کسی خوبی اور صلاحیت کو
مالی فوائد یا سماجی مقام میں اضافےکے لیے
کیسے استعمال کیا جائے۔۔۔؟
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے ایک لیکچر سے انتخاب
بچے اپنی
تعریف سن کر بہت خوش ہوتے ہیں ۔ بچوں کی تعریف دوسروں کی طرف سے ہو یہ بات والدین کے لئے خوشی کا ذریعہ بنتی ہے ۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کی خاندان
بھر میں تعریف ہو۔ مائیں اپنے بچوں کو اچھے اچھے کپڑے پہناتی ہیں، ان کے بال بناتی
ہیں ، بچوں کو نظر سے بچانے کے لئے اس کے چہرے پر کاجل سے سیاہ تل بنا دیتی ہیں یا
سیاہ ڈوری اس کی کلائی پر باندھ دیتی ہیں ۔ والد بیٹی کے لئے، بیٹے کے لئے ان کے پسندیدہ
کھلونے خرید کر لاتے ہیں ۔
بچے جیسے
جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کے ساتھ برتی جانے والی شفقت اور لاڈ پیار کے انداز بھی
تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔
والدین اور
اہل خانہ کے بعد بچے کی زندگی میں زیادہ اہمیت
ٹیچر کی ہے۔ اکثر شاگرد اپنے اساتذہ کی کہی ہوئی بات کو والدین
کی بات سے زیادہ مستند سمجھتے ہیں۔ اچھے اساتذہ
کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے شاگرد علم حاصل کر کے نمایاں مقام حاصل کریں۔ شاگرد کی کامیابی استاد کے لیے خوشی کا اور کریڈنشیل میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے۔
والدین اور
اساتذہ بچوں کی اچھی باتوں پر ان کی تعریف زیادہ کرتے
ہیں۔ تعریف مزید محنت کرنے پر اور ترقی کرنے پر اُبھارتی ہے۔ البتہ تعریف کے منفی اثرات
بھی پیش نظر رہنے چاہئیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گھر میں جن بچوں کو بہت زیادہ سراہا
جاتا ہے ، ان کی ہر چھوٹی چھوٹی بات کی تعریف کی جاتی ہے۔ ان کی کسی غلط بات پر بھی
انہیں ٹوکا نہیں جاتایا ان کی کسی خامی پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا جاتا ایسے بچوں کی شخصیت مضبوط نہیں ہوپاتی۔
ایسے بچے زیادہ تر کمزور شخصیت (Weak Personality)
والے بن جاتے ہیں۔
یاد رکھیے....!
بچے ہوں یا بڑے صرف سراہے جانا ان کی شخصیت کی اچھی تعمیر کے لیے مفید نہیں۔ کسی
بڑے یا بچے کو صرف ٹوکتے رہنا بھی مناسب طرز عمل نہیں ہے۔
اس کے لیے
میں نے ایک جملہ لکھا ہے۔
والدین ، اساتذہ اور سینئرز کا طرز عمل یہ ہو کہ :
خوبیاں سراہو، خامیاں بتاؤ
سراہے جانا
خوشی کا سبب بنتا ہے۔ سراہے جانے کی وجہ سے انسانی جسم میں کئی ہارمونز مثلاً ڈوپامائین(Dopamine)،
سیروٹینن(Serotonin)، کارٹی سول(Cortisol) اور آکسیٹوسن(Oxytocin) خارج ہوتے ہیں ۔ بچوں اور بڑوں میں، ہر عمر کے افراد میں سراہے جانے سے ملنے والی خوشی
کا احساس ایک طرف تو سکون اور کبھی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے دوسری طرف یہ احساس مزید
اچھا کرنے پر ابھارتا ہے۔
والدین ، اساتذہ، مخلص ساتھیوں کو کسی کی خوبیوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان خوبیوں
میں اضافے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ جو لوگ
اپنی خوبیوں میں اضافہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں، اب ان کی مزید مدد کرنی چاہیے۔ یہ مدد اس طرح ہو کہ اپنی اولاد، اپنے شاگردوں
یا اپنے دوستوں کے لیے عملی تربیت کا
اہتمام کیا جائے۔
لوگوں میں موجود کئی خوبیاں محض اس وجہ سے انہیں پھل
نہیں دے پاتیں کیونکہ وہ ان خوبیوں کو اچھے نتائج میں بدلنے کا ہنر نہیں جانتے۔
اچھی تربیت کے ذریعے خوبیوں یا صلاحیتوں کو مالی فوائد کے حصول، سماجی مقام میں اضافے
اور دیگر معاملات میں بہتری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>