ہے کہ جن کاموں کو ہم گناہ سمجھتے ہیں ان کے ارتکاب سے حتیٰ الامکان بچنا چاہتے ہیں لیکن جن کاموں کے بارے میں ہمیں علم ہے کہ یہ جرم ہیں ان کے ارتکاب پر کئی مذہبی لوگوں کو بھی بعض اوقات  کوئی افسوس یا پشیمانی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے لوگ تو قانون کی خلاف ورزی کے ذریعہ اپنے بہادر ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ کتنے ہی باریش چہروں والے پابند صوم و صلوٰۃ اصحاب ایسے ہیں جن کی ماہانہ لاکھوں کی آمدنی ہے لیکن وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ایسے کتنے ہی لوگ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لئے ہر سال جھوٹے بیانات پر دستخط کرتے ہیں۔
کسی بھی معاشرہ کے استحکام یا کمزوری میںدو عوامل نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں ایک تو یہ کہ اس معاشرہ میں عدل و انصاف کی فراہمی کی صورتحال کیسی ہے دوسرے یہ کہ ملک کے افراد کی آمدنی کس قدر جائز اور قانونی ہے۔ جن معاشروں میں ناانصافی رشوت، ٹیکس چوری اور لوٹ مار کاچلن عام ہوجاتا ہے وہ معاشرے کبھی استحکام اور ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔
ہماری حالت اس وقت سدھرے گی جب ہم ملکی قوانین کے خلاف ورزی کو بھی گناہ کے ارتکاب کی طرح بُرا سمجھنے لگیں گے۔ جب ہم زکوٰۃ کی طرح اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس بھی پوری دیانتداری سے ادا کرنا شروع کردیں گے۔ جب ہمارے ملک کی سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کو بھی گناہ کی طرح بُرا سمجھا جائے گا۔ جب ہمارے ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ جب لوگ رزق حلال کو نیکی سمجھیں گے اور رزق حرام کو گناہِ کبیرہ سمجھ کر اس سے اجتناب کرنے لگیں گے۔ملک میں انصاف کی فراہمی اور لوگوں کے معاشی استحکام کے لئے اقدامات امربالمعروف ااور نہی عن المنکر کے دائرہ میں آتے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت میں یہ سب کام بھی دین کی تبلیغ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ اچھے کام ہیں جن کی انجام دہی سے ہمارے معاشرے کی خرابیاں دور ہوسکتی ہیں اور ہمارے حالات سدھر سکتے ہیں۔ ان اعمالِ صالحہ کی انجام دہی سے ہم اللہ  کے انعام و اکرام کے حق دار بن سکتے ہیں۔ اللہ  کا وعدہ ہے
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 

جو بھی اچھے کام کرے وہ مرد ہو یا عورت بشرطِ کہ وہ مومن ہو تو ہم اُنہیں اس دنیا میں ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور انہیں ان کے اچھے کاموں کا بہترین اجر عطا کریں گے۔ [سورۂ النحل (16): آیت 97]


ڈاکٹر دقار یوسف عظیمی کے کالم حق الیقین مطبوعہ 2004ء سے اقتباسات

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے