مادی علوم : وحی کے تابع....؟
سلسلہ عظیمیہ ایک روحانی اورعلمی سلسلہ ہے۔ اس سلسلہ طریقت میں الحمد اللہ پڑھے لکھے مرد و خواتین بڑی تعداد میں ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کے اراکین کو قرآن پاک ، تعلیمات نبوی اور صوفیانہ تعلیمات کو سمجھنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ معروف سائنسی یا فلسفیانہ نظریات یا کسی بھی دور کے معروف مباحث سے کم یا زیادہ واقفیت ہونی چاہیے۔
اس دنیا میں انسان کو اپنی زندگی کیسے گذارنی ہے اس ضمن میں قرآن نے واضح رہنمائی فرمائی ہے۔ سورۃ والشمس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَاOفَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَاO قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا Oوَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا O
‘‘قسم ہے نفس کی اور اسے سدھارنے کی سنوارنے کی اور انسان کو ودیعت کر دیا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ پس جس نے اپنا تزکیہ کیا وہ کام یاب ہوا اور جس نے نفس آلودہ کیا وہ خسارے میں رہا۔’’
صراط مستقیم یعنی قرآن پاک کے بتائے ہوئےراستہ پر چلنے کا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ انسانی معاشروں میں امن ، سکون اور استحکام آتا ہے۔ لوگ اللہ تعالیٰ سے قربت پاتے ہیں اور آخرت کے لئے تیاری کرتے ہیں ۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ اس دنیا کے علوم و فنون حاصل کرتے ہوئے ، ذندگی کے معاملات میں فیصلے کرتے ہوئے ، عقل استعمال کرتے ہوئے انسان کو وحی کے تابع ہونا چائیے۔ اگر انسان وحی کے تابع ہو کر اپنی عقل استعمال کرے گا تو وہ حقیقت تک پہنچے گا اور نو ع انسانی کے لئے خیر و فلاح کا با عث بنے گا لیکن اگر انسان وحی سے ہٹ کر یا وحی کا انکار کر کے محض اپنی عقل پر بھروسہ کر کے معاملات کی تفہیم کر نا چاہے گا تو اس میں Confusionہو گا، پریشانیاں ہوں گی، بھٹکاوے ہوں گے، گم را ہی ہو گی۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم خود وحی کی طر زوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور دنیا کو وحی کی اہمیت اور وحی کی روشنی میں سفر طے کر نے کے فوائد اور مثبت اثرات آگاہ کریں۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چائیے کہ سائنس کی ترقی اور سا ئنس کے مختلف نظر یات جہاں تک ان سے نوع انسانی کو فائدہ پہنچے وہ اچھے کام ہیں۔ سائنس پڑھنا اپنے آپ کو educateکرنا، سائنس اور ٹیکنا لوجی میں آگے بڑھنا یہ ہر شخص کا حق ہے۔ ہر شخص کو، ہر قوم کو علم میں آگے بڑھنا چا ئیے لیکن سائنس کی ایجوکیشن ہمارے لئے اس طرح ہونی چائیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب لے جانے کا ذریعہ بنے، سائنسی یا دیگر ہمارے لئے شکوک شبہات اور گم راہی کا ذریعہ نہ بنیں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
یا حئ یا قیوم کا ورد
اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحیی یاقیوم کا ورد کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں اس حقیقت کا اعتراف ہوتے رہنا چاہیے کہ اس کائنات کو، کائنات کی ہر نوع کو کائنات کا خالق اور مالک ، اللہ تعالیٰ حیات عطا فرما رہے ہیں اور اس حیات کی بقا اور تسلسل کے لئے اللہ تعالیٰ مسلسل انتظامات فرمارہے ہیں۔
یہ نکتہ ہم پر وا ضح ہو نا چا ئیے کہ وحی کی روشنی سے محروم محدود فہم رکھنے والے انسانوں کے نظریات غلط یا ناقص ہوسکتے ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ اپنے اراکین کو تاکید کرتا ہے کہ وحی کو سمجھا جائے ، اللہ تعالیٰ کی مر ضی کو ، قوانین قدرت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔
اللہ تعالیٰ کی مر ضی کو سمجھنے کا ایک ذریعہ نیچرل سائنسز بھی ہیں ۔ سائنسی علوم ہوں یا معاشی یا معاشرتی علوم یا دیگر شعبوں کے علوم ہر ایک اپنی اہمیت اور ضرورت ہے۔ علوم سے اصل فایدہ دراصل یہ ہے کہ ان کے ذریعے انسان اللہ کی صفات کا واقف اور عارف بن سکے۔
انسان نے کشش ثقل کو سمجھ لیا اور اس کا ایک قانون بیان کیا تو دراصل یہ قانون اس سائنس دان (Newton ) نہیں بنایا ہے۔ اس نے صرف دریافت کیا۔ نیوٹن کی جستجو اور تحقیق سے کشش ثقل (Gravity ) انسان پر واضح ہوگئی ورنہ زمین پر یہ کشش تو اس آگاہی سے لاکھوں سال پہلے سے موثر ہے۔ نیوٹن کی س دریافت کی وجہ سے نئی نئی را ہیں کھلیں لیکن کشش ثقل یا دیگر فطری قوانین دریافت کر کے لوگ یہ کہنے لگیں کہ ہم بہت کچھ جان گئے ہیں اب ہمیں کسی Divine Guidanceکی ضرورت نہیں تو یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔
کشش ثقل کے بارے میں جان کر ہمارا ذہن اس طرف جانا چاہیے کہ اتنا زبردست نظام کس نے بنایا....؟ اس نظام کو بناکر ہمیشہ ایک منظم طریقے سے چلانے والی ہستی کون ہے....؟
سا ئنس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ جب ہم سائنس پڑھیں اور کائنات یا اس زمین کے مختلف صلا حیتیں ہمارے سامنے آئیں تو ہمارا ذہن ان چیزوں کے خا لق اللہ کی طرف جائے۔ ان دریافتوں اور انکشافات کی وجہ سے انسان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو جا ئیں۔ اگر ہم سائنس پڑھ کر شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجا ئیں اور وحی کی اہمیت کو نہ سمجھیں تو یہ سا ئنس پڑھنے کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے اور یہ وہ نقصان ہے جو ایک شخص نہیں بھگتے گا بلکہ پوری پوری قوموں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
سلسلہ عظیمیہ کا پیغام یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے والے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے بنیں۔
Theory of evolutionجسے نظریہ ارتقاء کہتے ہیں جس کے تحت یہ غلط فہمی عام ہوئی کہ انسان ایک خلیہ سے ترقی کرتے کرتے موجودہ شکل و صورت تک پہنچا ہے ۔ انسان کی ہزاروں لاکھوں سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔
ہمیں سائنس سے استفادہ کر نا ہے، سائنس کی ایجوکیشن لینی ہے لیکن کسی سائنس دان یا دیگر شعبوں کے عالموں کی کسی غلط فہمی یا گمراہی کی پیروی سے خود کو بچانا ہے۔