A WRITER EXCELENCE |
مسعود احمد برکاتی
بچوں کے ادب کا بڑا نام
بیسوی اوراکیسوی صدی میں اردو زبان میں بچوں کے ادب کے حوالے سے ان کانام ہمیشہ جگمگاتارہے گا۔
ادیب ،صحافی ،ایڈیٹر ، بے شمار لکھنے والوں کے لیے معلم، ایک نہایت مخلص اورفیض رساںشخصیت ، مسعود احمد برکاتی برصغیر کے ایک معروف دینی ،علمی اوربہت خوش حال گھرانے میں 15،اگست 1933 کو پیداہوئے۔آپ کی پیدائش راجھستان کی ایک مسلم ریاست ٹونک میں ہوئی۔ ٹونک ایک نہایت مردم خیز ریاست تھی۔اس ریاست میں کئی علماء،ادبا، شعرا اوردیگر اہل فنون نے جنم لیا۔
آپ کے دادا حضرت حکیم برکات احمد رحمۃ اﷲ علیہ ایک جید عالم دین تھے۔سید مناظر احسن گیلانی اور مولوی معین الدین اجمیر ی حضرت برکات احمد کے شاگردوں میں شامل تھے ۔
حضرت برکات احمد کے گھرانے میں علوم وفنون کے کئی چراغ روشن تھے۔ اس علمی ماحول میں مسعود احمد برکاتی نے عربی ، فارسی ،اردو اورانگریزی زبان کی تعلیم کے علاوہ طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔آپ نے روسی زبان بھی سیکھی ہے۔
کہتے ہیں پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔مسعود احمد برکاتی کی عمر ابھی محض چودہ برس تھی جب انہوں نے اپنے علم المرتبت دادا حضرت برکات احمد کے نام پر ‘‘ البرکات ’’کے نام سے ایک رسالے کا اجراء کیا۔
قلمی کتابت کے ذریعہ پانچ روپے کے خرچ سے ہر ماہ اس رسالے کی صرف ایک کاپی تیارکروائی جاتی ۔قیام پاکستان سے پہلے برصغیر میں گھر پراخبارات منگوانے کا رجحان بہت کم تھا ۔لوگ زیادہ تر پبلک لائبریری میں جاکر اخبارات ،رسائل اورکتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ان دنوں آ پ کی آبائی ریاست ٹونک میں دوبڑی پبلک لائبریریز تھیں۔آ پ البرکات پہلے پندرہ دن ایک پبلک لائبریری میں اورباقی پندرہ دن دوسری لائبریری میں رکھواتے تھے۔ٹونک کی پبلک لائبریری میں رکھے جانے کی وجہ سے البرکات کوبڑی تعداد میں لوگوں نے پڑھا اور پسند کیا۔
16سال کی عمر میں مسعود احمد برکاتی نے ‘‘ انجمن ترقی اردو ’’کے رسالے معاشیات میں مضامین لکھناشروع کئے۔اس سلسلہ مضامین پربابائے اردو مولوی عبد الحق نے بھی پسندیدگی کا اظہار کیاتھا۔
1948ء میں مسعود احمد برکاتی اپنے بڑے بھائی اختربرکاتی کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اورحیدرآباد میں قیام کیا۔ پاکستان کے معروف طبیب اور اسکالر حکیم محمود احمد برکاتی بھی آپ کے بڑے بھائی تھے۔
مسعود احمد برکاتی نے امارت اورغربت کی دونوں انتہاؤں کو دیکھا ہے۔پاکستان آنے کے بعد کچھ عرصہ تو آرام سے گزر بسر ہوتی رہی پھر مالی مسائل نے سر اٹھایا۔اب ان کی زندگی کا عسرت انگیز دورشروع ہوا۔ حیدرآباد میں رہائش کے دوران گزر اوقات کے لیے آپ نے چھ روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا ۔چند ماہ بعد آپ کراچی آگئے اوریہاں بھی کچھ عرصہ بے سروسامانی کے عالم گزارا۔
کراچی میں ایک دوست کی معرفت آپ کی ملاقات ہمدرد وقف کے بانی حکیم محمد سعید سے ہوئی۔ حکیم سعید نے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی۔ اس طرح مسعود احمد برکاتی 1952ء میں ادارہ ہمدرد سے وابستہ ہوگئے۔ یہ وابستگی تاحال برقرار ہے۔ حکیم محمد سعید نے مسعود احمد برکاتی کو ہمدرد وقف کے ٹرسٹیز میں بھی شامل کیا۔
1953 میں بچوں کے رسالے نونہال کے اجراء پر اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ تب سے آج تک یعنی گزشتہ 61 سال سے اس ذمہ داری کو نہایت احسن طریقے سے نبھارہے ہیں۔ اس زمانے میں کراچی میں کچھ نوجوان’’ نونہال پاکستان ‘‘ کے نام سے بھی ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے۔ہمدردوقف کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالے نونہال کا نام بعد میں ’’ہمدرد نونہال‘‘ کردیا گیا۔پاکستان میں اردو زبان کا تقریباً ہر ادیب یا کہانی نویس اورمعاشرے کے اکثر تعلیم یافتہ افراد جن کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے اپنے پچپن میں مسعود احمد برکاتی کے زیر ادارت شائع ہونے والے‘‘ نونہال ’’کے قاری رہے ہیں۔
اردو زبان میں بچوں کے لیے دلچسپ اورمعیاری ادب کی تخلیق پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ بڑے ادیب وقلم کار بچوں کے لیے لکھنے پر عموماً راغب نہیں ہوتے۔قوم کے مستقبل کی تربیت اورکردار سازی کے اہم ترین فریضے سے عمومی بے اعتنائی کے ماحول میں مسعود احمدبرکاتی نے کئی ممتاز اہل قلم کو بچوں کے لیے لکھنے پرآمادہ کیا۔ آب نے بچوں کے لیے خود بھی لکھا اوریہ کام آج بھی جاری ہے۔
بچوں کے لیے میعاری تحریریں فراہم کرنے کے ساتھ آپ نے تحریرکے شعبے میں باصلاحیت بچوں اورنوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی جاری رکھی۔ کئی مسلمہ ادیبوں کی جانب سے ان کو ششوں کی زیادہ پذیرائی نہ ہونے کے باوجودمسعود احمد برکاتی نے مایوس ہوئے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔
مسعود احمد برکاتی کی علمی اورادبی خدمات کا دائرہ بچوں کے ادب تک محدود نہیں ہے ۔آپ پاکستان کے ممتاز طبی جریدے ’’ہمدردصحت ‘‘ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض نہایت تندہی سے سرانجام دے رہے ہیں۔
آپ اقوام متحدہ کے ادارے UNESCOکے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسالےCourierکے اردو ایڈیشن ‘‘پیامی’’ کے شریک مدیر بھی رہے ہیں۔کوریئر کی مجلس ادارت کی،مٹینگ منعقدہ پیرس میں بھی شریک ہوئے۔
بعض رسائل کی مجلسِ ادارت میں بھی شامل رہے۔
مسعود احمد برکاتی نے پاکستان میں اور کئی بیرون ممالک میں مختلف علمی کانفرنس اور سیمنارز وغیرہ میں شرکت کی اور مقالات پیش کئے۔ بعض بین الاقوامی مجالس کی صدارت بھی کی ۔ کئی اخبارات و رسائل میں مسعود احمد برکاتی کی مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی تحریروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ، مؤلف یا مترجم بھی ہیں۔
مسعود احمد برکاتی کوان کی قابل قدراورمسلسل خدمات کے اعتراف میں آل پاکستان نیوز سوسائٹی کی جرائد کمیٹی نے مارچ ، 1996 میں نشان ِسپاس اور اے پی این ایس کی جانب سے 2012میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈپیش کیاگیا۔
مسعود احمدبرکاتی کی عمر اس وقت اسی سال سے زاید ہے۔وہ کئی امراض میں بھی مبتلاہیں لیکن ان کا عزم اور ارادہ اور قوت عمل آج بھی جوانوں کی طرح ہے۔ پیرانہ سالی یابیماری ان کی خوش مزاجی اور ملنساری کو متاثر نہیں کرسکی۔تخلیقی سوچ کے حامل ،متحرک وفعال مسعود احمد برکاتی آج بھی روزانہ باقاعدگی سے اپنے دفترآتے ہیں اور انتظامی و ادارتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ تنصیف وتالیف میں بھی مشغول رہتے ہیں۔
مسعوداحمدبرکاتی کے قلم سے تصانیف ،تالیفات وتراجم
-
|