اصلاح اور بہتری کیسے ہو؟
گذشتہ سے پیوستہ
دنیا میں ہر آدمی میں کئی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ساتھ بعض خامیاں بھی ہوتی ہیں ۔ خود مجھ میں کئی خامیاں ہوں گی ۔ اپنی بعض خامیوں کا مجھے شاید خود بھی احساس ہو ، بعض خامیاں ہو سکتا ہے کہ مجھے محسوس ہی نہ ہوتی ہوں لیکن دوسروں کے سامنے آتی ہوں۔ عام طور پر لوگ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتے ہیں اور اپنی کسی بات پر تنقید کا برا مناتے ہیں۔ ہمیں عموماً وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو ہماری تعریف کرتے رہتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہم ایک فاصلہ بنانے لگتے ہیں جو ہمیں ہماری خامیاں بتا رہے ہوتے ہیں۔ تعریف کرنے والے کو ہم اپنا حامی اور تنقید کرنے والے کو اپنا مخالف سمجھنے لگتے ہیں۔
کسی شخص میں موجود خامیاں نوٹ کر لینا کوئی مشکل کام نہیں ۔ دوسروں کی ذرا سی خامی بھی سامنے والے کو جلد نظر آجاتی ہے ۔ اپنی بڑی بڑی خامیاں خود کو ہی نظر نہیں آتیں یا محسوس نہیں ۔ اگر اپنی کسی خامی کا پتہ چل جائے تب بھی کئی لوگ اس خامی کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے رویوں کے لیے جواز پیش کرنے لگتے ہیں ۔ اپنی کسی بری عادت ، کسی خامی سے نجات پانا عام طور پر مشکل لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عادت پختہ ہو کر آدمی کے ذہن کو قابو میں کرلیتی ہے۔ بری عادت (Habit )پختہ ہوکر نشے (Addiction) کی طرح ہوجاتی ہے۔
کسی کی اصلاح اور بہتری کے لئے اس کی خامیاں اسے بتانا ایک مثبت کام ہے ۔ تاہم خامیوں کی نشاندہی کا انداز ایسا ہو کہ سننے والے کو اس میں اپنے لئے طنز، ہتک یا کوئی اور منفی تاثر محسوس نہ ہو ۔ طنزیہ یا ہتک آمیز انداز سے مخاطب کو ناگواری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ناگواری اصلاح کے خلاف مزاحمت بڑھا سکتی ہے۔
مشق:
آپ اس صورت حال کو چشم تصور سے دیکھیے (Visualize ) کیجئے۔
ایک شخص کی بہت اخلاص کے ساتھ کی جانے والی کوششیں صرف اس کے لہجے کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوگئیں۔
اولاد کو ، شاگردوں کو ، جیون ساتھی کو ، کسی ایک یا چند دوستوں، دفتر کے ساتھیوں کو نصیحت مشفقانہ انداز اور نرم لہجے میں کرنی چاہیئے۔
یاد رکھئیے .... نصیحت اور تنبیہہ میں فرق ہوتا ہے۔ نصیحت میں امید پنہاں ہے اور تنبیہہ میں خوف
نصیحت کا مقصد ہوتا ہے کسی کو غلط روش سے بچنے اور صحیح راہ پر چلنے کی تلقین کرنا۔ نصیحت کسی عمل کے اچھے نتائج کی امید دلاتے ہوئے نرم لہجے میں ہوتی ہے۔
تنبیہہ (To Warn )کا مقصد ہوتا ہے کسی غلط, ناپسندیدہ یا خلاف قانون کام سے باز رکھنے کی کوشش کرنا۔ تنبیہہ قانون کی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنے کی وعید اور سزا کا خوف دلاتے ہوئے عموماً سخت لہجے میں ہوتی ہے
آپ چند نکات اور نوٹ کیجئے۔
نصیحت میں اچھائی کی امید ، فلاح اور عزت کا احساس پنہاں ہے۔
تنبیہہ میں سزا کا خوف ، خسارے اور ذلت کا احساس پنہاں ہے۔
ایک اور اہم نکتہ:
نصیحت دوسروں پر زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہو اس کے لیے ناصح کو اپنے مخاطبین کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا ۔ ایک آدمی کے دل میں میرے لئے جو مقام ہو گا میری بات اس پر اس کے مطابق ہی اثر ڈال پائے گی۔
اس سے واضح ہوا کہ دوسروں کے دل میں اچھا اور معتبر مقام بنانا استاد، لیڈر یا سینیئرز کی اپنی ذمہ داری ہے۔ یہی صورت حال اولاد کے معاملے میں والدین کی ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے ، آپ کے شاگرد ، آپ کے ماتحت یا دوسرے لوگ آپ کی بات کو ، آپ کی رائے کو اہمیت دیں اور آپ کی نصیحت پر دل و جان سے عمل کریں تو آپ کو ان کے قلب و ذہن میں اپنے لئے آمادگی اور تسلیم و رضا (Acceptance) پیدا کرنا ہوگی۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
یہاں دو نکات نوٹ کرلیجیے۔۔۔
1_ پہلا نکتہ یہ کہ احترام (Respect) میں اور تسلیم (Acceptance) میں فرق ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کسی گھر میں اولاد اپنے والدین کا بہت ادب و احترام (Respect) کرتی ہو لیکن زندگی کے کئی معاملات میں اولاد اپنے والدین خصوصاً والد کے خیالات یا ان کی رائے کو تسلیم نہ کرتی ہو۔
یاد رکھئیے....! کسی کی نصیحت پر خوش دلی سے آمادگی اور پھر عمل کی بنیاد اس شخص کی بات کو دل و ذہن سے قبول کرنا ہے۔
2_ دوسرا نکتہ یہ کہ بعض افراد کے خیالات ، نظریات ، کسی کی شخصیت کے لیے کشش و گریز کے معیار ایک آدمی کی حق آگہی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اپنی ذاتی یا گروہی ضروریات یا مفادات کے مطابق تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ایسی طبیعت یا ایسا مزاج رکھنے والے لوگوں سے کوئی اچھی بات کتنے ہی اچھے لہجے میں کی جائے وہ بات قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے ۔ عموماً اس شخص کی بات کو قبول نہ کرنے بلکہ رد کردینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ذاتی مخالفت یا سیاسی ، مسلکی اور دیگر شعبوں میں مخالفت کے منفی نتائج زیادہ تر اسی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔
کسی میں موجود کوئی خامی دور کرنے کے لئے ا سے سدھار(Correction) یا اصلاح (Reform)کی ترغیب دینا نصیحت کہلاتا ہے۔
نصیحت کم از کم دو اجزا پر مشتمل ہوتی ہے ۔
پہلا جزو شفقت کے ساتھ خامی کی نشاندہی اور اس کی وجہ سے ہونے والے ممکنہ خسارے سے آگاہ کرنا
دوسرا جزو۔ اس خامی سے ہونے والے خسارے کو روک کر اچھائی اور بہتری کی طرف مائل کرنا
نصیحت اور انتباہ کے انداز اور اثرات میں مزید فرق نوٹ کیجیے۔
انتباہ کے پیچھے کسی بھی قسم کی کوئی اتھارٹی ہوتی ہے ۔ انتباہ کا لہجہ بھی عموما حاکمانہ (Authoritative) ہوتا ہے. انتباہ نہ ماننے والے کو سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مثلا ہائی وے پر اسپیڈ لمٹ کی پابندی نہ کرنے والوں پر جرمانہ عائد کر دینا ۔
نصیحت کرنے والا ضروری نہیں کہ کوئی قانونی اختیار اور طاقت (Authority)رکھتا ہو ۔ ان کی پوزیشن زیادہ تر اخلاقی ہوتی ہے ۔ نصیحت کا لہجہ حاکمانہ نہیں بلکہ مشفقانہ ہوتا ہے۔ نصیحت کرنے والا نصیحت نہ ماننے والے پر کوئی جسمانی یا مالی سزا نافذ نہیں کرتا لیکن نصیحت قبول نہ کرنے والے کو قوانین قدرت کی خلاف ورزی ، نعمتوں کی ناقدری اور اللہ اور بندوں کی ناشکری اور دیگر منفی کاموں پر چھوٹے یا بڑے خسارے کی صورت میں کوئی نہ کوئی سزا بہر حال بھگتنا ہوتی ہے۔
جس شخص کو خامیاں بتائی جارہی ہوں اس کا اپنی خامیوں کو تسلیم کرلینا اچھائی کی طرف پہلا قدم ہے ۔ برسوں پرانی خراب عادتوں ، برے رویوں ، تلخ لہجوں ، ناقص طرز عمل کی اصلاح ایک مشکل کام ہے۔ غلط سوچ یا غلط طرز فکر کی اصلاح اس سے بھی زیادہ مشکل عمل ہے۔
اپنی کوئی ایک یا زیادہ خامیاں تسلیم کر لینے والوں کے ساتھ معلم یا مصلح یا والدین کا رویہ بالعموم ہم دردی اور شفقت والا ہونا چاہیئے ۔ کسی خامی سے نجات پانے کے خواہش مند افراد خصوصاً ایسے نوجوان افراد کا حوصلہ نرمی ، شفقت اور محبت سے بڑھانا چاہیئے۔
اپنی خامیاں تسلیم کرلینے والوں اور اپنی بہتری کے لیے عملی اقدامات پر آمادہ افراد کو ان خامیوں سے چھٹکارا پانے کے طریقے بھی بتانے چاہییں ۔
اپنی کسی بری عادت سے چھٹکارا پانے، کسی خامی سے نجات پانے کی کوشش کرنا اصلاح کا عمل کہلاتا ہے ۔ اس عمل کے تین مراحل ہیں۔ انہیں ہم تین "الف" بھی کہہ سکتے ہیں
پہلا الف ....ادراک ۔ اپنی کسی خامی، کسی غلطی، کوتاہی یا کسی بری عادت کا ادراک ہو جانا ۔۔۔ یہ ادراک خود بھی ہوسکتا ہے یا دوسروں کے بتانے پر آدمی اپنی کسی خامی سے آگاہ ہوسکتا ہے۔
دوسرا الف ....اعتراف ۔ کئی لوگوں کو از خود یا دوسروں کے بتانے سے اپنی کسی خامی کا ادراک تو ہوجاتا ہے ہے لیکن وہ اپنی اس خامی کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی خامیوں یا غلط طرز عمل کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کرنے لگتے ہیں ۔ غلطی یا خامی یا برائی کا ادراک شاید آسان ہو لیکن اس کی اصلاح کے لئے اعتراف کا مرحلہ اکثر مشکل نظر آتا ہے۔
تیسرا الف ....اصلاح۔ کسی خامی ، کسی بری عادت کے ادراک اور اعتراف کرلینے کے بعد اس سے نجات پانے کے لیے اصلاح کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ خامیوں اور کوتاہیوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے ....؟
اپنی شخصیت میں موجود خامیوں کو پروان کیسے چڑھایا جائے....؟
نئی نئی خوبیاں کیسے اپنائی جائیں....؟ (جاری ہے)