جائیداد بچانے کے لیے بیٹی کے حق سے انکار
وسائل کی حفاظت یا اپنے وسائل میں اضافے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا انسان کو ظالم اور گناہ گار بنا دیتا ہے
سوال:
ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ زمین جائیداد کافی ہے۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔ ابھی میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی کہ میرے لئے بھی رشتے آنے لگے۔ میری والدہ کے خیال میں ان میں سے بعض رشتے تو بہت اچھے تھے لیکن میرے والد صاحب ہر رشتہ میں کوئی نہ کوئی نقص نکال کر انہیںرد کرتے رہے۔ایک روز میرے والد صاحب نے سب گھر والوں کو جمع کیا اور وہاں مجھ سے کہا گیا کہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر تم اپنا حق بخش دو۔ بیٹیاں تو والدین کی تابعدار ہی ہوتی ہیں۔ وہ والدین کے آگے اپنی مرضی کب چلاتی ہیں۔ میں بھی ایک فرمانبردار بیٹی ہوں لیکن اس کے باوجود میرے والد مجھ سے قرآن پر اقرار لینا چاہ رہے تھے۔ میں رونے لگی اور میں نے کہہ دیا کہ میں ایسا نہیں کرسکتی۔
اب میرے والد صاحب نے اپنی پگڑی میرے پیروں میں ڈال دی۔ میں نے ان کی عزت کی لاج رکھتے ہوئے ان کی بات مان لی اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر اقرار کرلیا کہ میں اپنا حق بخشتی ہوں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
میری نیت اور کفارہ کی ادائی کا علم والد صاحب کو ہوگیا ہے۔ اب انہوں نے میری شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ میری عمر اس وقت 25سال ہے اور میں میٹرک تک پڑھی ہوئی ہوں۔ چچا کا بیٹا ابھی بارہ سال کا ہے۔ اس نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ میں کسی قیمت پر اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔
اس سارے معاملہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ میرے والد اور چچا کی خواہش ہے کہ کچھ بھی ہوجائے جائیدادتقسیم نہ ہو۔
جواب:
جائیداد تقسیم نہ ہو جائے خواہ اس کام کے لیے بیٹی یا بہن کے جذبے، احساسات کچلے جائیں، اس کے فطری تقاضے رد کردیے جائیں اور اسے اس کے شرعی اور قانونی حقوق سے محروم کردیا جائے۔توبہ.... یہ کتنی بری سوچ ہے۔
اس گھٹیا سوچ کی بنیادوں میں حرص و ہوس کے منفی جذبے بنیادی’’خام مال‘‘ کا کام کرتے ہیں، اس خام مال میں ’’بےعملی‘‘ اور ’’کم ہمتی‘‘ کا مواد شامل کرکے اسے مزید گھٹیا بنایا جاتا ہے۔ آخر میں اس پر لالچی باپ یا بھائیوں کی انا کو بطور ’’روغن ‘‘(Paint) لگا کر اسے مظلوم و محروم عورت کی تحسین (درحقیقت تحقیر) کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض علاقوں میں خاندان کی زنانہ حق داروں کو جائیداد سے محروم رکھنے اور مرد حق داروں کے حصوں میں اضافے کے لیے قرآن سے شادی سمیت کئی روایات سراسر غیر اسلامی اور غیرانسانی ہیں۔
یہ عمل دراصل غلامی کی ایک شکل ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ عورت کو یہ غلامی کا طوق اس کے اپنے والد یا بھائیوں کے ہاتھوں ہی پہنایا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کتنی ہی معصوم اور کم زور عورتیں اپنے باپ یا بھائیوں کے منفی انداز فکر کی وجہ سے اپنے باپ کے گھر میں مظالم سہہ رہی ہوں گی۔
رزق میں وسعت اور کمی اللہ کے نظام کا حصہ ہے۔ اپنے پاس موجود وسائل کی حفاظت یا اپنے وسائل میں اضافے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا انسان کو ظالم اور گناہ گار بنا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ظلم کرنے یا ظلم سہنے سے محفوظ رکھے۔ آمین
رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ سورہ مریم(10) کی آیات 39۔40
بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِهٖ وَلَمَّا يَاْتِـهِـمْ تَاْوِيْلُـه ۚ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِيْنَ O وَمِنْـهُـمْ مَّن يُؤْمِنُ بِهٖ وَمِنْـهُـمْ مَّن لَّا يُؤْمِنُ بِهٖ ۚ وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِيْنَO
لَآ اِكْـرَاهَ فِى الدِّيْنِ ۖ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْـفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَـهَا ۗ وَاللّـٰهُ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ O
یہ عمل کم از کم چالیس یا نوے روز تک جاری رکھیے۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔