بین الاقوامی روحانی تربیتی ورکشاپ

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



بین الاقوامی روحانی تربیتی ورکشاپ

سلسلۂ عظیمیہ کے زیرِ اہتمام کراچی میں گزشتہ تئیس برسوں سے ہونے والی  ایک علمی و روحانی نشست 

پاکستان کے  علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، یورپ، روس، عرب ممالک، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا،آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے علم کے متلاشی شریک ہوتے ہیں۔ 


 اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام نے علم کے فروغ، مسلمانوں کی تربیت و تعلیم ، اصلاح و ارشاد اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے  سلاسلِ طریقت قائم کیے۔ ان سلاسل کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔  اولیاء کرام نے توحید کی دعوت دی اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات مسلمانوں میں اور غیر مسلموں میں پھیلانے کی کوششیں کیں۔ اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے کئی صوفیاء نے نثر و نظم کی مختلف اصناف کو بھی احسن انداز میں استعمال کیا۔ اولیاء اللہ نے کتب، خطبات اور شاعری کے ذریعے ناصرف عام لوگوں بلکہ عالموں اور خواص کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے واقف اسرار حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ  کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے:
گنج بخش فیض عالم مظہرنورِ خدا
ناقصاں را  پیرِ کامل کاملاں دا رہنما
سلسلۂ عظیمیہ کے سربراہ
خواجہ شمس الدین عظیمی
  شرکاء سے خطاب کررہے ہیں۔ 
اپنی تحریر و تقریر اور کلام سے عوام و خواص کی رہنمائی فرماتے رہنے والی ان ہستیوں میں استاد الائمہ حضرت امام جعفر صادقؒ کی تعلیمات ، امام غزالیؒ کی کیمیائے سعادت ، احیاء العلوم اور دیگر اعلیٰ پائے کی کتب، حضرت داتا گنج بخشؒ کی کشف المحجوبؒ، فرید الدین عطارؒ کی منطق الطیر اور تذکرۃ الاولیائؒ، جلال الدین رومی کی دیوانِ شمس اور مثنوی معنوی، فیھا مافیھا، شاہ ولی اللہ کی الطاف القدس، حجۃ اللہ البالغہ، ہمعات، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی ضیاء القلوب ، مکتوبات امدادیہ ، گلزارِ معرفت اور دیگر عظیم المرتبت عالموں اور صوفیوں کی تحریریں شامل ہیں۔
صدیوں سے جاری سلاسل طریقت کا ایک مسلسل عمل تحصیلِ علم اور ترسیلِ علم ہے۔ ان سلاسل میں سلسلۂ چشتیہ، جنیدیہ، شازلیہ، رفاعیہ، قادریہ، سہروردیہ، فردوسیہ اور نقشبندیہ زیادہ معروف ہیں۔ موجودہ دور میں مصروفِ عمل سلاسل طریقت میں ایک سلسلۂ عظیمیہ بھی ہے۔ سلسلۂ عظیمیہ حضرت محمد عظیم برخیائؒ المعروف قلندر بابا اولیائؒ نے 1960ء میں قائم فرمایا۔
روحانی تربیتی ورکشاپ کے مختلف اجتماعات سے
جناب سلمان بشیر، ڈپلومیٹ نعیم خان،
ڈاکٹر اسلم پرویز،  ڈاکٹر ظفر اقبال،
ڈاکٹر عبدالرشید، ڈاکٹرمحمدظفر اللہ،
بریگیڈئیر (ر) شیرشاہ، ڈاکٹر راشد متین اور
ورکشاپ کمیٹی کے انچارج محمد عارف خطاب کررہے ہیں۔
علم کے فروغ اور عوام و خواص کو قدرت کے رازوں سے آگہی فراہم کرنے، انسان کی اصل یعنی روح سے واقفیت ،اللہ کی صفات اور عرفانِ الٰہی کی راہوں کے اسرار و رموز سمجھانے کے لیے سلسلۂ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیائؒ نے ایک کتاب لوح و قلم تحریر کی۔ اپنے خیالات و افکار کے اظہار کے لیے حضرت نے شاعری بھی فرمائی۔ آپ نے انسان کی حقیقت، مٹی اور انسان، وقت کے اسرار اور دیگر موضوعات پر رباعی کی مشکل صنف میں کئی حقائق کو منکشف کیا۔
حضرت محمد عظیم برخیائؒ  کا وصال 27جنوری 1979مطابق 27صفر 1399ھ کو کراچی میں ہوا۔ حضرت کے وصال کے بعد سلسلۂ عظیمیہ کی ذمہ داریاں آپ کے شاگرد رشید خواجہ شمس الدین عظیمیؒ نے سنبھالیں۔ آپ نے شبانہ روز ان تھک جدوجہد کرکے روحانی علوم کی تحصیل کے ذریعے انسانی فلاح کا پیغام پاکستان اور دنیا بھر میں عام کیا۔ سلسلۂ عظیمیہ کے مراکز پاکستان کے کئی شہروں کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہیں۔
سلسلۂ عظیمیہ ایک علمی اور روحانی سلسلہ ہے۔ سلاسل میں ہونے والے کئی روایتی پروگراموں کو بھی اس سلسلۂ طریقت میں علمی و تربیتی رنگ دیا گیا۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مرشد کے یومِ وصال کی مناسبت سے جنوری کے مہینے میں خصوصی علمی و روحانی تقاریب کا اہتمام کیا۔ کراچی میں ہر سال 26جنوری کو ایک بین الاقوامی روحانی تربیتی نشست کا آغاز کیا۔ یہ نشست گزشتہ تئیس سال سے کراچی میں باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہورہی ہے، اس علمی مجلس میں پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ امریکہ ، کینیڈا، برطانیہ، یورپ ، روس، عرب ممالک، تھائی لینڈ ، ملائیشیا، انڈونیشیا ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے مندوبین شریک ہوتے ہیں۔
27جنوری کو قلندر بابا اولیائؒ کے یومِ وصال پرایک بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے۔
محمد حسین سید،  ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
اور کامران باسط حاضرین سے مخاطب ہیں
صوفی بزرگ خواجہ شمس الدین عظیمی  تصوف اور روحانیت کا پیغام عام کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرمسلسل غوروفکر، قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ اور مطالب پر غور کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ آپ باطنی صلاحیتوں کو جلاء بخشنے کے لیے مراقبہ سے مدد لینے، انسانوں کے درمیان بہتر تعلقات اور خوشگوار ماحول کے قیام کے لیے احترام ، رواداری، عفوودرگزر جیسے مثبت جذبات سے کام لینے پر زور دیتے ہیں۔
روحانی تربیتی ورکشاپ کے مختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ شمس الدین عظیمی نے فرمایا  پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو حصول علم کی تاکید فرمائی ہے ۔ حصول علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ علم ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی۔  انسانی وجود جسم اور روح پر مشتمل ہے۔ انسان کے لیے مادی علم یعنی نیچرل سائنس کے مختلف شعبوں میں علوم کی تحصیل بھی ضروری ہے اور روحانی علوم کی تفہیم بھی ضروری ہے۔ اس دنیا میں ایک اچھی زندگی بسر کرنے اور اگلی دنیا کے لیے بہتر تیاری کے لیے لازمی ہے کہ انسان کی عقل اور عقل کے ذریعہ حاصل ہونے والے علوم کے حاصلات وحی کے ذریعے ملنے والی ہدایات کے تابع ہوں۔ عقل وحی کے تابع ہوگی تو انسانی علم خیر و فلاح کا ذریعہ بنے گا۔ عقل الہامی ہدایات کے تابع نہ ہو تو انسانی ذہن شر اور تخریب کا مرکز بن سکتا ہے۔
اولیاء اللہ اور صوفیا کرام نے انسانوں کو علم نافع کے حصول کی ترغیب دی ہے۔ ہر وہ علم جس سے انسان پر قدرت کے راز کھلیں ، اللہ کی وحدانیت ، اللہ کی صفتِ خالقیت اور قدرت پر  اور اللہ کے حضور جوابدہی پر انسان کا ایمان پختہ تر ہوتا چلا جائے علمِ نافع ہے۔ جس علم کی وجہ سے انسان کی طرزِ فکر میں خیر کے بجائے شر کا غلبہ ہو وہ تخریب ، انتشار جیسے منفی جذبوں کا حامل اور منفی جذبوں کا ترجمان بن جائے وہ دراصل علمِ غیر نافع ہے۔
روحانی تربیتی نشست کے شرکاء مختلف گروپس میں تبادلۂ خیال میں مصروف ہیں۔ 

سلاسلِ طریقت نے انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف ، خیر کی طرف  اور انسان سمیت اللہ کی ہر مخلوق کے لیے فلاح کا ذریعہ بننے کی طرف بلایا ہے۔ تصوف کی تعلیمات انسانی معاشروں کو امن و استحکام اور لوگوں کو سکون و اطمینان عطا کرتی ہیں۔


اس علمی نشست میں شریک ہونے والوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلائ، بیوروکریٹس، اساتذہ، صحافی، تاجر، بینکرز،  خواتینِ خانہ، نوجوان طلباء و طالبات اور بچے بھی شامل ہیں۔ 

تعلیمی پروفائل: شرکاء میں پی ایچ ڈی، ایم فل، ماسٹرز، گریجویٹ کی تعداد ساٹھ فیصد سے زائد رہی ہے۔ 


اولیاء اللہ نے انسانوں کو توحید کی دعوت دی ، ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی ساتھ ہی انسانوں کو دوسرے سب انسانوں کے احترام کا درس بھی دیا۔ ایک ولی اللہ کا ذہن ہر قسم کے تعصبات سے محفوظ ہوتا ہے۔ صوفی کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُس کا دل  ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک ہو۔ اولیاء اللہ کا پیغام یہ ہے کہ دل اللہ کا گھر ہے، دل کو ہر قسم کی آلائشوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہونا چاہیے۔اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ حصولِ معاش کے لیے پوری پوری کوششیں کی جائیں لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ پر توکل کرنا بندۂ مومن کی ایک بہت اچھی صفت ہے اور  اپنے کاموں میں قدرت کی مدد پانے کا ذریعہ ہے۔
شرکائے ورکشاپ
ورکشاپ کے آرگنائزر ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے مختلف خطبات میں کہا کہ جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ اپنے دل میں کسی کے خلاف بغض اور نفرت نہیں رکھتے وہ نسل یا زبان کی بنیاد پر کسی کو بہتر یا کسی کو کمتر نہیں سمجھتے۔اولیاء اللہ اور اُن کے تربیت یافتہ افراد کے دلوں میں انتہا پسندی اور شدت پسندی نہیں ہوتی۔ ایک ولی اللہ کے ذہن اور قلب کی سب سے زیادہ طلب اللہ کی قربت ہوتی ہے۔ ولی اللہ کی صحبت میں بیٹھنے والوں میں بھی یہ جذبات بیدار ہونے لگتے ہیں۔ سلسلۂ عظیمیہ کے زیرِ اہتمام ہونے والی علمی نشستوں کا بنیادی مقصد بھی اس سلسلہ کے بزرگ یہ بتاتے ہیں کہ خیر پر مبنی جذبات اور مثبت طرزِفکر بیدار کرنے میں لوگوں کی مدد کی جائے اور منفی سوچ اور وسوسوں پر قابو پانے میں لوگوں کی مدد کی جائے۔
27جنوری کو  ہونے والے ایک اجتماع کے آخر میں شرکاء ہدیۂ صلوٰہ و سلام پیش کررہے ہیں۔ 
سائنسی ترقی نے لوگوں کو سہولتیں تو بہت دے دی ہیں لیکن ساتھ ہی آج لوگوں کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا بھی ہے ۔سائنسی ترقی کے اس دور میں انسان فطرت سے متصادم زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی بیماریاں مثلاً امراضِ قلب، ڈپریشن، ذیابیطس، السر، کم خوابی اورکئی نفسیاتی امراض دنیا کے ہر خطے میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔ صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ مشرق کے کئی ممالک میں بھی خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ خاندانی نظام کا سہارا نہ ہونے اور معاشی دباؤ کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد طرح طرح کے خوف میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے کہا کہ دنیا بھر میں لوگ سکون کے متلاشی ہیں۔ تصوف کی تعلیمات انسان کو سکون کی راہوں سے روشناس کراتی ہیں۔اگر انسان اپنے خالق اور مالک اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ ذہنی ، قلبی اور روحانی تعلق قائم کرلے، انسان اللہ پر توکل کرنا سیکھ لے ،اپنے اندر مثبت سوچ اور خیر پر مبنی جذبات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرے اور منفی جذبوں کو خود پر غالب نہ آنے دے تو سائنسی ترقی اور  لاتعداد سہولتوں کے اس دور میں بھی انسان پرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔سلسلۂ عظیمیہ کے زیرِ اہتمام روحانی تربیتی نشستوں میں دنیا بھر سے آنے والے شرکاء کو یہی پیغام اور یہی نکات ذہن نشین کرانے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ انسان کائناتِ صغیر ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں
بیرون زتو نیست ہرچہ در عالم ہست
درخود بہ طلب ہر آنچہ خواہی کہ تو ئی
ترجمہ: یہ کائنات باہر نہیں ہے اس کائنات میں جو کچھ ہے تمہارے اندر بھی موجود ہے۔ اپنے اندر دیکھو وہ سب کچھ جو تم چاہتے ہو، پہلے سے ہی  تمہارے اندر موجود ہے۔
حقیقی خوشی اور ذہنی سکون کا منبع درحقیقت انسان کے باطن میں موجود ہے۔ اولیاء اللہ بتاتے ہیں کہ اللہ سے تعلق قائم کرکے ،اللہ پر توکل کرکے حقیقی خوشی کے اس سرچشمے تک رسائی مل سکتی ہے۔ اپنے باطن میں سفر اور باطنی اسرارکو سمجھنے کا ایک بڑا ذریعہ مراقبہ بھی ہے۔ مراقبے کے ذریعے ناصرف جسمانی صحت بہتر بنائی جاسکتی ہے، ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے بلکہ قلبی اطمینان پایا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر مراقبے کا حاصل روحانی صلاحیتوں کی بیداری ہے۔
سلسلۂ عظیمیہ کے زیرِ اہتمام روحانی تربیتی پروگراموں کا مقصد یہ ہے کہ اراکینِ سلسلہ اور دلچسپی رکھنے والے دیگر مردو خواتین کو مندرجہ بالا نکات سے ناصرف آگہی فراہم کی جائے بلکہ ان راہوں پر چلنے میں خواہش مندوں کی مدد اور تربیت بھی کی جائے۔
روحانی تربیتی ورکشاپ میں بیرونِ ممالک سے آنے والے مندوبین  نے اجتماعات کے اعلیٰ انتظامات کی تعریف کی اور اہلِ پاکستان کی مہمان نوازی  اور اخلاص کا بطورِ خاص ذکر کیا۔ زائرین نے کراچی کے لوگوں کی محبت اور اپنائیت کا ذکر کرتے ہوئے باربار کراچی آنے کی خواہش ظاہر کی۔


گزشتہ چند برسوں میں کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث بیرونِ کراچی یا بیرونِ پاکستان رہنے والے کئی لوگ کراچی آنے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن اس روحانی نشست کے شرکاء  باقاعدگی کے ساتھ کراچی آتے رہے۔ 




[  از : روزنامہ ایکسپریس، 26 جنوری 2017ء صفحہ 15]

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے