سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات
سلسلہ عظیمیہ کا بنیادی مقصد یا نصب العین اپنے خالق و مالک اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل کرنا ہے۔ سلسلہ کی تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے، اللہ تعالیٰ کی مشیّت، اللہ تعالیٰ کی مرضی کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ سالک کے اندر وہ طرز فکر پیدا کردی جائے جس کے تحت وہ قدم بقدم عرفان الٰہی کی راہوں پر چل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلسلہ عظیمیہ یا پیر و مرشد کا کام اپنے شاگرد کے ذہن میں عرفان الٰہی کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنا، اس کے قلب و ذہن میں اس راہ پر چلنے کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور پھر اسے اس راستے پر چلا دینا ہے۔ منزل تک پہنچنا خالصتاً اللہ اور اس بندے کا معاملہ ہے۔ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہے۔
سلسلہ عظیمیہ نے جو مقصد یا راستہ اختیار کیا ہے وہ کوئی نیا مقصد یا نیا راستہ نہیں ہے۔ یہ وہی مقصد یا راستہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء انسانوں کو بلاتے رہے اور جس راستہ پر چلنے کی اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمدﷺ نے نوع انسانی کو تلقین فرمائی۔
بعض لوگ عظیمی بہن بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا سلسلہ اسلاف میں سے کس سلسلہ سے وابستہ ہے یعنی جس طرح دوسرے کئی سلاسل میں سے کوئی چشتیہ سلسلہ سے وابستہ ہے، کوئی قادریہ سلسلہ سے وابستہ ہے، کوئی سلسلہ سہروردیہ سلسلہ سے وابستہ ہے، کوئی شاذلیہ، کوئی نقشبندیہ سلسلہ سے وابستہ ہے۔ اس طرح سلسلہ عظیمیہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے۔
جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ چشتیہ سلسلہ اسلاف سے کس سلسلہ سے وابستہ ہے، قادریہ سلسلہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے، سہروردیہ سلسلہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے شاذلیہ سلسلہ، رفائیہ سلسلہ اور نقشبندیہ سلسلہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے۔ جس طرح سلسلہ چشتیہ، قادریہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ بنیادی سلاسل ہیں اور اپنے امام سے شروع ہورہے ہیں سلسلہ عظیمیہ بھی اسی طرح کا بنیادی سلسلہ ہے اور اپنے امام حضرت محمد عظیم برخیا،قلندر بابا اولیاءؒ سے شروع ہوتا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ اسی طرح کا ایک بنیادی سلسلہ ہے جیسے کہ دوسرے بنیادی سلاسل ہیں۔
ایک اور غلط فہمی یا غلط تاثر ہمارے معاشرہ میں یہ پایا جاتا ہے کہ بنیادی بڑے سلاسل صرف چار ہیں اور باقی سب ان کی شاخیں ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ کچھ بنیادی سلاسل ہیں اور ان کی بہت ساری شاخیں بھی ہیں لیکن ان بنیادی سلاسل کی تعداد چار نہیں ہے بلکہ ان کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔ البتہ برصغیر میں یہ چار سلاسل زیادہ مشہور ہوئے۔
سلسلہ عظیمیہ کے اراکین کی تربیت اور تعلیم کے لیے امام سلسلہ حضرت محمد عظیم برخیاؒ اور ان کے بعد سلسلہ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تعلیمات کا ایک نظام اور نصاب تربیت دیا ہے۔ اس نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ تھیوری سے اور ایک حصہ پریکٹیکل۔
تھیوری کے حصے میں کتابی و روحانی تعلیمات شامل ہیں۔ اس کے تحت روحانی علوم پر ایک پورا نصاب ہمارے پاس موجود ہے۔ اس نصاب میں کتاب لوح و قلم، احسان و تصوف، نظریہ رنگ و نور، محمد رسول اللہ ﷺ، آواز دوست، قلندر شعور، تجلیات، تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے بزرگوں کا جتنا بھی تحریری سرمایہ ہمارے پاس ہے وہ ہمارے نصاب کا علمی سیکشن یا تھیوری ہے۔
اس علمی حصہ میں ہمارے لیے ایک عملی سیکشن بھی ہے۔ اسکول کالج یونیورسٹی میں بعض مضامین میں تھیوری کے ساتھ عملی حصہ بھی ہوتا ہے بعض مضامین صرف تھیوری پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان میں عملی حصہ نہیں ہوتا، مثلاً اردو میں پریکٹیکل نہیں ہوتا، معاشرتی علوم میں پریکٹیکل نہیں ہوتا۔ فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین میں تھیوری پڑھنے کے ساتھ ساتھ لیب جاکر پریکٹیکل بھی کرنا ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر نصاب کا عملی حصہ مثلاً فزیکل ٹریننگ Physical Trainingیعنی پی ٹی کی حیثیت صرف عملی حصہ کیہے۔
جیسے آپ فزکس اور کیمسٹری میں پریکٹیکل کرتے ہیں اسی طرح سلسلہ عظیمیہ کی تھیوری کا پریکٹیکل سیکشن مراقبہ، کم سونے، کم بولنے، کم کھانے، روزہ رکھنے اور دیگر چند عملی مشقوں پر مشتمل ہے۔
اب آئیے اس تعلیمی نظام کے عملی حصہ کی جانب۔ ہمارے بزرگوں قلندر بابا اولیاءؒ اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے بطور پریکٹیکل جو مشق یا ایکسرسائز تجویز کی ہے وہ ہے‘‘خدمتخلق’’۔
ہم سلسلہ عظیمیہ کے ایک رکن کی حیثیت سے خدمت خلق میں مصروف ہوتے ہیں تو ہم اپنے نصاب کے عملی حصہ یا پریکٹیکل حصے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہر اس بھائی اور بہن کے لیے جو سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات جاننا، سمجھنا اور اپنانا چاہتے ہیں لازمی ہے کہ وہ سلسلہ عظیمیہ کے نصاب کے عملی حصہ کو بھی سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔
خدمت خلق کو بطور پریکٹیکل نصاب کا حصہ بنانے میں ہمارے بزرگوں کی بہت بڑی حکمت، بصیرت اور دانش پنہاں ہے۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ
‘‘اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ زیادہ پسند ہے جو اللہ کی مخلوق کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔’’
[طبرانی، شعب الایمان بیہقی، بزار، ابویعلیٰ، الکامل ابن عدی، ابن ابی دنیا]
سلسلہ عظیمیہ کے بزرگوں نے لوگوں کو اسی طرف متوجہ کیا ہے۔ حصول علم کے دوران اور تحصیل علم کے بعد بھی آپ کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ آپ کی ذات دوسرں کے لیے مفید ہو آپ کے اندر دوسروں کے کام آنے، ان کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو، لوگوں کے لیے مفید بنیں۔ جب آپ اللہ کی ذات کو اور اللہ کے ارادے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوران آپ وہ کام کرتے ہیں جو اللہ کو پیارے ہیں تو اپنی منزل تک پہنچ جانا، منزل کو پانا آپ کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔
اسی نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سلسلہ عظیمیہ آپ کو بار بار اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان
‘‘اسلام میں رہبانیت نہیں’’ [مسند احمد]
کے مطابق روحانی علوم کا حصول یا روحانیت کی راہوں پر چلنا ترک دنیا کا نہیں ہے۔ اس راہ میں چلنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ دنیاوی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ جنگلوں میں نکل جائیں یا اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو جنگل یا ویرانے میں تصور کرنا شروع کردیں۔ سلسلہ عظیمیہ کی دعوت یا پیغام اور سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات ہنستے بستے، متحرک، ارتقا پذیر معاشروں اور عملی انسانوں کے لیے ہیں۔ یہ تعلیمات ترک دنیا کی یا دنیا سے بیزاری کی تعلیمات نہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ چاہتے ہیں کہ نوع انسانی میں ایک خاص قسم کی ترتیب، ہم آہنگی، اعتدال اور توازن قائم ہو۔
یہ توازن، اعتدال، ہم آہنگی اور ترتیب کیا ہے....؟
یہ ہے انسان کے مادی تقاضوں اور روحانی تقاضوں کی اعتدال کے ساتھ تکمیل۔ انسان اپنے روحانی تقاضوں کو بھی اسی طرح سمجھنے کی کوشش کرے جس طرح کہ وہ اپنے مادی تقاضوں کو سمجھتاہے۔
یہ تعلیمات کس کے لیے ہیں....؟
سلسلہ عظیمیہ نے جو مقصد یا راستہ اختیار کیا ہے وہ کوئی نیا مقصد یا نیا راستہ نہیں ہے۔ یہ وہی مقصد یا راستہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء انسانوں کو بلاتے رہے اور جس راستہ پر چلنے کی اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمدﷺ نے نوع انسانی کو تلقین فرمائی۔
بعض لوگ عظیمی بہن بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا سلسلہ اسلاف میں سے کس سلسلہ سے وابستہ ہے یعنی جس طرح دوسرے کئی سلاسل میں سے کوئی چشتیہ سلسلہ سے وابستہ ہے، کوئی قادریہ سلسلہ سے وابستہ ہے، کوئی سلسلہ سہروردیہ سلسلہ سے وابستہ ہے، کوئی شاذلیہ، کوئی نقشبندیہ سلسلہ سے وابستہ ہے۔ اس طرح سلسلہ عظیمیہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے۔
جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ چشتیہ سلسلہ اسلاف سے کس سلسلہ سے وابستہ ہے، قادریہ سلسلہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے، سہروردیہ سلسلہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے شاذلیہ سلسلہ، رفائیہ سلسلہ اور نقشبندیہ سلسلہ کس سلسلہ سے وابستہ ہے۔ جس طرح سلسلہ چشتیہ، قادریہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ بنیادی سلاسل ہیں اور اپنے امام سے شروع ہورہے ہیں سلسلہ عظیمیہ بھی اسی طرح کا بنیادی سلسلہ ہے اور اپنے امام حضرت محمد عظیم برخیا،قلندر بابا اولیاءؒ سے شروع ہوتا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ اسی طرح کا ایک بنیادی سلسلہ ہے جیسے کہ دوسرے بنیادی سلاسل ہیں۔
ایک اور غلط فہمی یا غلط تاثر ہمارے معاشرہ میں یہ پایا جاتا ہے کہ بنیادی بڑے سلاسل صرف چار ہیں اور باقی سب ان کی شاخیں ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ کچھ بنیادی سلاسل ہیں اور ان کی بہت ساری شاخیں بھی ہیں لیکن ان بنیادی سلاسل کی تعداد چار نہیں ہے بلکہ ان کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔ البتہ برصغیر میں یہ چار سلاسل زیادہ مشہور ہوئے۔
سلسلہ عظیمیہ کے اراکین کی تربیت اور تعلیم کے لیے امام سلسلہ حضرت محمد عظیم برخیاؒ اور ان کے بعد سلسلہ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تعلیمات کا ایک نظام اور نصاب تربیت دیا ہے۔ اس نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ تھیوری سے اور ایک حصہ پریکٹیکل۔
تھیوری کے حصے میں کتابی و روحانی تعلیمات شامل ہیں۔ اس کے تحت روحانی علوم پر ایک پورا نصاب ہمارے پاس موجود ہے۔ اس نصاب میں کتاب لوح و قلم، احسان و تصوف، نظریہ رنگ و نور، محمد رسول اللہ ﷺ، آواز دوست، قلندر شعور، تجلیات، تذکرہ قلندر بابا اولیاءؒ وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے بزرگوں کا جتنا بھی تحریری سرمایہ ہمارے پاس ہے وہ ہمارے نصاب کا علمی سیکشن یا تھیوری ہے۔
اس علمی حصہ میں ہمارے لیے ایک عملی سیکشن بھی ہے۔ اسکول کالج یونیورسٹی میں بعض مضامین میں تھیوری کے ساتھ عملی حصہ بھی ہوتا ہے بعض مضامین صرف تھیوری پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان میں عملی حصہ نہیں ہوتا، مثلاً اردو میں پریکٹیکل نہیں ہوتا، معاشرتی علوم میں پریکٹیکل نہیں ہوتا۔ فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین میں تھیوری پڑھنے کے ساتھ ساتھ لیب جاکر پریکٹیکل بھی کرنا ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر نصاب کا عملی حصہ مثلاً فزیکل ٹریننگ Physical Trainingیعنی پی ٹی کی حیثیت صرف عملی حصہ کیہے۔
جیسے آپ فزکس اور کیمسٹری میں پریکٹیکل کرتے ہیں اسی طرح سلسلہ عظیمیہ کی تھیوری کا پریکٹیکل سیکشن مراقبہ، کم سونے، کم بولنے، کم کھانے، روزہ رکھنے اور دیگر چند عملی مشقوں پر مشتمل ہے۔
اب آئیے اس تعلیمی نظام کے عملی حصہ کی جانب۔ ہمارے بزرگوں قلندر بابا اولیاءؒ اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے بطور پریکٹیکل جو مشق یا ایکسرسائز تجویز کی ہے وہ ہے‘‘خدمتخلق’’۔
ہم سلسلہ عظیمیہ کے ایک رکن کی حیثیت سے خدمت خلق میں مصروف ہوتے ہیں تو ہم اپنے نصاب کے عملی حصہ یا پریکٹیکل حصے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہر اس بھائی اور بہن کے لیے جو سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات جاننا، سمجھنا اور اپنانا چاہتے ہیں لازمی ہے کہ وہ سلسلہ عظیمیہ کے نصاب کے عملی حصہ کو بھی سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔
خدمت خلق کو بطور پریکٹیکل نصاب کا حصہ بنانے میں ہمارے بزرگوں کی بہت بڑی حکمت، بصیرت اور دانش پنہاں ہے۔
نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ
الخلقُ كُلُّهم عِيالُ الله ،فأَحَبُّ خلقِه إليه أنفعُهم لعِيالِه
‘‘اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ زیادہ پسند ہے جو اللہ کی مخلوق کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔’’
[طبرانی، شعب الایمان بیہقی، بزار، ابویعلیٰ، الکامل ابن عدی، ابن ابی دنیا]
سلسلہ عظیمیہ کے بزرگوں نے لوگوں کو اسی طرف متوجہ کیا ہے۔ حصول علم کے دوران اور تحصیل علم کے بعد بھی آپ کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ آپ کی ذات دوسرں کے لیے مفید ہو آپ کے اندر دوسروں کے کام آنے، ان کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو، لوگوں کے لیے مفید بنیں۔ جب آپ اللہ کی ذات کو اور اللہ کے ارادے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوران آپ وہ کام کرتے ہیں جو اللہ کو پیارے ہیں تو اپنی منزل تک پہنچ جانا، منزل کو پانا آپ کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔
اسی نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ سلسلہ عظیمیہ آپ کو بار بار اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان
لَا رَهْبَانِيَةُ فِی الاِسْلَامِ
‘‘اسلام میں رہبانیت نہیں’’ [مسند احمد]
کے مطابق روحانی علوم کا حصول یا روحانیت کی راہوں پر چلنا ترک دنیا کا نہیں ہے۔ اس راہ میں چلنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ دنیاوی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ جنگلوں میں نکل جائیں یا اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو جنگل یا ویرانے میں تصور کرنا شروع کردیں۔ سلسلہ عظیمیہ کی دعوت یا پیغام اور سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات ہنستے بستے، متحرک، ارتقا پذیر معاشروں اور عملی انسانوں کے لیے ہیں۔ یہ تعلیمات ترک دنیا کی یا دنیا سے بیزاری کی تعلیمات نہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ چاہتے ہیں کہ نوع انسانی میں ایک خاص قسم کی ترتیب، ہم آہنگی، اعتدال اور توازن قائم ہو۔
یہ توازن، اعتدال، ہم آہنگی اور ترتیب کیا ہے....؟
یہ ہے انسان کے مادی تقاضوں اور روحانی تقاضوں کی اعتدال کے ساتھ تکمیل۔ انسان اپنے روحانی تقاضوں کو بھی اسی طرح سمجھنے کی کوشش کرے جس طرح کہ وہ اپنے مادی تقاضوں کو سمجھتاہے۔
یہ تعلیمات کس کے لیے ہیں....؟
سلسلہ عظیمیہ کی یہ تعلیمات انسانوں کے لیے ہیں۔ یہ تعلیمات پہلے آپ خود حاصل کرتے ہیں اس کے بعد آپ کا فرض ہے کہ انہیں دوسروں تک منتقل کریں۔
سلسلہ عظیمیہ خاص طور پر اپنے وابستگان سے، اپنے نوجوان ساتھیوں سے ، بزرگون سے، بھائیوں سے، بہنوں سے اس امر کا تقاضہ وہ کرتا ہے کہ جب وہ روحانی تعلیمات کے حصول یا روحانی مشن کے فروغ میں مصروف ہوں تو ان کے کسی طرز عمل سے اپنی گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریوں سے پہلوتہی یا فرار کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں ملنا چاہیے۔ آپ کی جو گھریلو ذمہ داریاں ہیں بیوی بچوں کی ذمہ داریاں ہیں شوہر یا اولاد کی ذمہ داریاں ہیں والدین اور بزرگوں کی ذمہ داریاں ہیں محلہ اور معاشرہ کی ذمہ داریاں ہیں وہ ٹھیک طرح ادا ہوتی رہیں۔
اس سے آگے بڑھ کر سلسلہ عظیمیہ آپ کو اس بات کی تلقین کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ روحانی علوم کی روشن کرنوں سے منور ہونے کے بعد آپ کو زیادہ اچھے طریقے سے اپنی معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل ہونا چاہیے۔
آپ والد ہیں تو سلسلہ عظیمیہ میں آنے کے بعد آپ کے بچوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ آپ ان کے ساتھ زیادہ شفیق ہوگئے ہیں۔ آپ شوہر ہیں تو سلسلہ عظیمیہ میں آنے کے بعد آپ کی اہلیہ کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ میرے شوہر اب پہلے سے تبدیل شدہ اور Positive شخصیت کے حامل ہوگئے ہیں۔ آپ ماں ہیں تو آپ کی اولاد کو آپ سے پہلے سے زیادہ شفقت، محبت، اپنائیت ملنیچاہیے۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کو سمجھتے ہوئے اولاد کی دیکھ بھال اور تربیٹ کی طرف آپ کی توجہ بڑھنی چاہیے۔ آپ طالب علم ہیں تو روحانیت میں آنے کے بعد آپ کے آئندہ سال کے نمبر پچھلے سال کے نمبروں سے اچھے ہونے چاہئیں۔ آپ کی تعلیمی پوزیشن بہتر ہونی چاہیے۔
آپ کاروباری شخص ہیں اور بزنس کرتے ہیں تو آپ کا بزنس مزید Flourish کرنا چاہیے۔ آپ کی توجہ اور کوششوں سے آپ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہنا چاہیے۔ کاروبار میں زیادہ وسعت اور اضافہ ہونا چاہیے۔ زیادہ Prosperity آنی چاہیے۔
آپ Job کرتے ہیں تو آپ کی Promotion جلدی ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ آپ ایک طرف ہوکے بیٹھ جائیں۔ آپ کے ادارے والے اس بات سے پریشان ہوجائیں اور کہیں کہ پہلے تو یہ تھوڑا بہت کام کر بھی لیتا تھا اب تو یہ بالکل کام سے گیا۔ جہاں آپ job کرتے ہیں ان لوگوں کو احساس ہونا چاہیے کہ سلسلہ عظیمیہ میں شامل ہونے اور روحانی علوم سمجھنے کے بعد اس کارکن کی شخصیت میں بڑی مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی کارکردگی بہت اچھی ہوگئی ہے اور اب تو یہ شخص ہمارے لیے بھی بڑا اثاثہ ہے۔
آپ کی شخصیت میں ایسی تبدیلیوں کا اظہار آپ کی شخصیت سے آپ کی ذات سے سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کو اپنانے کے فوراً بعد شروع ہوجانا چاہیے۔
سلسلہ عظیمیہ میں داخل ہونے کے بعد بہت سے لوگوں کو اپنے خاندان یا ملنے جلنے والے لوگوں کے سامنے کئی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ اتفاق کرتے ہیں کچھ لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ جو اختلاف کرتے ہیں ان میں سے کئی لوگ بعض اعتراضات بھی کرتے ہیں۔ کئی لوگ سلسلہ میں شامل ہونے والوں خصوصاً نوجوانوں کو اس راہ سے ہٹا دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ بھائی! یہ تم کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ یہ تو بڑھاپے کے کام ہیں۔ نوجوانی ان کاموں کے لیے نہیں ہیں۔ تم وظائف اور مراقبے بڑھاپے میں کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بعض لوگ ایسا تاثر بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ روحانیت کی لائن اختیار کرنا بےعمل، نکمے لوگوں اور ایسے لوگوں کا کام ہے جو زندگی میں کچھ اور نہ کرسکیں۔
اس قسم کے اعتراضات کو سمجھنا اور ان سے وابستہ تاثرات اور منفی تاثر دور کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
یہ ذمہ داری کس طرح سرانجام دی جائے....؟
اس کے لیے مناسب بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بحث مباحثہ میں نہ الجھا جائے۔ آپ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ نے نوجوانی کے ایام میں یا زندگی کے کسی بھی دور میں جب روحانی علوم کے حصول کی طرف توجہ دی سلسلہ عظیمیہ سے وابستگی اختیار کی، مرشد کریم کی صحبتوں سے فیض حاصل کرنا شروع کیا اس کے بعد آپ کی شخصیت میں کتنا نکھار آیا۔لوگوں کو آپ کے طرز عمل سے معلوم ہوجائے کہ سلسلہ عظٰمیہ میں داخل ہونے سے پہلے آپ اپنے والدین کے لیے، اہل خانہ کے لیے اور معاشرہ کے لیے کتنے مفید تھے اور سلسلہ میں داخل ہونے اور روحانی تعلیمات کو سمجھنے کے بعد آپ اپنے والدین، اولاد، خاندان اور معاشرہ کے لیے کتنے مفید اور کارآمد بن گئے ہیں۔
ابھی میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات ترک دنیا کی تعلیمات نہیں ہیں۔ اسی حوالہ سے میں آپ سے عرض کروں گا کہ دو امور کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت وعید آئی ہے۔ وہ دو امور یہ ہیں۔
*.... اللہ کے ساتھ شرک۔
*.... بندوں کے حقوق میں کوتاہی۔
جس طرح اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اسی طرح حقوق العباد میں کوتاہی کی معافی بھی نہیں ملے گی۔
سلسلہ عظیمیہ کے سعید ارکان کو حقوق العباد کے بارے میں ہمیشہ ذمہ دارانہ اور محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ حقوقالعباد میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔ بیوی، بچوں، شوہر اور اولاد، والدین، پڑوسیوں اور معاشرے کے حوالے سے جو بھی حقوق آپ پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے کے لیے نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کوشش کیجیے۔
جن لوگوں نے سلسلہ عظیمیہ کی دعوت پر غور و فکر کیا اور اسے قبول کیا ایسے اکثر لوگوں پر اللہ کی رحمت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انہوں نے روشنی پائی، نور پایا۔ یہ روشنی اور نور راستہ بھی دکھاتے ہیں، حقیقت کا سراغ بھی دیتے ہیں اور آخرکار خود نور منزل بن جاتا ہے۔
علم کے طالب اور اللہ کی معرفت کے امیدوار سلسلہ عظیمیہ کے مخلص اور سچے اراکین کو یہ روشنی اور نور مبارک ہو۔ اس روشنی سے اپنے ظاہر و باطن میں اجالا کیجیے اور اس نور سے اپنی روح کو منور کیجیے۔ ساتھ ساتھ.... یہ بھی یاد رکھیے کہ آپ کو ملنے والی یہ روشنی اور نور آپ کے لیے سعادت کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس امانت بھی ہیں۔ یہ روشنی آپ کے پاس ان لوگوں کی امانت ہے جن لوگوں تک ابھی یہ روشنی پہنچی نہیں ہے ایسے لوگوں کا آپ کے اوپر یہ حق ہے کہ آپ ان تک یہ روشنی پہنچائیں۔ اس کے لیے آپ کو جو بھی کوششیں کرنا ہوں ان کے لیے خود کو تیار کیجیے۔ معاشرہ کے دوسرے لوگوں تک سلسلہ عظیمیہ کا پیغام پہنچانا، اس بات کی کوشش کرنا کہ ان کے ظاہری و باطنی وجود بھی اس روشنی سے منور ہوں، لوگوں پر کوئی احسان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو دوسرے لوگوں کا آپ پر حق ہے۔ آپ کا یہ عمل بھی حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح آپ کے اوپر آپ کے والدین کے، آپ کی اولاد کے، بھائی بہنوں کے حقوق ہیں اسی طرح سلسلہ کے پیغام، دعوت اور سلسلہ کی تعلیمات کے حوالہ سے معاشرے کے آپ پر حقوق ہیں۔
ہمیں خود تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اس کام کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے کہ ہم اس روحانی مشن کو پھیلانے والے بنیں۔ سلسلہ عظیمیہ کے ایک رکن کی حیثیت سے عمومی طور پر یہ ہم سب کی ڈیوٹی ہے۔ ہمیں اس ڈیوٹی کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔
ہم میں سے کچھ لوگوں کو اس کام کی انجام دہی کے لیے اپنے آپ کو خاص طور پر تیار کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ سلسلہ عظیمیہ کے کچھ اراکین کو مبلغ کا کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ اس وقت بھی ماشاء اللہ بہت سے لوگوں نے سلسلہ عظیمیہ کے لیے بہت زیادہ ایثار کرکے اپنے آپ کو اس کام میں مصروف کیا ہوا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے ایسے تمام افراد، تمام بھائی بہنیں، نوجوان ساتھی، بزرگ انتہائی درجہ قابل احترام اور لائق صد تکریم ہیں۔ ہم اپنے ان تمام بہن بھائیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کے ہر رکن کا فرض ہے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے دائرہ اثر میں سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کو پہنچائے اور جو لوگ خاص طورپر سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش اور جدوجہد میں مصروف ہیں ان کے ساتھ انتہائی عزت و احترام سے جہاں تک اور جس طرح ہوسکے سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کی تبلیغ کے لیے تعاون فرمائیں۔