جذبات پر کنٹرول اور تعمیر شخصیت
تصوف کی تربیت میں تزکیہ نفس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ قرآن پاک میں، احادیث مبارکہ میں تزکیہ نفس کے لئے واضح ہدایات موجود ہیں۔ امت مسلمہ میں علمائے حق نے ، اولیاء اللہ ، صوفیائے کرام نے اور عامتہ الناس میں لاتعداد افراد نے ان احکامات پر عمل کیا۔ ایسے افراد نے نفس مطمئنہ کے معنی اور مفاہیم جان لئے۔ اللہ کی مہربانیوں سے ایسے اصحاب دوسرے انسانوں اور اللہ کی سب مخلوقات کے لئے خیر و فلاح کا ذریعہ بنے۔
شیطان کسی بھی آدمی کو ورغلانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ جو لوگ اپنے نفوس کا تزکیہ کرنا چاہیں اور اللہ کے راستوں پر چلنا چاہیں شیطان ان سے بہت ناخوش ہوتا ہے۔ شیطان ہمارے اردگرد روپ بدل بدل کر آتا ہے۔ کبھی ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، کبھی تمنائیں ابھارتا ہے، کبھی طرح طرح کے خوف اور ڈر میں الجھادینا چاہتا ہے۔ تزکیہ نفس کی کوششوں میں مصروف بندے کو اپنی تربیت پر مسلسل توجہ دینے کے ساتھ ساتھ شیطان کی طرح طرح کی چالوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے….
تز کیہ نفس کا مطلب کیا ہے….؟
تزکیہ نفس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے خالق اور مالک اللہ کا سچا بندہ بننے کی کوششیں کی جائیں۔ اللہ کے احکامات پر سچے دل سے عمل کیا جائے۔ اللہ کی اطاعت و تابع داری مکمل وفاداری کے ساتھ ہو۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و تعلیمات پر صدق دل سے عمل کیا جائے۔
کیا تزکیہ نفس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کوئی خاص وضع قطع کرے۔کوئی خاص ڈریس پہننا شروع کردے۔ خواتین خاص قسم کا کوئی برقعہ پہننا شروع کر دیں۔
جی نہیں۔
تزکیہ نفس کے پراسیس کامطلب بنیادی طور پر فکر اور سوچ میں مثبت تبدیلی اور اخلاص اور خیرخواہی لانا ہے۔ نفس کا تزکیہ اللہ تعالیٰ کے احکامات امر و نواہی (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) پر عمل کرنے سے اور اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھال لینے سے ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے نیت کا خالص ہونا ضروری ہے۔ نیت کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ نیت کی پاکیزگی کے ساتھ ظاہری معاملات درست ہونا ضروری ہیں۔ ظاہری معاملات کے لئے کچھ معیار اور پیمانے ہیں۔
ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا… یہ زبانی اقرار ہے۔ ایمان کی گواہی اعمال صالحہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔
وَالْعَصْرِ o إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ o إِلَّا الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے صالح کام کئے ۔
ایمان اور عمل صالح کا ذکر ایک ساتھ کرنا ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ دل میں ایمان کے اثرات کا اظہار صا لح عمل سے ہوتا ہے۔اللہ پر ایمان اور صالح اعمال کا امتزاج انسان کو فلاح کا امیدوار بناتا ہے۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جذبات پر کنٹرول اور تعمیر شخصیت
ماں باپ اپنی اولاد کو خوش اور کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ اولاد کی فلاح ماں باپ کی خوشی کا باعث بنتی ہے۔
سلسلۂ طریقت میں مرشد اپنے شاگردوں کے، اپنے مریدوں کے روحانی باپ ہوتے ہیں، مرشد کی یہ خوا ہش ہوتی ہے کہ ان کی روحانی اولاد کا شمار فلاح پانے والوں میں ہو۔ فلاح پانا صرف خواہشات سے ہی ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے کئی کام کرنے ضروری ہیں۔ سب سے پہلا کام یہ کہ قرآن پاک سے ہدایت پانے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی دل و جان سے سعی کی جائے۔
فلاح پانے کے لیے تزکیہ نفس ضروری ہے۔ تزکیہ نفس کے کئی مراحل ہیں۔ ہر مرحلے میں اپنا جائزہ مسلسل لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس جائزہ کا مقصد یہ جانتے رہنا ہوگا کہ میری سوچ میں ، میری فکر میں مثبت تبدیلی کتنی آئی ہے۔ طرزِفکر سے منفی پہلو کتنے کم ہوئے ہیں اور مثبت پہلوؤں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
سوچ یا طرزِ فکر میں مثبت پہلو کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ ہر طالب علم کو کچھ خاص اوصاف اختیار کرنے اور ان اوصاف کو مسلسل ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے جذبات پر کنٹرول ایک بہت اہم وصف ہے۔ صرف نا موافق صورتحال میں ، مشکل حالات میں یا ناکامیوں پر ہی اپنے جذبات کو کنٹرول نہیں کرنا بلکہ کامیابیوں پر ، خوشیوں کے مواقع اور طاقت اور اختیار کے حاصل ہونے پر بھی جذبات پر کنٹرول ہونا ضروری ہے۔ بقول شاعر….
ظفر آدمی اسکو نہ جا نئے گا
وہ ہو کیسا ہی صا حب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد ِ خدا نہ رہی
جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
عیش ہو یا طیش ہو، خوشی ہو یا غم ہر حال میں جذبات کے اظہار پر ، Emotions پر کنٹرول ہو نا چا ہیے۔
سلاسل طریقت میں ایک اہم سبق جذبات پر کنٹرول سیکھنا بھی ہے۔
ہر آدمی کہیں کم زور ہے کہیں طاقت ور ہے، افسر اپنے ماتحتوں پر اختیارات استعمال کرتا ہے۔ حکمراں اپنی رعا یا پر طا قت ور ہو تا ہے۔ گھر کا بڑا گھر کے چھو ٹوں پرطاقت ور ہوتا ہے۔ کسی مقابلہ آرائی میں جس نے غلبہ پا لیا وہ طاقت ورہوتا ہے۔
بدلہ لینے کے لیے زندگی میں جلد یا بدیر مواقع ملتے ہیں لیکن معاف کردینااچھی بات ہے۔ طاقت کے باوجود معاف کردینا بہت بڑے ظرف کی بات ہے۔ اگر کوئی کم زور ہے اس کا ظالم پر کوئی بس نہیں چلتا ایسے آدمی نے معاف کردیا تو یہ شاید مجبوری میں معاف کرنا ہو۔ اصل خوبی تو یہ ہے کہ طاقت ہو، بدلہ لینے پر پوری قدرت ہو لیکن معاف کردیا جائے۔ جانی دشمنوں کو ، مخالفین کو معاف کردینے کی بڑی بڑی مثالیں حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ملتی ہیں ۔
فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ مسجدالحرام میں تشریف لے گئے۔ وہاں کئی ظالم لوگ سر جھکائے کھڑے تھے۔ اس موقع پر نبی رحمت حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آ ج تم سب کے لیے معا فی ہے۔
قدرت ہونے کے باوجود، غلبہ ہونے کے باوجود معاف کرنا اللہ تعالیٰ کے نز دیک بہت ہی پسندیدہ بات ہے۔ یہ جذبات (Emotions) پر انتہائی اعلیٰ کنڑول ہے۔
حضرت مولا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ ایک جہاد میں کفار سے مقابلہ کررہے تھے۔ حضرت علی نے اپنے مدمقابل کو پچھاڑ دیا۔ وہ شخص مکمل طور پر بے بس ہوچکا تھا۔ قریب تھا کہ حضرت علی کی تلوار اس کا سر تن سے جدا کردے۔ اس شخص نے حضرت علی کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس پر مولا علی نے اپنی تلوار اس شخص کی گردن سے ہٹالی، لوگوں نے دیکھا کہ اس مغلوب شخص کی بدتمیزی پر حضرت علی غضب ناک نہ ہوئے بلکہ اس کی جان بخش دی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا….
حضرت علی نے جواب دیا پہلے میں اللہ کی خاطر اس سے لڑرہا تھا۔ اس نے بدتمیزی کی ، اس کے بعد میں اپنی خاطر اس سے لڑتا اور یہ مجھے گوارا نہیں ہوا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ یہ واقعہ غلبے کے وقت جذبات پر کنٹرول کی چند اعلیٰ مثالوں میں سے ایک ہے ۔
پرسنیلٹی ڈیولپمینٹ میں جو عمل زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہ جذبات پر کنٹرول سیکھنا ہے۔ اس مقصد کے لئے مراقبہ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
میرے پاس اسٹریس ، ڈپریشن، بےخوابی، کم خوابی کے بھی کئی مریض آتے ہیں۔ میں انہیں کلر تھراپی کے اصولوں پر مختلف تراکیب بتانے کے ساتھ اللہ کا ذکر اور مرا قبہ کرنے کا بھی کہتا ہوں۔ ان عارضوں میں ذکر اور مراقبہ کے بہت اچھےنتائج سامنے آئے ہیں۔
ہمیں اپنے اندر موجود ایک کم زوری کو جانچنا ہے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ وہہےجلد بازی۔
کئی لوگ جلد باز ہوتے ہیں۔ چیزوں کو اپنے وقت پر سرانجام دینا ، متحرک اور فعال ہونا بہت اچھی بات ہے۔ یہ ہونا چاہیے لیکن جلدبازی ایک الگ صفت ہے۔ جلد بازی Positiveصفت نہیں ، بردباری اور اعتدال اچھی صفت ہے۔
ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ جلدبازی ہمارے اندر ہے یا نہیں۔
یہ امورPersonality development سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ ہماری تربیت میں کئی مقام پر کام آئے گی۔ ان کا تعلق تزکیہ نفس سے بھی ہے۔
ہم جا ئزہ لیں تو یہ بات واضح ہو گی کہ ہم اپنے وقت کا بہت بڑا حصہ ضا ئع کر دیتے ہیں۔ انسانوں سے قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا۔ قیامت کے دن یہ سوال بھی ہو گا کہ دنیا کی زندگی میں تمھیں جو وقت دیا گیا تھا اس میں کیا کیا….؟
ہم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چا ہیے کہ ہم کتنا وقت درست استعمال کر رہے ہیں اور ہمارا کتنا وقت ضا ئع ہو رہا ہے۔
دن بھر بظاہر مصروف رہنے کے باوجود ہم کتنا وقت ضائع کرتےہیں….؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہن عطا کیا ہے اس کی رفتار بہت زیادہ ہے لیکن اکثر لوگ ذہن کو بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ وقت کے درست استعمال کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ذہن کی رفتار کو بڑھا دیا جائے۔ اس طرح کم وقت میں زیادہ کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ مراقبہ کی ٹھیک طرح مشق سے ذہن کی رفتار بڑھانے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے۔