بیماریوں کے علاج اور مسائل کے حل میں ذکر کےفوائد
سوال:
محترم ڈاکٹر صاحب ! میں اور میری کئی سہیلیاں آپ کی علمی اپروچ اور آپ کی تحریروں کی بہت مداح ہیں۔ آپ علمی سوالات کے مدلل مگرسہل جوابات دیتے ہیں ۔
آج میں بھی آپ کی خدمت میں ایک علمی سوال کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں۔
کئی روحانی بزرگ بیماریوں اورمسائل کے حل کے لیے ذکرکی تلقین کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فلاں اسم کے یہ فوائد ہیں ،فلاں کے یہ ۔
سوال یہ ہے کہ بیماریوں کے علاج میں ذکر کرنے سے فوائد کس طرح حاصل ہوتے ہیں۔؟
معاشی یا کسی اورطرح کے مسائل میں ذکر کیا معاونت کرتا ہے۔؟
<!....AD>
<!....AD>
جواب:
دنیا بلکہ کائنات کی ہر زبان کا ہر لفظ مخصوص معانی کا حامل ہوتاہے۔ الفاظ کے معانی سے مفہوم وجود میں آتے ہیں۔ ہرلفظ اپنے معانی اورمفاہیم کے ساتھ ساتھ اپنا ایک مخصوص تاثر بھی رکھتاہے۔تحریر میں الفاظ کی ترتیب کے ذریعہ یا زبان سے الفاظ کی ادائیگی کے کسی خاص انداز کے ذریعہ الفاظ کا یہ تاثر زیادہ یا کم ہوجاتاہے۔
قرآن پاک کی آیات ، اسمائے الٰہیہ ، صلواۃ علی النبی، حضورنبی کریم ﷺکی مسنون دعاؤں کے متبرک ومقدس الفاظ اوردیگر کئی الفاظ، معانی اورمفہوم کے ساتھ ساتھ نورانیت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
’’اوراللہ کا کثرت سے ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(سورۂ جمعہ:آیت:10)
جسمانی امراض اور ذہنی امراض سے کہیں زیادہ ضرر رساں روحانی امراض ہوتے ہیں۔ روحانی امراض انسانوں کو کم زور اور کھوکھلا کردیتےہیں۔
اللَّهُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ
’’اللہ آسمانوں اورزمین کا نورہے۔‘‘(سورہ ٔنور:آیت:35)
اللہ تعالیٰ نے فلاح وکامیابی کے جو طریقے تعلیم فرمائے ہیں ان میں کئی دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر بھی شامل ہے۔
اللہ کے ذکر کا مطلب کیاہے....؟
کیا ذکر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کسی ایک یا چند اسماء کو زبان سے دہرا یاجاتارہے...؟
اللہ کے اسماء کو زبان سے دہراتے رہنا یا اپنی تسبیحات ودعاؤ ں میں اللہ کے کسی خاص اسم کوشامل کرنا بھی ذکر میں شامل ہےتاہم ذکر کی اصطلاح وسیع معانی اورکثیر پہلوؤں کی حامل ہے۔
نبی آخر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہونے والی اللہ کی کتاب ‘‘قرآن’’ کا تعارف بطور ‘‘ذکر’’ بھی کیا گیا ہے۔
اِنَّ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ O
ترجمہ:یہ (قرآن) تمام عالمین کے لئے نصیحت ہے۔(سورۂ یوسف 104۔ سورہ ٔتکویر27۔ سورہ ٔص 87)
وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ
(سورہ ٔانبیاء : آیت:50)
قرآن پاک میں ذکر کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ ذکر کی اہمیت پر غورکرنے سے واضح ہوتاہے کہ ذکر کا مقصد دراصل اس کائنات کے خالق ومالک اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ روحانی ،قلبی وذہنی تعلق کا قیام ہے۔
ذکر عبادت میں توشامل ہے ہی اگر ذکر کو معاملات میں بھی شامل کرلیا جائے تویہ عمل انسان کے لیے مزید خیر وفلاح کا ذریعہ بن جائے گا۔
ذکر کے ذریعہ روحانی اورذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتاہے۔اللہ کا ذکر ایک بندے کو روحانی تقویت فراہم کرتاہے۔
اس دنیا میں ہر انسان کی زندگی مادے کے ساتھ ساتھ روشنیوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ انسانی جسم میں روشنیوں کا یہ بہاؤ ایک خاص وولٹیج کے کرنٹ کی صورت میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔
گذشتہ سطور میں یہ عرض کیا جاچکاہے کہ قرآن پاک کی آیات ، اسمائے الٰہیہ ، درود شریف ،مسنون دعائیں اور دیگرکئی الفاظ معانی ومفہوم کے ساتھ ساتھ نورانیت کے بھی حامل ہیں۔
الفاظ کی تکرار ایک خاص تاثر دینے کے ساتھ ساتھ برقی مقناطیسی میدان (Electro magnetic field) کے قیام کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
قرآن پاک کی آیت اللَّهُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ میں تفکر کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کائنات کی ہر تخلیق میں اللہ کا نور کام کررہاہے۔ الفاظ اورآواز بھی اللہ کی مخلوقات میں شامل ہیں۔
نورانی کیفیات کے حامل الفاظ کے باربار اعادے یعنی تکرارسے ان الفاظ میں موجود انوار ؛ذاکر کے وجود پر اثر انداز ہوتے ہٰیں۔یہ نکتہ بھی واضح رہے کہ ذکر کے انوار صرف ذاکر کے وجود پرہی نہیں بلکہ کسی سننے والے یعنی سامع کے وجود پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
قرآن پاک بتاتاہے کہ
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ
(سورۂ بنی اسرائیل:82)
قرآن کا شفا ہونا یا قرآن کے ذریعہ شفا ملنا ، یہ امر بھی کثیر معانی اوروسیع ترمفہوم کا حامل ہے۔ اس کا ایک مطلب تویہ ہے کہ قرآن دلوں کے روگ کےلیے، روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ قرآن جسمانی بیماریوں کے لیے بھی شفا کا ذریعہ ہے۔
ذکر کے ذریعہ انسانی وجود پر اثر انداز ہونے والے یہ انوار انسان کی قوت مدافعت میں اضافہ کرکے بیماریوں سے شفاء کا ذریعہ بنتے ہیں۔مصائب ومشکلات میں قدرت کی مدد کو آواز دیتےہیں۔
ذکر کے انوار انسان کی خوش قسمتی اورروحانی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ذکر کے ذریعہ انسانی وجود میں جمع ہونے والے انوار انسان کے معاشرتی ومعاشی معاملات میں خیر و برکت کا ذریعہ بن کر اس کے لیے کامیابیوں کے راستے کھول دیتے ہیں۔
پورے ادب واحترام اورذہنی یکسوئی کے ساتھ ذکر کرنے والے بندے کواللہ تعالیٰ اپنے دوستوں میں شامل کرلیتاہے اورایسے بندوں کے لیے انسانوں کے دلوں میں احترام ڈال دیا جاتاہے۔
نظام کائنات کے سب سے زیادہ واقف ، سب سے بڑے عالم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایا:
قرآن کی تلاوت اوراللہ کے ذکر کااہتمام کیا کرو، اس عمل سے آسمانوں میں تمہارا ذکر ہوگااور یہ عمل زمین میں تمہارے لیے ہدایت کا نورہوگا۔
(بہیقی فی شعب الایمان242/4)
ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتے ہٰیں کہ
میں بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتاہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتاہے اورجب وہ مجھے یاد کرتاہے تومیں اس کے ساتھ ہوتاہوں،پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتاہوں، اوراگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتاہے تومیں اس مجمع سے بہتر یعنی فرشتوں کے مجمع میں تذکرہ کرتاہوں اوراگر بندہ میری طرف ایک بالشت متوجہ ہوتاہے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتاہوں، اوراگر وہ ایک ہاتھ بڑھتاہے تومیں دوہاتھ متوجہ ہوتاہوں ،اوراگر وہ میری طرف چل کر آ تا ہے تو میں اس کی طرف دوڑکرچلتاہوں۔ (مسند احمد۔بخاری۔مسلم۔ترمذی)
اب ہم ذکر کو سائنسی نقطۂ نظر سے سمجھتے ہیں۔
سائنس دانوں کی 25سالہ تحقیق کے مطابق اگر کوئی شخص خاموشی ،سکون اوریکسوئی کے ساتھ ذکر یا دعا میں مشغول ہوتاہے تواس کا جسمانی نظام خود بخود ایسی نفسیاتی تبدیلیاں پیدا کرتاہے جس سے میٹا بولزم Metabolism، رفتار قلب Rate of Heart اور رفتارِ تنفس Rate of breathing بتدریج کم ہوتا جاتا ہے اور دماغی لہریں Brain Waves آہستہ ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں ذہنی دباؤStress جو متعدد امراض کا پیش خیمہ ٖثابت ہوتاہے، ختم ہوجاتا ہے اورمریض کی شفایابی زیادہ تیزی سے ہوتی ہے۔میٹابولزم انسانی جسم میں ہونے والا وہ کیمیائی تعامل ہے جس کی وجہ سے خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے۔ دعا کے باعث اس میں کمی کے نتیجے میں خلیات کی عمر بڑھ جاتی ہے اوروہ اپنی بھر پور خدمات جسم کو پہنچا کر شفایابی کا باعث بنتے ہیں۔
ستمبر 2011ء