تصوف کا پیغام

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

تصوف کا پیغام

سوال: 

محترم ڈاکٹر وقار عظیمی صاحب! میں اردو ادب کی ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ کئی ادبی رسائل کے ساتھ ساتھ روحانی ڈائجسٹ بھی ہر ماہ پڑھتی ہوں۔ اس کی وجہ آپ کے والد گرامی خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے ساتھ میری عقیدت اور آپ کی تحریروں سے مجھے ملنے والی آگہی  اور فکری رہنمائی ہے۔
آپ کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف ایک وسیع المطالعہ فرد ہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے کئی پہلوؤں پر آپ کا مشاہدہ بھی بہت زیادہ ہے۔ مطالعہ کی وسعت اور مشاہدات کی کثرت  کو آپ جس طرح  مثبت اور تعمیری انداز میں  استعمال کرتے ہیں  اس کی مثالیں ہمارے ہاں کم ہی ملتی ہیں۔ امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے آپ شفا کا ذریعہ بنتے ہیں۔   مسائل میں الجھے لوگوں کے معاملات سلجھانے کے لیے رہنمائی اس طرح فراہم کرتے ہیں کہ مسافر کے سامنے صحیح راستہ اور سائل کے سامنے درست جواب بہت واضح ہوجاتا ہے۔ دکھ اور مشکلات میں گھرے لوگوں کو آپ تسلی دیتے ہیں۔ ان میں یقین  کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی اہم معاملات پر آپ ہمارے معاشرتی رویوں اور معاشرتی سوچ سے ہٹ کر فکری رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
آپ کی علمی و فکری اپروچ اور لوگوں کو صحیح فکر کی طرف راغب کرنے کے لیے آپ کا انداز یقیناً آپ کی انفرادیت ہے۔ آپ فرسودہ روایات اور ضرر رساں رسومات کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ مسائل کو جن جن زاویوں سے  دیکھتے ہیں اور متاثرہ شخص کو ان سے نکلنے کے لیے  جس حقیقت پسندی لیکن ہم دردی کے ساتھ سمجھاتے ہیں ایسا ہمارے معاشرے  میں بہت کم لوگ کررہے ہیں۔ 
آپ تصوف کے نظریات  پر بھی  جذباتی کے بجائے منطقی انداز اختیار کرتے ہیں۔ ضعیف الاعتقادی  اور توہم پرستی کے بجائے  آپ صوفیانہ تعلیمات کو  یقین میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ 
عورتوں کے حقوق سے آگہی اور ان کی پاس داری کرنے اور تعلیم کے فروغ خصوصاً سائنس کی طرف نوجوانوں کو ترغیب دلانے کے لیے آپ کی تحریریں قابل قدر اور قابل تقلید ہیں۔
ان گذارشات کے بعد میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کے والد گرامی کے اتنے بڑے تحریری سرمائے اور آپ کی کئی صلاحیتوں کے باوجود تصوف کا پیغام کماحقہ پیش نہیں کیا گیا۔ 
ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی  نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ ان میں نسلی، لسانی، مسلکی غرض کئی طرح کی انتہا پسندی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نوجوانوں کی صحیح تربیت اور درست رہنمائی نہ ہونا بھی ہمارے بڑے مسائل ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ تصوف کے پیغام کا صحیح پرچار کرکے اور صوفیانہ تعلیمات کے فروغ کے ذریعے کئی مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔
آپ سے گذارش ہے کہ معاشرے کو لاحق کئی امراض کے روحانی علاج کی طرف بھی توجہ دیجیے۔ اس کے لیے دعائیں بتانے کے ساتھ ساتھ مناسب لائحہ عمل تجویز فرمائیے۔   


<!....AD>
<!....AD> 


جواب:

روحانی ڈائجسٹ کی دیرینہ قاری صاحبہ....!
میرے والد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے ساتھ آپ کی  اور لاتعداد افراد کی عقیدت میرے لیے خوشی کا باعث ہونے کے ساتھ  مجھے ذمہ داری کا احساس بھی دلاتی ہے۔
روحانی ڈائجسٹ کے اکثر قارئین اس رسالے کو اپنا استاد اور فکری رہنما قرار دیتے ہیں۔ قارئین کی یہ وابستگی میرے لیے اور  کارکنان روحانی ڈائجسٹ کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔
اس دنیا میں معاشی طور پر ترقی کرنا بہت اہم ہے، ساتھ میں سماجی طور پر بہتری بھی ضروری ہے۔  سماجی بہتری کے لیے ہمارے معاشرے کو علم کے فروغ کے ساتھ ساتھ برداشت، رواداری، دوسروں کے حقوق کے احترام کے ساتھ ایثار اور انفاق کی ضرورت ہے۔ 
لوگوں میں ان صفات کو بڑھاوا دینے میں تصوف کی تعلیمات بہت مفید اور صوفیانہ ادارے بہت موثر ہوسکتے ہیں۔  
سائنس و ٹیکنالوجی کی بہت زیادہ ترقی سے اس دور میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو عدم تحفظ کے احساس، اکیلے پن اور شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔  ان اسباب کی وجہ سے دنیا بھر میں اسٹریس اور ڈپریشن میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ذہنی دباؤ ایک طرف تو کئی جسمانی امراض کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری طرف اس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان اخلاص، ایثار و  مروت کے اعلیٰ جذبات میں بھی کمی آرہی ہے۔
موجودہ دور میں انسان ظاہر کی تصوراتی اور عارضی خوشیوں کو اہمیت دے رہا ہے اور باطن سے پھوٹنے والی حقیقی اور مستقل خوشیوں کے لیے  ماضی کی نسبت زیادہ کوششیں نہیں کررہا۔ 
جسمانی امراض اور ذہنی امراض سے کہیں زیادہ ضرر رساں روحانی امراض ہوتے ہیں۔ روحانی امراض انسانوں کو کم زور اور کھوکھلا کردیتےہیں۔
تصوف کی تعلیمات انسان کو ایسے امراض سے محفوظ رکھتی ہیں۔ تصوف کی تعلیمات کے  زیر اثر بندہ جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی طور پر صحت مند رہنے کی  کلید سے واقف ہوتا ہے۔ جسمانی صحت سے تو ہم کافی حد تک واقف ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذہنی و نفسیاتی اور روحانی معاملات میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے۔ تصوف کی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ان معاملات میں توازن سے انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں کتنی زیادہ  اچھائیاں شامل ہوجاتی ہیں۔ ان معاملات  میں عدم توازن سے افراد و معاشروں کو  کس بگاڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
آپ کا مشاہدہ درست ہے کہ تصوف کا پیغام کماحقہ پیش نہیں کیا گیا۔
انسانوں کی بھلائی کے لیے انتہا پسندی، معاشروں میں برداشت، رواداری اور ہم آہنگی  کو فروغ دینے کے لیے صوفیانہ تعلیمات کی درست تفہیم اور اس پیغام کے زیادہ سے زیادہ ابلاغ کے لیے سب متعلقہ افراد کو زیادہ بہتر انداز میں موثر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے