رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرزِ فکر
ہم اگر اپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرزِ فکر کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل کریں۔
الحمد ﷲ!
ہمیں اپنی زندگی میں ایک بار پھر اﷲ کے محبوب ترین بندہ، خاتم النبیین ، رحمتہ اللعالمین ، انسانِ کامل ، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشیاں منانے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کاموقع مل رہا ہے۔
آپ سب کو عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم مبارک ہو۔
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے باعث انسان شرف و احترام کے نئے تصورات سے واقف ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کی آخری کتاب قرآن کے ذریعہ انسان کو فلاح و کامرانی کے اصول اور طریقے سکھائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے انسان نے اس دنیا میں خود داری اور عزت وسر بلندی کے ساتھ جینا سیکھا اور آخرت میں سرخروئی کے رازوں سے واقف ہوا۔
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلوں میں منتشر اور خانہ جنگیوں میں مبتلا لوگوں کو ایک منظم قوم کی شکل دی۔ آپ کی انقلابی قیادت میں ریاست مدینہ محض دس سالوں کے اندر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کا مرکز بن گئی۔ ایسا انقلاب جو انسان کے مادّی اور روحانی دونوں رخوں پر اثر انداز ہوا، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہوا انقلاب اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات اتنی مؤثر اور ہمہ گیر ہیں کہ ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود اسی طرح قابلِ عمل ہیں ۔ یہ تعلیمات انسان کو درپیش مسائل کا حل فطری اصولوں کے مطابق فراہم کرتی ہیں۔
لیکن آج ۔۔۔۔۔
آج جبکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے وابستہ ہونے والوں کی تعداد سوا ارب سے زائد ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان قوم جگہ جگہ ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ مسلمان غربت، افلاس ، حقوق سے محرومی ، غیروں کے سیاسی اور اقتصادی تسلط میں مبتلا ہیں۔
قبلہ اول بیت المقدس کے ارد گرد یہودیوں کی بندوقوں سے نکلنے والا آتش و بارود مسلم اجسام کے پرخچے اڑا رہا ہے۔ بیتالمقدس کی گلیوں میں خونِ مسلم روانی سے بہہ رہا ہے۔ بھارت میں مسلم دشمن مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں مسلمان قتل ہورہے ہیں ، کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادیتوں پر تو پوری انسانیت کو شرم آنی چاہئے۔ اسی طرح دنیا کے کئی دوسرے علاقوں میں مسلم خون کی ارزانی اور بے حرمتی عام ہے۔ لیکن عالمی ضمیر کو تو چھوڑیئے خود مسلم ضمیر یہ سب کچھ دیکھنے اور سہنے کے باوجود خاموش ہے۔ مہر بہ لب ہے۔
یہ تو امت پر غیروں کے ظلم وستم کے محض ایک رُخ کی ہلکی سی جھلک ہے۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سوا ارب سے زائد آبادی والی امت مسلمہ کے پچاس کروڑ سے زائد افراد شدید غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ غریب یا نہایت کم سالانہ قومی آمدنی رکھنے والے نمایاں اسلامی ممالک میں پاکستان ، بنگلہ دیش ، سوڈان ، نائجیریا ، شام اور دیگر ایشیائی و افریقی مسلم ممالک شامل ہیں۔ وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں بھی مسلمانوں کی حالت زیادہ تر تشویشناک ہی ہے۔ خاص طور پر بھارت جہاں پندرہ کروڑ سے زائد مسلمانوں کی اکثریت شدید غربت اور حق تلفی کا شکار ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو نظامِ زندگی عطا فرمایا اس پر عمل کرکے تھوڑے عرصے میں ہی ریاست کے پاس اس قدر وسائل آگئے کہ ریاست غریبوں کی کفیل بن گئی۔ اس نظام پر عمل سے مملکت میں غربت کی شرح میں تیزی سے کمی ہوئی۔ خوشحالی میں اضافہ ہوا اور تاریخ کی گواہی موجود ہے کہ وہ دن آگیا جب خوشحال لوگ زکوٰۃ ادا کرنے نکلتے تھے لیکن انہیں مستحقین زکوٰۃ نہیں ملتے تھے۔
انسانی فطرت سے سب سے زیادہ واقف انسانِ کامل حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک روز دعا فرمائی۔
اے اﷲ میں کفر اور افلاس سے پناہ مانگتا ہوں۔ ایک شخص نے پوچھا ، کیا یہ دونوں برابر ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں دونوں برابر ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی۔ مسلمانو! محتاجی و مفلسی اور ذلت و خواری سے پناہ مانگا کرو ۔
غربت و افلاس بہت ضرر رساں حالتیں ہیں۔ یہ انسان کے ایمان کو بھی متاثر کرسکتی ہیں۔ قرآن اور تعلیمات نبوی پر عمل پیرا افراد اورمعاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے غربت دور کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کریں۔ انہیں ذلت و خواری سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ذرائع پیدا وار کو ترقی دی جائے۔ دولت کے ارتکاز کو ختم کرکے زر کی زیادہ سے زیادہ گردش کا اہتمام کیا جائے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’نیکی کے کاموں میں سب سے اچھا کام اس شخص کا ہے جو بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے ، مفلسوں کا قرض ادا کرتا ہے اور مصیبت زدوں کی تکلیف رفع کرتا ہے‘‘۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پروردگار عالم فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے‘‘۔
ان کاموں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی اور اہلِ خانہ کی ضروریات کی تکمیل کے بعد بھی ایک شخص کے پاس وافر مقدار میں وسائل موجود ہوں۔ان باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ فرامین معاش کے حصول میں کوشش کرنے اور دولت کمانے کی بھرپور ترغیب دیتے ہیں۔
ان وسائل کا حصول کیونکر ہو
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’حلال روزی تلاش کرنا اﷲ کے راستے میں بہادروں کے ساتھ جنگ کرنے کے برابر ہے‘‘۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذرائع پیداوار کی ترقی کے لئے حکم دیا ’’مسلمانو! روئے زمین کے پوشیدہ مقامات میں روزی کی تلاش کیا کرو‘‘۔
لیکن دولت کمانے کی ترغیب اپنے ساتھ کئی پابندیاں بھی لئے ہوئے ہے ۔ یہی وہ پابندیاں ہیں جن سے سرمایہ دار انہ نظام کے حامی اور پروردہ خائف رہتے ہیں۔ یہی وہ پابندیاں ہیں جو دولت کے زیادہ سے زیادہ حصول کے باوجود افراد و معاشرہ کو ظلم و استحصال سے باز اور محفوظ رکھتی ہیں۔
دھوکہ دہی ، رشوت، خیانت، ملاوٹ، جھوٹ ، ظلم کی آمیزش سے ہونے والی کمائی سے منع فرمایا گیا ہے۔ ایسی روزی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے ’’جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی روزی جائز طریقہ سے حاصل ہوئی ہے یا ناجائز طریقہ سے ، اﷲ اسے دوزخ میں ڈال دے گا‘‘۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر اور افضل کمائی کون سی ہے ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ تجارت جس میں اﷲ کی نافرمانی شامل نہ ہو اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا‘‘۔
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے افلاس سے اﷲ کی پناہ مانگی ہے۔ افلاس ایک ایسی بری حالت ہے جس سے انسان کا ایمان بھی ڈگمگا سکتا ہے۔ معاشرہ میں پھیلے ہوئے کئی جرائم مثلاً چوری ، ڈکیتی ، رہزنی وغیرہ کے اسباب میں غربت اہم ترین ہے۔ غربت انسان کو عزت نفس سے محروم کرسکتی ہے۔
آج امت مسلمہ کا ایک بڑا المیہ یہی ہے کہ ایک چھوٹے سے حصہ میں خوشحالی کے باوجود یہ امت قوموں کی برادری میں اثر و رسوخ اور عزت و مرتبہ سے محروم ہے۔
ہم اپنے معاشرہ میں چاروں طرف برائیاں پھیلی ہوئی دیکھتے ہیں۔ غذائی اشیاء میں ملاوٹ ، کم تولنا ، وعدہ پورا نہ کرنا ، چور بازاری ، رشوت ، دوسروں کے مال و اسباب پر ظلم و طاقت سے ناجائز قبضہ کرلینا ، اپنے ذاتی فائدہ کے لئے جھوٹ بول دینا اور دیگر کئی منفی چیزوں نے ہمارے معاشرہ کو بڑی طرح جکڑ لیا ہے۔ یہ تمام وہ خرابیاں ہیں جن کے ارتکاب پر اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ان میں سے کئی برائیوں کے ارتکاب پر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے شدید سزا کی تنبیہہ بھی فرمائی ہے۔
ہمارے معاشرہ میں عبادات اور مذہبی رسومات بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ واعظین مختلف ذکر و اذکار کی فضیلتیں اور ان کے ثواب کے بارے میں لوگوں کو بہت فصاحت سے بتاتے ہیں ۔ کئی واعظ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس دنیا کی زیب و زینت، آرام و آسائشات میں کفار کو مست رہنے دیا جائے۔ ہمارے لئے تو آخرت کی راحتیں ہیں ہمارے لئے جنت ہے۔ جہاں ہر طرح کا عیش و آرام ہے حوریں ہیں ، کبھی نہ ختم ہونے والی آسائشیں ہیں۔
چنانچہ بہت سے لوگ اپنی دنیا اورآخرت دونوں بہتر بنانے کی کوشش کے بجائے محض یہ سوچ کر خوش ہیں کہ آج غیر مسلموں کو مزے کرلینے دو۔ ہم تو آخرت کے اَبدی مزے پائیں گے۔
ہم کئی مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن اس عبادت کا اثر ان کی عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ ان کی ذات سے دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ اپنے فائدے کے لئے اطمینان سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔ کوئی ملاوٹ میں مصروف ہے تو کوئی بلیک مارکیٹنگ میں۔ ناجائز کمائی محض انفرادی برائیاں یا گناہ صغیرہ نہیں ہیں۔ وہ تمام معاملات جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔
آج مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کا حال یہ ہوگیا ہے کہ زبانیں تو کثرت سے ذکر میں مصروف ہیں لیکن وہ دوسروں کی شدید حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ محض زبان سے ذکر کرتے رہنے اور معاملات میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ ہم آہنگی ، اتحاد ، تعاون ، خیر و فلاح کے ثمرات سے محروم ہونے لگتا ہے۔ ایسا معاشرہ انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔اس سے عدم تحفظ کا احساس اور بے سکونی پیدا ہوتی ہے۔ معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان تلخیاں اور نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اس سے ملتی جلتی کئی حالتیں ہم اپنے ارد گرد بھی دیکھتے ہیں ۔ کچھ واعظ اس صورتحال کو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات سے انحراف کا لازمی نتیجہ قرار دینے کے بجائے اسے مومن کی آزمائش قرار دے کر آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے ہیں۔ وہ بار بار یہی بتاتے ہیں کہ دنیا غیرمسلموں کے لئے ہے اور آخرت مسلمانوں کے لئے۔ لیکن جمود میں جکڑی ہوئی یہ طرزِ فکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی۔
ایک دن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ دیوالیہ اور مفلس کون ہے؟
لوگوں نے عرض کیا مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم ہو نہ کوئی اور سامان۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اﷲ کے پاس حاضر ہوگا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال مار کر کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا ، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔
روایت میں آتا ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام اپنی امت کے لئے دعا فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس دعا کا جواب ملا کہ ہم نے آپ کی دعا قبول کی آپ کی امت کے گناہ ہم بخش دیں گے۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے دوسروں کے حقوق دبا لئے ہوں گے۔
کچھ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ناجائز طریقوں سے خوب دولت کماتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ صدقہ خیرات بھی خوب کرتے ہیں شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے صدقات ناجائز کمائی کے گناہ کو دھو دیں گے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس میں سے خدا کی راہ میں صدقہ کرے تو یہ صدقہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔
آج اُمتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشروں کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق نہیں چلایا۔ ہم بحیثیتِ مجموعی کسی نہ کسی طرح حق تلفی کے مرتکب ہوتے رہے۔
ہم اگر اپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرزِ فکر کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل کریں۔
ہمیں اپنی زندگی میں ایک بار پھر اﷲ کے محبوب ترین بندہ، خاتم النبیین ، رحمتہ اللعالمین ، انسانِ کامل ، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے یومِ ولادت پر خوشیاں منانے اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کاموقع مل رہا ہے۔
آپ سب کو عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم مبارک ہو۔
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے باعث انسان شرف و احترام کے نئے تصورات سے واقف ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ کی آخری کتاب قرآن کے ذریعہ انسان کو فلاح و کامرانی کے اصول اور طریقے سکھائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے انسان نے اس دنیا میں خود داری اور عزت وسر بلندی کے ساتھ جینا سیکھا اور آخرت میں سرخروئی کے رازوں سے واقف ہوا۔
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلوں میں منتشر اور خانہ جنگیوں میں مبتلا لوگوں کو ایک منظم قوم کی شکل دی۔ آپ کی انقلابی قیادت میں ریاست مدینہ محض دس سالوں کے اندر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کا مرکز بن گئی۔ ایسا انقلاب جو انسان کے مادّی اور روحانی دونوں رخوں پر اثر انداز ہوا، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایا ہوا انقلاب اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات اتنی مؤثر اور ہمہ گیر ہیں کہ ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود اسی طرح قابلِ عمل ہیں ۔ یہ تعلیمات انسان کو درپیش مسائل کا حل فطری اصولوں کے مطابق فراہم کرتی ہیں۔
لیکن آج ۔۔۔۔۔
آج جبکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے وابستہ ہونے والوں کی تعداد سوا ارب سے زائد ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان قوم جگہ جگہ ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔ مسلمان غربت، افلاس ، حقوق سے محرومی ، غیروں کے سیاسی اور اقتصادی تسلط میں مبتلا ہیں۔
قبلہ اول بیت المقدس کے ارد گرد یہودیوں کی بندوقوں سے نکلنے والا آتش و بارود مسلم اجسام کے پرخچے اڑا رہا ہے۔ بیتالمقدس کی گلیوں میں خونِ مسلم روانی سے بہہ رہا ہے۔ بھارت میں مسلم دشمن مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں مسلمان قتل ہورہے ہیں ، کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والی زیادیتوں پر تو پوری انسانیت کو شرم آنی چاہئے۔ اسی طرح دنیا کے کئی دوسرے علاقوں میں مسلم خون کی ارزانی اور بے حرمتی عام ہے۔ لیکن عالمی ضمیر کو تو چھوڑیئے خود مسلم ضمیر یہ سب کچھ دیکھنے اور سہنے کے باوجود خاموش ہے۔ مہر بہ لب ہے۔
یہ تو امت پر غیروں کے ظلم وستم کے محض ایک رُخ کی ہلکی سی جھلک ہے۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سوا ارب سے زائد آبادی والی امت مسلمہ کے پچاس کروڑ سے زائد افراد شدید غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ غریب یا نہایت کم سالانہ قومی آمدنی رکھنے والے نمایاں اسلامی ممالک میں پاکستان ، بنگلہ دیش ، سوڈان ، نائجیریا ، شام اور دیگر ایشیائی و افریقی مسلم ممالک شامل ہیں۔ وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں بھی مسلمانوں کی حالت زیادہ تر تشویشناک ہی ہے۔ خاص طور پر بھارت جہاں پندرہ کروڑ سے زائد مسلمانوں کی اکثریت شدید غربت اور حق تلفی کا شکار ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو نظامِ زندگی عطا فرمایا اس پر عمل کرکے تھوڑے عرصے میں ہی ریاست کے پاس اس قدر وسائل آگئے کہ ریاست غریبوں کی کفیل بن گئی۔ اس نظام پر عمل سے مملکت میں غربت کی شرح میں تیزی سے کمی ہوئی۔ خوشحالی میں اضافہ ہوا اور تاریخ کی گواہی موجود ہے کہ وہ دن آگیا جب خوشحال لوگ زکوٰۃ ادا کرنے نکلتے تھے لیکن انہیں مستحقین زکوٰۃ نہیں ملتے تھے۔
انسانی فطرت سے سب سے زیادہ واقف انسانِ کامل حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک روز دعا فرمائی۔
اے اﷲ میں کفر اور افلاس سے پناہ مانگتا ہوں۔ ایک شخص نے پوچھا ، کیا یہ دونوں برابر ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں دونوں برابر ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی۔ مسلمانو! محتاجی و مفلسی اور ذلت و خواری سے پناہ مانگا کرو ۔
غربت و افلاس بہت ضرر رساں حالتیں ہیں۔ یہ انسان کے ایمان کو بھی متاثر کرسکتی ہیں۔ قرآن اور تعلیمات نبوی پر عمل پیرا افراد اورمعاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے غربت دور کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کریں۔ انہیں ذلت و خواری سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ذرائع پیدا وار کو ترقی دی جائے۔ دولت کے ارتکاز کو ختم کرکے زر کی زیادہ سے زیادہ گردش کا اہتمام کیا جائے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’نیکی کے کاموں میں سب سے اچھا کام اس شخص کا ہے جو بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے ، مفلسوں کا قرض ادا کرتا ہے اور مصیبت زدوں کی تکلیف رفع کرتا ہے‘‘۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پروردگار عالم فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے‘‘۔
ان کاموں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی اور اہلِ خانہ کی ضروریات کی تکمیل کے بعد بھی ایک شخص کے پاس وافر مقدار میں وسائل موجود ہوں۔ان باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ فرامین معاش کے حصول میں کوشش کرنے اور دولت کمانے کی بھرپور ترغیب دیتے ہیں۔
ان وسائل کا حصول کیونکر ہو
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’حلال روزی تلاش کرنا اﷲ کے راستے میں بہادروں کے ساتھ جنگ کرنے کے برابر ہے‘‘۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذرائع پیداوار کی ترقی کے لئے حکم دیا ’’مسلمانو! روئے زمین کے پوشیدہ مقامات میں روزی کی تلاش کیا کرو‘‘۔
لیکن دولت کمانے کی ترغیب اپنے ساتھ کئی پابندیاں بھی لئے ہوئے ہے ۔ یہی وہ پابندیاں ہیں جن سے سرمایہ دار انہ نظام کے حامی اور پروردہ خائف رہتے ہیں۔ یہی وہ پابندیاں ہیں جو دولت کے زیادہ سے زیادہ حصول کے باوجود افراد و معاشرہ کو ظلم و استحصال سے باز اور محفوظ رکھتی ہیں۔
دھوکہ دہی ، رشوت، خیانت، ملاوٹ، جھوٹ ، ظلم کی آمیزش سے ہونے والی کمائی سے منع فرمایا گیا ہے۔ ایسی روزی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
ارشادِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے ’’جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی روزی جائز طریقہ سے حاصل ہوئی ہے یا ناجائز طریقہ سے ، اﷲ اسے دوزخ میں ڈال دے گا‘‘۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر اور افضل کمائی کون سی ہے ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ تجارت جس میں اﷲ کی نافرمانی شامل نہ ہو اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا‘‘۔
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے افلاس سے اﷲ کی پناہ مانگی ہے۔ افلاس ایک ایسی بری حالت ہے جس سے انسان کا ایمان بھی ڈگمگا سکتا ہے۔ معاشرہ میں پھیلے ہوئے کئی جرائم مثلاً چوری ، ڈکیتی ، رہزنی وغیرہ کے اسباب میں غربت اہم ترین ہے۔ غربت انسان کو عزت نفس سے محروم کرسکتی ہے۔
آج امت مسلمہ کا ایک بڑا المیہ یہی ہے کہ ایک چھوٹے سے حصہ میں خوشحالی کے باوجود یہ امت قوموں کی برادری میں اثر و رسوخ اور عزت و مرتبہ سے محروم ہے۔
ہم اپنے معاشرہ میں چاروں طرف برائیاں پھیلی ہوئی دیکھتے ہیں۔ غذائی اشیاء میں ملاوٹ ، کم تولنا ، وعدہ پورا نہ کرنا ، چور بازاری ، رشوت ، دوسروں کے مال و اسباب پر ظلم و طاقت سے ناجائز قبضہ کرلینا ، اپنے ذاتی فائدہ کے لئے جھوٹ بول دینا اور دیگر کئی منفی چیزوں نے ہمارے معاشرہ کو بڑی طرح جکڑ لیا ہے۔ یہ تمام وہ خرابیاں ہیں جن کے ارتکاب پر اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ان میں سے کئی برائیوں کے ارتکاب پر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے شدید سزا کی تنبیہہ بھی فرمائی ہے۔
ہمارے معاشرہ میں عبادات اور مذہبی رسومات بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ واعظین مختلف ذکر و اذکار کی فضیلتیں اور ان کے ثواب کے بارے میں لوگوں کو بہت فصاحت سے بتاتے ہیں ۔ کئی واعظ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس دنیا کی زیب و زینت، آرام و آسائشات میں کفار کو مست رہنے دیا جائے۔ ہمارے لئے تو آخرت کی راحتیں ہیں ہمارے لئے جنت ہے۔ جہاں ہر طرح کا عیش و آرام ہے حوریں ہیں ، کبھی نہ ختم ہونے والی آسائشیں ہیں۔
چنانچہ بہت سے لوگ اپنی دنیا اورآخرت دونوں بہتر بنانے کی کوشش کے بجائے محض یہ سوچ کر خوش ہیں کہ آج غیر مسلموں کو مزے کرلینے دو۔ ہم تو آخرت کے اَبدی مزے پائیں گے۔
ہم کئی مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن اس عبادت کا اثر ان کی عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ ان کی ذات سے دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ اپنے فائدے کے لئے اطمینان سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔ کوئی ملاوٹ میں مصروف ہے تو کوئی بلیک مارکیٹنگ میں۔ ناجائز کمائی محض انفرادی برائیاں یا گناہ صغیرہ نہیں ہیں۔ وہ تمام معاملات جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔
آج مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ کا حال یہ ہوگیا ہے کہ زبانیں تو کثرت سے ذکر میں مصروف ہیں لیکن وہ دوسروں کی شدید حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ محض زبان سے ذکر کرتے رہنے اور معاملات میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ ہم آہنگی ، اتحاد ، تعاون ، خیر و فلاح کے ثمرات سے محروم ہونے لگتا ہے۔ ایسا معاشرہ انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔اس سے عدم تحفظ کا احساس اور بے سکونی پیدا ہوتی ہے۔ معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان تلخیاں اور نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اس سے ملتی جلتی کئی حالتیں ہم اپنے ارد گرد بھی دیکھتے ہیں ۔ کچھ واعظ اس صورتحال کو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات سے انحراف کا لازمی نتیجہ قرار دینے کے بجائے اسے مومن کی آزمائش قرار دے کر آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے ہیں۔ وہ بار بار یہی بتاتے ہیں کہ دنیا غیرمسلموں کے لئے ہے اور آخرت مسلمانوں کے لئے۔ لیکن جمود میں جکڑی ہوئی یہ طرزِ فکر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی۔
ایک دن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ دیوالیہ اور مفلس کون ہے؟
لوگوں نے عرض کیا مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم ہو نہ کوئی اور سامان۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اﷲ کے پاس حاضر ہوگا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال مار کر کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا ، کسی کو ناحق مارا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔
روایت میں آتا ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام اپنی امت کے لئے دعا فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس دعا کا جواب ملا کہ ہم نے آپ کی دعا قبول کی آپ کی امت کے گناہ ہم بخش دیں گے۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے دوسروں کے حقوق دبا لئے ہوں گے۔
کچھ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ناجائز طریقوں سے خوب دولت کماتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ صدقہ خیرات بھی خوب کرتے ہیں شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے صدقات ناجائز کمائی کے گناہ کو دھو دیں گے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس میں سے خدا کی راہ میں صدقہ کرے تو یہ صدقہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا‘‘۔
آج اُمتِ مسلمہ کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشروں کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق نہیں چلایا۔ ہم بحیثیتِ مجموعی کسی نہ کسی طرح حق تلفی کے مرتکب ہوتے رہے۔
ہم اگر اپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرزِ فکر کو صحیح معنوں میں سمجھیں اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل کریں۔