سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے تحریر کردہ رسالہ ’’اسلام اور ایمان‘‘ سے اقتباس
دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان بالعموم کسی مذہب سے وابستہ ہیں۔
ہر مذہب کے چند خاص عقائد، نظریات اور تعلیمات ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان، مادی طور پر انسان کی بنیادی ضروریات زندگی ہیں۔ عقیدہ بھی انسان کی لازمی ضروریات میں شامل ہے۔ اس دنیا میں کچھ لوگ کسی مذہب پر ہونے کا اقرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگ Atheist، لامذہب یا بے عقیدہ کہلاتے ہیں۔ سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب اپنے کالم ‘‘آوازِدوست’’ میں لکھتے ہیں کہ بے عقیدہ ہونا بھی ایک عقیدہ ہے۔
مذہبی عقائد، نظریات اور تعلیمات اپنے پیروکاروں کا ایک خاص مزاج بھی بناتے ہیں۔ اس خاص مزاج کا اظہار معاشرتی طرزوں، معیشت کے انداز، ثقافتی خصوصیات، فنون لطیفہ اور دیگر شعبوں کے ذریعے ہوتا رہتاہے۔
اسلامی عقائد، نظریات اور تعلیمات کے زیر اثر بننے والے مزاج کی دنیا بھر میں نمائندگی گزشتہ کئی صدیوں میں زیادہ تر ان افراد کے ذریعے ہوئی جنہیں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے۔
اولیاء اللہ کے سعید گروہ میں سے کئی ہستیوں نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نظر رحمت اور نسبت سے خالق کائنات اللہ وحدہُ لاشریک کی معرفت کے کئی مراحل طے کیے۔ ان ہستیوں نے اللہ کی صفات کو سمجھا اور خوب سے خوب تر انداز میں اللہ کی بندگی کرتے ہوئے اللہ کی محبت اور قربت پائی۔
کئی اولیاء اللہ نے سلاسل طریقت کے نام سے قائم اداروں کے ذریعے قرآن پاک کی تعلیم، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی ترسیل اور تفہیم، انسانوں کی فلاح اور اصلاح، انسانوں کی مدد خدمت اور علوم کے فروغ کے لیے کوششیں کیں۔
دو سو سے زائد سلاسل طریقت کی فہرست میں بیسویں صدی کے درمیانے حصے میں سلسلہ عظیمیہ کی شمولیت ہوئی۔ سلسلہ عظیمیہ کے بانی، امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیاء ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کا شجرہ نسبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے واسطے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے۔
تصوف کے طالب علموں کی تربیت عموماً دو طرزوں پر ہوتی ہے۔ ایک راہ، سلوک کی راہ کہلاتی ہے دوسری جذب کی راہ کہلاتی ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے امام نے اراکین سلسلہ عظیمیہ کی تربیت اور تعلیم کے لیے سلوک کی راہ منتخب فرمائی۔
اس دنیا میں ہر تعلیمی نظام اپنے مقاصد اور اہداف رکھتا ہے۔ ان مقاصد کو پانے کے لیے نصاب بنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پرٹیچرز ٹریننگ کے تعلیمی اور تربیتی اداروں کا مقصد تدریس کی اچھی مہارت (Good Teaching Skills)، رکھنے والے قابل اساتذہ تیار کرناہے۔ طبی تعلیمی اداروں کے مقاصد میں قابل معالجین کی تیاری سر فہرست ہے۔ ملٹری ٹریننگ کے اداروں کا مقصداچھے سپاہی اور قابل افسر تیار کرنا ہے۔
اس بات کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ٹیچرز ٹریننگ کے اداروں کے ذریعے اچھے اساتذہ تیار کرنے کا اصل مقصد قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ میڈیکل یونیورسٹی سے اچھے معالج تیار کرنے کا مقصد دراصل قوم کو بیماریوں سے بچانا اور صحت مند رکھنا ہے۔ کسی ملک کے ملٹری ٹریننگ کے اداروں سے اچھے سپاہی اور افسر تیار کرنے کا بنیادی مقصد اس ملک و قوم کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے۔
سلاسل طریقت کے نصاب اور تربیت کے بھی خاص مقاصد ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نصاب اور تعلیمات کا مقصد اس فہم اور فکر کو سمجھنا ہے، جس کا تعلق انسانی ذات کے روحانی اور مادی پہلوؤں سے ہے۔ قرآنی آیات، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اولیاء اللہ کے افکار کی روشنی میں بنائے گئے اس نظام کا مقصد ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے فرد کی تربیت اور تعلیم ہے۔ اس نظام میں باطنی پہلو کو اولیّت اور زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایمان کا مرکز قلب ہے۔
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے :
اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِامْرِیٍٔ مَا نَوَی
ترجمہ :‘‘کاموں کا دارومدار آدمی کی نیت پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس کے دل میں نیت ہوگی۔ ’’ [صحیح بخاری، مسلم، ترمذی]
سلسلۂ عظیمیہ کے تربیتی اور تعلیمی نظام میں انسان کے باطن کو زیادہ اہمیت دینے کے کئی مقاصد ہیں۔ ان میں سے چار یہ ہیں:
- نیت کی سچائی
- اعمال میں اخلاص
- مثبت سوچ
- روشن نظر
ان تعلیمات کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس راہ کا طالب علم مراقبہ، ذکر اور دیگر اشغال کے ذریعے اپنے باطن میں سفر (Journey Within) کے قابل ہوکر اپنی اصل یعنی اپنی روح سے واقف ہوتا جائے۔
ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے طالب علم اس کائنات کے خالق اور مالک اللہ کے تخلیقی رازوں کو سمجھنے لگے، اس پر اللہ کی صفات واضح ہوں ۔ اسے اس بات کا ادراک ہوجائے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء عطافرمایا ہے اور اسے زمین پر اللہ کے خلیفہ کا منصب عطا کیا گیا ہے۔
اس ساری تربیت اور تعلیمات کا اولین مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو اللہ کی مشیت کو سمجھتے ہوئے تقویٰ کی صفات کے حامل ہوں، آخرت پر یقین اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کے ساتھ مادی اور روحانی علوم حاصل کرکے دنیا میں خیر اور سلامتی کے فروغ کا ذریعہ بنیں ۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع:
سلسلہ عظیمیہ کی جانب سے اپنے وابستگان کی تربیت کے لیے نصاب، قرآن پاک کی آیات اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ اور حضرت محمد ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کی تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع ، مخزن اور سرچشمہ قرآن کریم کی تعلیمات اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات و تعلیمات ہیں ۔استعداد میں اضافہ:
سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نظام میں یہ نکتہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ سلسلہ عظیمیہ کے اراکین کی شعوری استعداد اور لاشعوری استعداد میں اضافہ ہو۔شعوری استعدادمیں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ مادی اور ظاہری علوم حاصل کیے جائیں۔ زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق علوم کی تحصیل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔
لاشعوری استعدادمیں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ روحانی علوم کی تعلیم اور تفہیم پر توجہ دی جائے۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات مسلم سے مومن بننے کے سفر میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی کی مسلسل تاکید کرتی ہیں۔
سب انسانوں کو آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں ہر ایک اپنا حساب خود دے گا۔ وہاں اولاد یا والدین ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ نہ استاد، نہ کوئی مرشد اپنے مریدوں کے کام آسکیں گے۔ سب کو اپنا اپنا حساب خود دینا ہوگا۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کے روحانی ، علمی، معاشی اور سماجی پہلو ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا بڑا مقصد ایسی طرزفکر بیدار کرنا ہے جس کے ذریعے انسان اپنی روح سے واقف اور روحانی صلاحیتوں سے باخبر ہوجائے۔ اس کی رسائی ان انوار تک ہوسکے جنہیں انوار الٰہی اور انوارِ نبوت کہا جاتا ہے۔ علم الاسماء کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکے، باطنی نگاہ بیدار کرکے یوم ازل میں الست بربکم کے جواب میں بلیٰ کہہ کر کیے جانے والے اقرار کو یاد کرسکے۔ اس زمین پر زندگی اور حیات بعد الموت کے معاملات کو سمجھ سکے۔ زندگی میں فلاح اور آخرت میں نجات کا امیدوار بن سکے۔ ان مقاصد کے لیے روحانی علوم کو سمجھنا ضروری ہے۔ باطنی یا روحانی علوم کے بھی دوحصے ہیں۔ روحانی علوم سے آگاہ ہونا، ان علوم کی تفہیم یا ان علوم کو نظریاتی طور پر سمجھنا علم حصولی کے زمرے میں آتا ہے جبکہ روحانی علوم کے ذریعے مشاہدے سے گذرتے ہوئے لاشعوری یا روحانی حواس کو سمجھنا علم حضوری کے زمرے میں آتا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ چاہتا ہے کہ اس کے اراکین دینی اورروحانی علوم کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق جدید علوم بھی حاصل کرتے رہیں۔ ادب، فقہ، معاشرت، عمرانیات، ثقافت، قانون، تاریخ، میڈیسن، انجینئرنگ کے روایتی علوم ہوں یا برقیات، مواصلات، کمپیوٹر سائنس، خلائی ٹیکنالوجی جیسے جدید علوم، یہ سب علوم ظاہری کا حصہ ہیں اور یہ علم حصولی کے زمرے میں آتے ہیں۔
معاشی شعبہ میں سلسلہ عظیمیہ کی تلقین یہ ہے کہ کسب معاش کے لیے مذہبی اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے بھرپور کوششیں کی جائیں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔ آمدنی حلال اور قانونی طور پر جائزہونا سلامتی اور امانت کے زمرے میں آتا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب، ملاوٹ، کم تولنا، کسی کا حق غصب کرنا، رشو ت خوری، چوری، ڈکیتی جیسے منفی کام سلامتی سے انحراف اور امانت میں خیانت ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ اپنے وابستگان کو تلقین کرتا ہے کہ وہ سماج کی اعلیٰ قدروں کا احترام کرتے ہوئے ایک اچھا شہری بننے کی کوشش کرتے رہیں۔ معاشرے میں رائج کئی بری روایات مثلاً عورتوں کے خلاف صنفی امتیاز برتنا، لڑکیوں کی اچھی پرورش اور ان کی تعلیم سے غفلت برتنا، ماڈرن ایجوکیشن کی مخالفت ، قوانین کی پابندی سے گریز ، اپنے اقربا اور پڑوسیوں کے حالات سے عدم توجہی، اچھے شہری کے فرائض کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے میں کوتاہی برتنا۔ یہ سب برے کام ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ یاد دلاتا ہے کہ سب مرد اور عورت ایک آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ فضیلت کا معیار حسب نسب، دولت یا عہدہ نہیں ہے۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ سلسلہ ٔ عظیمیہ اپنے سب وابستگان کو تاکید کرتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا احترام کرتے رہیں ، خصوصاً خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا جائے۔ ورثہ اور دیگر حقوق، تعلیم کے حصول میں خواتین کے حقوق کی پوری نگہداشت کی جائے۔
سلسلہ عظیمیہ اپنے سب اراکین کو تاکید کرتا ہے کہ بلا امتیاز مذہب و ملت سب انسانوں کی خدمت کی جائے ۔ انسانوں کے ساتھ تعلقات میں اولیاء کرام ؒ کے طریقوں کی پیروی کی جائے۔
ہر مسلمان مرد و عورت پر پانچ وقت صلوٰۃ، رمضان میں صوم، صاحب نصاب پر زکوٰۃ اور صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ عبادات کو ٹھیک طرح ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مقصد سمجھنا اور اس مقصد کی ادائی کے لیے خود کو تیار کرنا ، اس کا تعلق انسان کے باطن یا قلب سے ہے۔ ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ مقصد تخلیق کو پہچانے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے خود کو تیار کرتا رہے۔
قرآن پاک اور رسول اللہ کے ارشادات سے علم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اپنے خالق اور مالک اللہ وحدہُ لاشریک کی معرفت پانا اور اللہ کا عبادت گزار بننا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ زندگی بسرکرتے ہوئے انسانی عقل کو ہمیشہ وحی کے تابع رکھنا چاہیے ۔
قلندر بابا اولیاءؒ کا قائم کردہ سلسلہ عظیمیہ ، اس نصاب کی تربیت و تعلیم کے لیے ایک ادارہ ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ کے شاگرد رشید اور آپ کے روحانی علوم کے وارث حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بطور مربی ومعلم ، تربیت اور تعلیم کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔