اسلام اور ایمان - ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


اسلام اور ایمان


سلسلہ عظیمیہقلندر شعور فاؤنڈیشن 
پچیسویں روحانی ورکشاپ26 جنوری 2019ء

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی





بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
واَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ مُحَمَّدٌ رَّسُولَ اللَّهِ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ 



عنوان نمبر1 :


  اسلام کیا ہے۔ ایمان کیا ہے....؟


اسلام کیا ہے....؟

اس کائنات کے خالق و مالک، اللہ کی کتاب قرآن اور اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے انسانوں کو یہ آگہی ملتی ہے کہ اسلام اور ایمان ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ دو علیحدہ درجات بھی رکھتے ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ 
 ترجمہ: ’’دیہات سے آنے والے بعض افراد کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،  (اےمحمدﷺآپ ان سے )فرمادیجیے کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے البتہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں۔ ابھی تم نے ایمان کو اپنے دلوں میں نہیں بسایا ہے۔ ‘‘    [سورۂ الحجرات (49) : آیت 14]

 اسلام زبان سے اقرار ہے اور اس اقرار کی دل سے تصدیق ایمان ہے۔  اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے اور ایمان کا مرکز قلب یا باطن ہے۔ معلم اعظم حضرت محمد  ﷺ نے انسانوں کو اس حقیقت سے آگاہ فرمایا ہے کہ آدمی کے اعمال کے نتائج اس کی نیت پر منحصر ہوتے ہیں۔ نیت کا تعلق ظاہر سے نہیں باطن سے ہے۔  سچائی، امانت اور تقویٰ کا تعلق بھی قلب یا باطن سے ہے۔ 
ہر لفظ اپنے لُغوی معنی رکھتا ہے۔ الفاظ کے اصطلاحی معنی بھی ہوتے ہیں۔  چند الفاظ کے لُغوی، اصطلاحی معنی کے ساتھ اطلاقی معنی بھی ہوتے ہیں۔ 
 انسانی زندگی میں اسلام اور ایمان کا اِطلاق کب اور کس طرح ہوگا اور ان اِطلاقات سے کیا نتائج مطلوب ہیں، انہیں سمجھنے کے لیے ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان ‘‘کے مفاہیم کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔  
اِسْلَامْ اور ایمان کے لُغوی، اصطلاحی اور اِطلاقی معنی سمجھنے سے آگہی ، فہم اور بصیر ت کے کئی زاویے واضح ہوتے ہیں۔ 
اسلام ایک کثیر المعنی لفظ ہے۔ اس لفظ کی بنیاد   (Root Word) س ل م۔ سَلَم َہے۔  عربی زبان میں باب اِفَعال کے وزن پر سَلَمَ   سے لفظ اسلام بنا ہے۔  
سَلَمَ کے لغوی معنی ہیں حادثات ، خطرات ، آفات سے محفوظ رہنا۔ سلام کا مطلب ہے جس سے دوسرے سلامتی پائیں۔ قرآن پاک میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم السلام ہے۔  یہ  اسمِ الٰہی واضح کررہا ہے کہ قادر مطلق ہستی اپنے بنائے ہوئے نظام اور ضابطوں کے تحت اپنی سب مخلوقات کو تحفظ اور سلامتی عطا کررہی ہے۔ 
 صلح جُو شخص کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ امن پسند ہوتا ہے۔ صلح جُو خود بھی سلامتی کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور اپنے اردگرد بھی سلامتی رکھنا چاہتا ہے۔  ایسا شخص کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے افراتفری اور انتشار پھیلے۔ سَلَمَ کے معانی میں صلح بھی شامل ہے۔
عربی زبان کے باب تَفِعیلْ کے وزن پر سَلَم َسے تسلیم بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے ماننا، اطاعت کرنا۔ اطاعت کے لیے خود کو حوالے کردینا۔ مطیع اور فرماں بردار ہونا۔
راستہ کے درمیان میں ٹھیک طرح چلنا، راستہ چلتے ہوئے اِدھر اُدھر نہ ہونا یعنی لغویات اور فضول کاموں سے گریز کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنابہت بڑی خوبیاں ہیں، سَلَمَ کے معنی میں یہ خوبیاں بھی شامل ہیں۔ 
کسی شے یا وجود کا اس طرح مکمل ہونا کہ اس میں کوئی عیب یا نقص نہ رہا ہو، اس خوبی کو سَلِمَ کہا جاتا ہے۔   
سَلَمَ  کے ایک معنی ہیں کھیتی کی بالیاں نکل آئیں یعنی کسان کی کوششوں کا خوش گوار نتیجہ سامنے آگیا۔  
ایک منزل سے دوسری یا زائد منزلوں تک جانے کے لیے یا کسی اور مقام پر بلندی پر جانے کے لیے سیڑھی استعمال کی جاتی ہے۔ اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھی ایک محفوظ ذریعہ ہے۔ عربی زبان میں سیڑھی کو السَلَمَ کہا جاتا ہے۔ اس معنی کو پیش نظر رکھا جائے تو اسلام کا ایک مطلب ہے بلندیوں تک پہنچانے والا یقینی اور محفوظ راستہ یا ذریعہ۔ 
سَلَمَ سے ایک لفظ السلمۃ بنا ہے اس کا مطلب ہے نرم و نازک اور خوب صورت عورت۔
ان سب معانی کا مجموعی مفہوم سمجھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا مطلب ہے  اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے، خود کو اور دوسروں کو امن و سلامتی فراہم کرنا، اعتدال و میانہ روی کے ساتھ چلتے ہوئے، اپنے نقائص و خرابیوں کی اصلاح کرنا اور  قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا۔ اپنی ذات اور معاشرے کو حسن و توازن فراہم کرتے ہوئے اپنی کوششوں کا خوشگوار نتیجہ حاصل کرنا اور بلندیوں کی طرف محوِ سفر رہنا۔  وسیع اور جامع معنوں میں اسلام کا مطلب ہے اللہ اور محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام کا تابع اور مطیع بن کر امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے توازن اور حسن کے ساتھ کامیابی اور ارتقاء حاصل کرتے رہنا۔ 
یہ کامیابی ذاتی بھی ہو گی اور اجتماعی بھی۔ ان اعلیٰ خصوصیات کا حامل فرد ’’مسلم‘‘ ہے اور ایسے افراد پر مشتمل  قوم لفظی، معنوی، اصطلاحی طور پر ’’اُمت مسلمہ ‘‘ہے۔ 
 زبان سے اقرار کرکے ایک فرد قانونی طور ر مسلم تو ہوجاتا ہے تاہم اللہ کا اچھا  مُسلم بننے کے کئی تقاضے ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کے کئی ارشادات اس موضوع پر واضح رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
 مسلمان وہ ہے جو اپنے قول اور فعل سے دوسروں کے لیے امن و سلامتی کا باعث بنے۔  [بخاری، مسلم] 
علم کا حصول ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔  [بخاری]
ایک مسلمان دوسروں پر نہ تو ظلم کرتاہے، نہ انہیں بے آسرا چھوڑتا ہے اور جو شخص کسی کی حاجت روائی کرتا ہے ، اللہ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔  [بخاری] 
مُسلم ہونا ایک اقرار ہے۔ کسی مقام پر یہ ایک نصیحت اور ایک پختہ وعدہ (Commitment) ہے۔ 


 وَوَصَّی  بِها إِبْرَاهیْمُ  بَنِیْه وَیَعْقُوبُ  یَا بَنِیَّ إِنَّ الله اصْطَفَی  لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ  O 
ترجمہ:’’اور ابراہیم ؑنے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوبؑ نے بھی (یہی کہا ) اے میرے بیٹو!بے شک اللہ نے تمہارے لیے (یہی ) دین  پسند فرمایا ہے  سو تم (بہرصورت)موت کا سامنا فرمانبردار (مُسلم) کی حیثیت سے کرنا۔ ‘‘  [سورہ بقرہ (2):آیت 132]
انسانوں اور سب مخلوقات کو امن و سلامتی کی تلقین و تعلیم دینے والادین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس ضابطۂ حیات کو اللہ نے اپنا پسندیدہ دین قرار دیا ہے۔ 
إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّٰهِ الإِسْلاَمُ 
ترجمہ: ’’بے شک دین اللہ کے ہاں اسلام ہی ہے‘‘۔   [سورہ آل عمران (3): آیت 19]

اسلام کی بنیاد پانچ کاموں پر ہے ۔ 
1۔ اقرار باللسان  یعنی کلمہ طیبہ  لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه  پڑھنا 
2۔ صلوٰۃ (نماز) 3۔ صوم (روزہ) 4۔ زکوٰۃ 5۔ حج



ایمان  کیاہے؟:

ایمان دل میں پائی جانے والی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔
ایمان ایک کثیر المعنی لفظ ہے۔ اس لفظ کی بنیاد(Root Word) ا م ن  ۔   اَمَنَ  ہے،  عربی زبان میں باب اَفَعالَ کے وزن پر اَمَنَ    سے لفظ ایمان بنا ہے۔ 
 اَمَنَ کا ایک مطلب ہے خوف سے محفوظ ہونا، یعنی بے خوفی اور اطمینان۔  اَمَنَ کے معانی قلبی اطمینان اور تصدیق کرنا بھی ہیں۔ 
 اَمَنَ کا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی کو اس کی جان ، مال، آبرو کی حفاظت یا کسی اور حوالے سے مطمئن اور بے فکر کردینا ، حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لینا،  کسی کو اپنا محافظ سمجھنا۔
امن کی ضمانت دینے والے کو بھی مومن کہا جاتا ہے ۔  جس پر بھروسہ کرکے ایک یا زیادہ افراد خود کو محفوظ سمجھیں ایسے محافظ کو بھی مومن کہا جاتا ہے۔ 
فَعَالَتْ کے وزن پر امن سے لفظ امانت نکلا ہے ، اس کا مطلب کسی پر بھروسہ کرکے اسے کچھ سونپ دینا ہے۔  اَمَنَ  کا معنی تحفظ بھی ہے۔ اَمَنَ کا ایک مطلب اعتماد کرنا ہے۔  
امن کا ایک مطلب کسی کی بات ماننا ہے۔ یہاں بات ماننے کے مفاہیم میں اعتبار، یقین اور اطاعت بھی شامل ہے۔
 ایمان کا مطلب ہے جان لینا، تصدیق کردینا ۔ 
اَمَنَ کے لُغوی اور اصطلاحی معانی پر غور کرنے سے ایمان کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے یعنی ماننا، تسلیم کرنا، جسے مانا جارہا ہو اس کے سچے (برحق) ہونے کا اقرارکرنا۔ اس پر پورا بھروسہ اور اعتماد رکھتے ہوئے اطاعت کرنا۔

 بطور اصطلاح ایمان کا مطلب ہے اللہ پر، یوم آخر پر، فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر، اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء اور رسولوں ؑ کو دل سے مان لینا۔ قرآن پاک میں اس حوالے سے کئی مقامات پر رہنمائی ملتی ہے۔  ایسے بندے کو مومن کہا جاتا ہے۔

ایک دن نبی کریم ﷺ مسجد نبوی میں اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک صاحب وہاں آئے اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔
انہوں نے (آپ ﷺ سے)  پوچھا کہ  مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے....؟ 
اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ توگواہی دے کہ لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ ، صلوٰۃ قائم کر، زکوۃ ادا کر، رمضان میں روزے رکھ ، استطاعت ہونے پر حج بیت اللہ کر۔ ان صاحب  نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا۔ 
ان صاحب نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔
 آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پرایمان لائے ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ،اس کے رسولوں پر، روزقیامت پر،اوریقین رکھے خیروشرپرکہ وہ قضاء  وقدرسے ہیں، ان صاحب نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ 
پھران صاحب نے پوچھا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ 
معلم اعظم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ احسان یہ ہے کہ تواللہ کی عبادت اس طرح کر ، گویاکہ اللہ کودیکھ رہا ہے، اگرتو نہ دیکھ سکے تو (اتنا خیال رکھ کہ) اللہ تو تجھے دیکھ ہی رہاہے۔ 
اس حدیث کے راوی حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب وہ شخص چلاگیا تو حضور علیہالصلوٰۃ و السلام نے مجھ سے پوچھا ۔ عمر....! کیا تم جانتے ہوکہ سائل کون تھا؟میں نے عرض کیا کہ اللہ اوراس کے رسول بہتر جانتے ہیں،  حضورر نے فرمایا: وہ  جبرئیل تھے۔  اس لیے آئے تھے کہ تمہیں ، تمہارادین سکھائیں۔   [صحیح مسلم]

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے اراکین مردوں  اور عورتوں کو کئی مقامات پر اہل ایمان (مومن) کہہ کر مخاطب فرمایا ہے۔ قرآنی آیات اور حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کے ارشادات سے علم ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کی نظروں میں فلاح اور نجات کا امیدوار اس وقت بنتا ہے جب وہ اللہ اور رسول کے فرامین کی دل سے اطاعت کررہا ہو۔ ایمان ایک باطنی کیفیت ہے۔ دل میں ایمان کی گواہی اچھے کاموں یعنی اعمال صالحہ اورحسنات کے ذریعے ملتی ہے۔
قرآن میں اہل ایمان یعنی مومنین و مومنات کو   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ کہہ کر 80سے زائد مرتبہ مخاطب کیا گیا ہے، ان میں سے 70  سے زائد مرتبہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ذکر ہے ۔
انسانی علم کے دو بڑے ذرائع ہیں۔ ایک ذریعہ ظاہری ہے اور ایک باطنی ہے۔ ظاہری ذریعہ حواس خمسہ پر یعنی دیکھنے، سننے ،سونگھنے ،چکھنے اور چھونے پر انحصار کرتا ہے۔ اسے ہم شعوری ذریعہ کہتے ہیں۔ اس کا مرکز دماغ ہے۔دماغ میں کئی کیفیات طاری یا وارد ہوتی رہتی ہیں۔  اس کے کام عقل کے ذریعے ہوتے ہیں۔  
 علم کا باطنی ذریعہ حواس خمسہ سے علیحدہ ہے۔ امام غزالی ؒ نے اپنی کتاب کیمیائے سعادت کے پہلے باب میں’’حقیقت خود شناسی‘‘ کی فصل میں لکھا ہے کہ باطنی حواس خیال، تفکر، حافظہ ، توہم اور تذکرہ ہیں۔ 
اسے ہم لاشعوری ذریعہ کہتے ہیں۔ اس علم کا مرکز قلب ہے۔ 
دماغ کی طرح قلب کوبھی کئی کیفیات کا سامنا رہتا ہے۔قرآن پاک سے یہ علم ہوتا ہے کہ قلب میں کبھی  نور کی فراوانی ہوتی ہے تو کبھی اس پر زنگ آجاتا ہے۔ قلب کبھی شرح کا مرکز بن جاتا ہے اور کبھی قلب پر تالے پڑجاتے ہیں یا اس پر مہر لگادی جاتی ہے۔


خَتَمَ الله عَلَی قُلُوبِهمْ وَعَلَی سَمْعِهمْ وَعَلَی أَبْصَارِهمْ غِشَاوَة وَلَهمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ O
ترجمہ : ’’اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے، اور ان کی آنکھوں پر دبیز پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘  [سورۂ بقرہ   (2): آیت 7]

اس آیت میں انسانی وجود کے تین اہم اجزاء کا ذکر ہوا ہے۔قلب، کان اور آنکھ۔  قلب باطنی حواس کا مرکز ہے۔ کان اور آنکھ ظاہری حواس خمسہ کے ارکان ہیں۔ سورۂ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت سے یہ علم ہورہا ہے کہ ظاہری حواس کی طرح باطنی حواس کامرکز یعنی قلب بھی کبھی اپنے اصل کاموں سے رُک جاتا ہے۔  
ایمان کا تعلق قلب سے ہے۔ اسلام اور ایمان کے بارے میں تعلیم دیتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: 
الْاِسْلَامُ عَلَانِیَة، وَالْاِیمَانْ فِی الْقَلْبِ
’’اسلام ایک ظاہری عمل ہے اور ایمان انسان کے دل میں ہوتا ہے‘‘۔  یہ فرماکر معلم اعظم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینۂ مبارک پر دست مبارک رکھ کر تین مرتبہ فرمایا   ’’تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے‘‘۔ [مسند احمد۔ جلد5؛ انس بن مالک ، حدیث نمبر 12153]
انسانی وجود میں قلب کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔  قرآن میں  لفظ قلب 132مرتبہ آیا ہے ، اس قلب سے مراد انسان کے مادّی جسم میں موجود ایک عضو نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد  باطن میں موجود وہ مرکز ہے جس پر انسان کی سوچ، خواہشات، پاکیزگی، اعمال اور امراض وغیرہ کا دارومدار ہے۔  

ہدایت ، تقویٰ اور اطمینان کا تعلق قلب سے ہے ، [بحوالہ سورۂ  رعد(13) :آیت 28 ، سورۂ حج (22): آیت  32،  سورۂ تغابن  (64): آیت11 ]
محبت و الفت کا تعلق بھی قلب سے ہے۔  [بحوالہ سورۂ انفال(8): آیت  63-64 ]
غیب سے مدد  کا امیدوار بننے ، آخرت میں نجات پانے اور  اللہ کی قربت پانے کی بڑی وجہ بھی قلب  ہے۔[بحوالہ سورۂ مجادلہ  (58): آیت 22؛ سورۂ شعراء (26): آیت  89، سورۂ صافات (37) :آیت 84]  
رسول اللہ  ﷺ کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ قلب  صاف ستھرا  سفید  ہوسکتا ہے یا چولہے پر رکھے کوزے کی مانند سیاہ ہوسکتا ہے۔ یعنی قلب میں یا تو نورانیت بھر جاتی ہے یا کثافتوں کی زیادتی سے قلب ظلمت کا مرکز بن جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے  کہ  فتنے قلوب کو گھیرلیتے ہیں۔  جو قلب ان فتنوں کو ناپسند کردیتا ہے، اس میں ایک سفید نقطہ لگادیا جاتا ہے اور جو قلب فتنوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اس میں سیاہ دھبّہ لگادیا جاتا ہے۔ اس طرح قلب دو طرح کے ہوجاتے ہیں۔ ایک سفید صاف شفاف اور دوسرا اُلٹے ہوئے کوزے کی طرح سیاہ ،  سیاہ  قلب صرف خواہشات کو ترجیح دیتا ہے اور معروف اور منکر میں تمیز نہیں کرتا۔ [ بحوالہ صحیح مسلم: کتاب الایمان حدیث 369]
قلب میں زنگ ، میل یا سیاہی  لوگوں کی غلط فکر اور بُرے کاموں کا نتیجہ ہے۔   [بحوالہ : سورۂ مطففین (83):آیت 14 ]
 اور جو اپنا  قلب پاک نہیں کرتے ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہ رسوائی ہے۔  [بحوالہ سورۂ مائدہ (5):آیت 41]

قرآن پاک نے قلب سلیم کو قیامت میں نجات کے لیے سرمایہ قرار دیا ہے۔ 
یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ Oإِلَّا مَنْ أَتَی الله بِقَلْبٍ سَلِیْمO

ترجمہ:’’جس دن مال اور اولاد کوئی نفع نہیں دیں گے۔ مگر جو اللہ کے پاس پاک دل لے کرآیا۔ ‘‘  [سورۂ شعرا ء (26): آیت 88-89 ]
حضرت امام جعفر صادق سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
’’جس کی نیت صادق ہو وہ قلب سلیم کا مالک ہے۔ دل کا شرک اور شک سے پاک ہونا تمام معاملات میں نیت کو خالص بناتا ہے۔‘‘  

حضرت امام جعفر صادق سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

’’قلب گویا ایک روشن وشفاف آئینہ ہے اور برُے اخلاق دھواں اور ظلمات ہیں۔ یہ  جب قلب تک پہنچتے ہیں تو اسے زنگ لگا دیتے ہیں‘‘۔ [کیمیائے سعادت]





<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 


عنوان نمبر2 :

  سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات 


دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان بالعموم کسی مذہب سے وابستہ ہیں۔  
ہر مذہب کے چند خاص عقائد، نظریات اور تعلیمات ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان،  مادی طور پر انسان کی بنیادی ضروریات زندگی ہیں۔ عقیدہ بھی انسان کی لازمی ضروریات میں شامل ہے۔  اس دنیا میں کچھ لوگ کسی مذہب پر ہونے کا اقرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگ Atheist، لامذہب یا بے عقیدہ کہلاتے ہیں۔ سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب اپنے کالم ’’آوازِدوست‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بے عقیدہ ہونا بھی ایک عقیدہ ہے۔ 
مذہبی عقائد، نظریات اور تعلیمات اپنے پیروکاروں کا ایک خاص مزاج بھی بناتے ہیں۔  اس خاص مزاج کا  اظہار معاشرتی طرزوں، معیشت  کے انداز، ثقافتی خصوصیات، فنون لطیفہ اور دیگر شعبوں کے ذریعے ہوتا رہتاہے۔  
اسلامی عقائد، نظریات اور تعلیمات کے زیر اثر بننے والے مزاج کی دنیا بھر میں نمائندگی گزشتہ کئی صدیوں میں زیادہ تر ان افراد کے ذریعے ہوئی جنہیں اولیاء  اللہ کہا جاتا ہے۔ 
اولیاء اللہ کے سعید گروہ میں سے کئی ہستیوں نے حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ  کی نظر رحمت اور نسبت  سے  خالق کائنات  اللہ وحدہُ لاشریک کی معرفت کے کئی مراحل طے کیے۔  ان ہستیوں نے اللہ کی صفات کو سمجھا اور خوب سے خوب تر انداز میں اللہ کی بندگی کرتے ہوئے اللہ کی محبت اور قربت پائی۔ 
کئی اولیاء اللہ نے سلاسل طریقت کے نام سے قائم اداروں کے ذریعے  قرآن پاک کی تعلیم، حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کی تعلیمات کی ترسیل اور تفہیم، انسانوں کی فلاح اور اصلاح، انسانوں کی مدد خدمت اور علوم کے فروغ کے لیے کوششیں کیں۔
دو سو سے زائد سلاسل طریقت کی فہرست میں بیسویں صدی  کے درمیانے حصے میں سلسلہ عظیمیہ کی شمولیت ہوئی۔ سلسلہ عظیمیہ کے بانی، امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیاء ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کا شجرہ نسبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے واسطے سے حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ تک پہنچتا ہے۔ 
تصوف کے طالب علموں کی تربیت عموماً دو طرزوں پر ہوتی ہے۔  ایک راہ، سلوک کی راہ کہلاتی ہے دوسری جذب کی راہ کہلاتی ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے امام نے اراکین سلسلہ عظیمیہ کی تربیت اور تعلیم کے لیے سلوک کی راہ منتخب فرمائی۔  
اس دنیا میں ہر تعلیمی نظام اپنے مقاصد اور اہداف رکھتا ہے۔ ان مقاصد کو پانے کے لیے نصاب بنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پرٹیچرز ٹریننگ کے تعلیمی اور تربیتی اداروں کا مقصد تدریس کی اچھی مہارت (Good Teaching Skills)، رکھنے  والے  قابل اساتذہ تیار کرناہے۔ طبی تعلیمی اداروں کے مقاصد میں قابل معالجین کی تیاری سر فہرست ہے۔ ملٹری ٹریننگ کے اداروں کا مقصداچھے سپاہی اور قابل افسر تیار کرنا ہے۔ 
اس بات کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
ٹیچرز ٹریننگ کے اداروں کے ذریعے اچھے اساتذہ تیار کرنے کا اصل مقصد قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ میڈیکل یونیورسٹی سے اچھے معالج تیار کرنے کا مقصد دراصل قوم کو بیماریوں سے بچانا اور صحت مند رکھنا ہے۔ کسی ملک کے ملٹری ٹریننگ کے اداروں سے اچھے سپاہی اور افسر تیار کرنے کا بنیادی مقصد اس ملک و قوم کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے۔ 
سلاسل طریقت کے نصاب اور تربیت کے بھی  خاص مقاصد ہیں۔
 سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نصاب اور تعلیمات کا مقصد اس فہم اور فکر کو سمجھنا ہے، جس کا تعلق انسانی ذات کے روحانی اور مادی پہلوؤں سے ہے۔ قرآنی آیات، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اولیاء اللہ  کے افکار کی روشنی میں بنائے گئے اس نظام کا مقصد ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے فرد کی تربیت اور تعلیم ہے۔ اس نظام میں باطنی پہلو کو اولیّت اور زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایمان کا مرکز قلب ہے۔
 آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے :
ترجمہ :’’کاموں کا دارومدار آدمی کی نیت پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس کے دل میں نیت ہوگی۔ ‘‘   [صحیح بخاری، مسلم، ترمذی]
سلسلۂ عظیمیہ کے تربیتی اور تعلیمی نظام میں انسان کے باطن کو زیادہ اہمیت دینے کے کئی مقاصد ہیں۔ ان میں سے چار یہ ہیں:

  1. نیت کی سچائی
  2.  اعمال میں اخلاص   
  3.  مثبت سوچ  
  4. روشن نظر
ان تعلیمات کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس راہ کا طالب علم مراقبہ، ذکر اور دیگر اشغال کے ذریعے اپنے باطن میں سفر (Journey Within) کے قابل ہوکر اپنی اصل یعنی اپنی روح سے واقف ہوتا جائے۔  
ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے طالب علم اس کائنات کے خالق اور مالک اللہ کے تخلیقی رازوں کو سمجھنے لگے، اس پر اللہ کی صفات واضح ہوں ۔ اسے اس بات کا ادراک ہوجائے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء عطافرمایا ہے اور اسے زمین پر اللہ کے خلیفہ کا منصب عطا کیا گیا ہے۔ 
اس ساری تربیت اور تعلیمات کا اولین مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو اللہ کی مشیت کو سمجھتے ہوئے  تقویٰ کی صفات کے حامل ہوں، آخرت پر یقین اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کے ساتھ مادی اور روحانی علوم حاصل کرکے دنیا میں خیر اور سلامتی کے فروغ کا ذریعہ بنیں ۔ 

سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع: 

سلسلہ عظیمیہ کی جانب سے اپنے وابستگان کی تربیت کے لیے نصاب، قرآن پاک کی آیات اور حضرت محمد  ﷺ کی سیرت طیبہ اور حضرت محمد  ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کی تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع ، مخزن اور سرچشمہ قرآن کریم کی تعلیمات اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات و تعلیمات ہیں ۔ 

استعداد میں اضافہ:


سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نظام میں یہ نکتہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ سلسلہ عظیمیہ کے اراکین کی شعوری استعداد اور لاشعوری استعداد میں اضافہ ہو۔ 
شعوری استعدادمیں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ مادی اور ظاہری علوم حاصل کیے جائیں۔ زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق علوم کی تحصیل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ 
لاشعوری استعدادمیں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ روحانی علوم کی تعلیم اور تفہیم پر توجہ دی جائے۔  
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات مسلم سے مومن بننے کے سفر میں مدد فراہم کرتی ہیں۔  حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی کی مسلسل تاکید کرتی ہیں۔ 
سب انسانوں کو آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں ہر ایک اپنا حساب خود دے گا۔ وہاں اولاد یا والدین ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ نہ استاد، نہ کوئی مرشد اپنے مریدوں کے کام آسکیں گے۔ سب کو اپنا اپنا حساب خود دینا ہوگا۔ 
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کے روحانی ، علمی، معاشی اور سماجی پہلو ہیں۔ 
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا بڑا مقصد ایسی طرزفکر بیدار کرنا ہے جس کے ذریعے انسان اپنی روح سے واقف اور روحانی صلاحیتوں سے باخبر ہوجائے۔ اس کی رسائی ان انوار تک ہوسکے جنہیں انوار الٰہی  اور انوارِ نبوت کہا جاتا ہے۔ علم الاسماء کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکے، باطنی نگاہ بیدار کرکے یوم ازل میں الست بربکم کے جواب میں بلیٰ کہہ کر کیے جانے والے اقرار کو یاد کرسکے۔ اس زمین پر زندگی اور حیات بعد الموت کے معاملات کو سمجھ سکے۔ زندگی میں فلاح اور آخرت میں نجات کا امیدوار بن سکے۔  ان مقاصد کے لیے روحانی علوم کو سمجھنا ضروری ہے۔  باطنی یا روحانی علوم کے بھی دوحصے ہیں۔ روحانی علوم سے آگاہ ہونا، ان علوم کی تفہیم یا ان علوم کو نظریاتی طور پر سمجھنا علم حصولی کے زمرے میں آتا ہے جبکہ روحانی علوم کے ذریعے مشاہدے سے گذرتے ہوئے لاشعوری یا روحانی حواس کو سمجھنا علم حضوری کے زمرے میں آتا ہے۔ 
سلسلہ عظیمیہ چاہتا ہے کہ اس کے اراکین دینی  اورروحانی علوم کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق جدید علوم بھی حاصل کرتے رہیں۔  ادب، فقہ، معاشرت، عمرانیات، ثقافت، قانون، تاریخ، میڈیسن، انجینئرنگ کے روایتی علوم ہوں یا برقیات، مواصلات، کمپیوٹر سائنس، خلائی ٹیکنالوجی جیسے جدید علوم، یہ سب علوم ظاہری  کا حصہ ہیں اور یہ علم حصولی کے زمرے میں آتے ہیں۔
 معاشی شعبہ میں سلسلہ عظیمیہ کی تلقین یہ ہے کہ کسب معاش کے لیے مذہبی اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے بھرپور کوششیں کی جائیں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔  آمدنی حلال اور قانونی طور پر جائزہونا سلامتی اور امانت کے زمرے میں آتا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب، ملاوٹ، کم تولنا، کسی کا حق غصب کرنا، رشو ت خوری،  چوری، ڈکیتی جیسے منفی کام سلامتی سے انحراف اور امانت میں خیانت ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ اپنے وابستگان کو تلقین کرتا ہے کہ وہ سماج کی اعلیٰ قدروں کا احترام کرتے ہوئے ایک اچھا شہری  بننے کی کوشش کرتے رہیں۔  معاشرے میں رائج کئی بری روایات مثلاً عورتوں کے خلاف صنفی امتیاز برتنا، لڑکیوں کی اچھی پرورش اور ان کی تعلیم سے غفلت برتنا، ماڈرن ایجوکیشن کی مخالفت ، قوانین کی پابندی سے گریز ، اپنے اقربا اور پڑوسیوں کے حالات سے عدم توجہی،  اچھے شہری کے فرائض کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے میں کوتاہی برتنا۔ یہ سب برے کام ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ یاد دلاتا ہے کہ سب مرد اور عورت ایک آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ فضیلت کا معیار حسب نسب، دولت یا عہدہ نہیں ہے۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ سلسلہ ٔ عظیمیہ اپنے سب وابستگان کو تاکید کرتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا احترام کرتے رہیں ، خصوصاً خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا جائے۔ ورثہ اور دیگر حقوق، تعلیم کے حصول میں خواتین کے حقوق کی پوری نگہداشت کی جائے۔ 
سلسلہ عظیمیہ اپنے سب اراکین کو تاکید کرتا ہے کہ بلا امتیاز مذہب و ملت سب انسانوں کی خدمت کی جائے ۔ انسانوں کے ساتھ تعلقات میں اولیاء کرام ؒ کے طریقوں کی پیروی کی جائے۔ 
ہر مسلمان مرد و عورت پر  پانچ وقت صلوٰۃ، رمضان میں صوم، صاحب نصاب  پر زکوٰۃ  اور صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج فرض ہے۔  عبادات کو ٹھیک طرح ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مقصد سمجھنا  اور اس مقصد کی ادائی کے لیے خود کو تیار کرنا ، اس کا تعلق انسان کے باطن یا قلب سے ہے۔ ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ مقصد تخلیق کو پہچانے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے خود کو تیار کرتا رہے۔
قرآن پاک اور رسول اللہ کے ارشادات سے علم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اپنے خالق اور مالک اللہ وحدہُ لاشریک کی معرفت پانا اور اللہ کا عبادت گزار بننا ہے۔  
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ زندگی بسرکرتے ہوئے انسانی عقل کو ہمیشہ وحی کے تابع رکھنا چاہیے ۔


آدمی اور انسان:

یہ ساری کائنات اللہ کی صفات کا مظاہرہ ہے۔  صفات الہیہ کو سمجھنے اور اللہ وحدہُ لاشریک کی معرفت پانے کے لیے انسان کو علم الاسماء عطا کیے گئے ہیں۔  

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء  کُلَّها ثُمَّ عَرَضَهمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ بِأَسْمَاء  هـؤُلاء  إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَO   [سورۂ بقرہ (2):آیت31 ]
اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے آدم اور دیگر سب حیوانات کے مادی تقاضے یکساں ہیں۔  انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت اور شرف کی وجہ صرف علم الاسماء ہے۔  اللہ تعالی نے انسان کو اپنی بہترین تخلیق قرار دیا ہے۔ 
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ Oثُمَّ رَدَدْنَاه  أَسْفَلَ سَافِلِیْنَO  

[سورۂ التین (95) : آیت 4-5 ]

جو لوگ اللہ کے عطا کردہ علم الاسماء کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔  ایسے لوگ اللہ کی محبت اور قرب پائیں گے۔  یہی لوگ انسانیت کے درجے پر ہیں۔ 
جو لوگ اللہ کے عطا کردہ علم الاسماء کو نہیں سمجھ رہے ۔ اخلاص کے ساتھ اللہ کی بندگی نہیں کررہے۔ وہ اسفل السافلین میں ہیں۔ 
احسن تخلیق ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ساری زندگی اللہ کی فرماں برداری میں بسر کرتا رہے۔ فرماں برداری کرتے ہوئے اگر انسان سے کوئی غلطی سرزد ہو تو اللہ کے نظام کے  تحت اُسے انسپائریشن کے ذریعے مطلع کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس انسپائریشن کو نظر انداز کرکے نافرمانی کے ماحول میں ہی رہتے ہیں وہ درحقیقت اسفل السافلین میں جاگرتے ہیں۔ 
اللہ کی صفات کا عارف شخص ’’انسان ‘‘ہے ۔ 
اللہ کی صفات سے ناواقف شخص ’’آدمی‘‘ ہے۔ 
اس کائناتی نظام کو بنانے اور اسے چلانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ روحانی تعلیمات کے ذریعے بندہ ان حکمتوں کو سمجھنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ 
انسانی تقاضے اور جذبات وقت کے ہر دور میں یکساں رہے ہیں۔  انسان  اور دیگر سب مخلوقات کی زندگی قدرت کی طرف سے مقررہ کچھ ضابطوں اور طریقوں کی پابند ہے۔ ان ضابطوں اور طریقوں سے انحراف کا نتیجہ پریشانی ، بیماری  اور خسارہ ہے۔
اللہ  کی مشیت کو سمجھنے والے اللہ  کے دوست، اللہ  کی محبت کے تقاضوں کے تحت اللہ  کی مخلوق سے بھی بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ اسی جذبہ کے تحت یہ قدسی نفس حضرات مخلوق کا بھلا چاہتے ہیں۔ وحی کے انوار سے منور اور روحانی قدروں کے حامل یہ بندگان الٰہی نوع انسانی کو خوش و خرم، علم حاصل کرتا، ترقی کرتا، پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ محترم بندے انسانی فکر اور انسانی معاشروں میں ارتقاء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
 وحی کی روشنی سے محروم دانشوروں کے بعض طبقات نوع انسان کو محض ایک مادّی وجود قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ انسان کے روحانی تقاضوں اور زندگی بعد الموت کی حقیقت کو یکسر فراموش کئے ہوئے ہیں۔ ایسے دانشور اور ان کے زیر اثر تمام طبقات اس زمین کے امن، اس کی بقاء اور نوعِ انسانی کی فلاح کے لئے خطرہ ہیں۔ نوعِ انسانی کو اس منفی فکر اور اس کے خطرناک نتائج سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ  کے دوستوں میں سے بعض لوگ نوعِ انسانی کی مدد کریں اور اس زمین پر امن وسلامتی اور نوعِ انسانی کی بقا کے طریقے انسانوں کو بتائیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں فطرت سے متصادم یا منحرف مادّہ پرستانہ نظریات کی یلغار میں شدت آئی ہے۔ ایسے عالم میں انسانی قلب و روح میں موجود تعلق باللہ  کی خواہش کو اپنی تکمیل کے لئے مادّی و روحانی علوم کے امتزاج کے ساتھ اپنا سفر طے کرنا ہے۔
اس سفر کی دشواریوں اور اس کے درمیان پیش آنے والے مسائل کا سامنا کس طرح کیا جائے؟.... اس سفر کی رکاوٹوں کو کیسے عبور کیا جائے؟....  ان معاملات میں سلسلۂ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاءؒ ایک قابلِ عمل نصاب عطا فرماگئے ہیں۔
قلندر بابا اولیاءؒ   کا قائم کردہ سلسلہ عظیمیہ ، اس نصاب کی تربیت و تعلیم کے لیے ایک ادارہ ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ  کے شاگرد رشید اور آپ کے روحانی علوم کے وارث حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بطور مربی ومعلم  ، تربیت اور تعلیم کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ 


آئیے سلسلہ عظیمیہ کے زیر اہتمام روحانی ورکشاپ میں اس علمی نشست کا اختتام اللہ کے دوست، عارف باللہ سائیں عبداللطیف بھٹائی   رحمۃ اللہ علیہ کی ایک دعا پر کرتے ہیں۔


تِر ی رحمتوں سے چُھپا نہیں،  جو بُرا کیا کہ بھلا کیا
مِرے رازداں  میں بتاؤں کیا کہ شکست خوردہ نے کیا کیا
تِری ذات کا  تِری صفات کا مِرے سر پہ دست کرم رہے
مِری آرزو کی لگن رہے، مِرے حوصلوں کا بھرم رہے
(آمین  یا رب العالمین بہ وسیلہ رحمۃ للعالمین)





طالبِ دعا
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
جنوری 2019ء بمطابق جمادی الاول  1440ھ

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے