انسان اس زمین کی مخلوق نہیں ہے
سائنسدان اب مان رہئے ہیں کہ انسان کہیں اور سے اس زمین پر آیا ہے۔
سب سے پہلا انسان کیسے وجود میں آیا ؟
انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا؟
یہ سوال بہت اہم ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم یہ نہیں سمجھ سکیں گے کہ ہماری اصل، ہماری بنیاد اور ہمارا تشخص کیا ہے، ہمیں اپنی زندگی کیسے گزارنی چاہئے اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ اس سوال پر صدیوں سے کام ہو رہا ہے۔
درحقیقت انسانی تخلیق کے حوالے سے مادی علومم سے وابستہ فلسفی ، محقق اور سائنسدان انسان کی درست رہنمائی کرہی نہیں سکے۔ انسان کی ابتداء سے متعلق چند عقائد، نظریات اور مفروضات تشکیل پاگئے۔ یہ نظریات دنیا کے مفکرین کو دو گروہوں میں تقسیم کر تے ہیں۔ تخلیق کے قائل یعنی Creationist اور نظریہ اِرتقا کے قائل یعنی Evolutionist ....
نظریہ ارتقاء کے حامیوں کا کہنا ہے انسان کی تخلیق یک دم نہیں ہوئی بلکہ حیوانی سطح سے ارتقاء ہوا ہے جس پر ماحول کے اثرات ہیں۔ اربوں سال پہلے پانی میں غیر متوازن ماحول میں یک خلوی جرثومے سے حیات شروع ہوئی۔ نمود کی فطری خواہش کی وجہ سے وہ ترقی کرتی رہی۔ وہیں سے ایک نسل ایمفیبین (Amphibian)خشکی پر آگئی۔ جن حیوانات کو درختوں پر چڑھنے کا شوق ہوا وہ بالا آخر اڑنے والے جانور بن گئے۔ان میں سے کچھ خشکی پر خوراک و بقا کی تلاش میں مختلف اشکال میں بٹ کر ممالیہ گئے۔ جن میں سے کچھ ہاتھی، گھوڑے بندر بن گئے۔
بقاء کی یہ جنگ کروڑوں سالوں جاری رہی، جس کے نتیجے میں کمزور ناپید ہوتے گئے اور طاقتور بقاء کے لئے موزوں ثابت ہوئے۔
نظریہ ارتقاء کے ماننے والوں کے لیے فطری انتخاب کے ذریعے ایک سے دوسری انواع وجود میں آتی رہیں اور ایک وقت آیا کہ بندروں سے ترقی کر کے ایک نسل کی وجود میں آگئی ۔
نظریہ تخلیق (Creationist) کے حامیوں کا ماننا ہے کہ انسان کو مکمل صورت میں تخلیق کیا گیا اور پھر اسے زمین پر بھیجا گیا۔ انسان کسی ارتقا کانتیجہ نہیں،بلکہ اس کی تخلیق ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ اس کا ظہور دوسری انواع کے ارتقا کے نتیجے میں ہوا، نہ اس کی خصوصیات ارتقائی مراحل کانتیجہ ہیں اور نہ ہی وہ خود فطری انتخاب کا نتیجہ ہے، بلکہ انسان ہر نوع ہر مخلوق سے منفرد تخلیق ہے۔
اگرچہ گزشتہ ڈیڑھ دوسو سال سے نظریہ ارتقاء Theory of Evolution کو ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں ، لیکن ابھی تک سائنسدانوں کے پاس ارتقا کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں۔ کئی سائنسدانوں کو نظریہ ارتقاء کی صحت اور اس کی سچائی پرشک ہے۔ وہ بہت سے سائنسدانوں نے اس نطریے کو ماننے سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا اور ہے کہ زمین پر انسان ارتقا پذیر نہیں ہوا بلکہ اپنی خاص حالت میں تخلیق کیا گیا۔ نظریہ ارتقاء نے اس حوالے میں جو نظریات پیش کیے ہیں ان کی بنیادیں کھوکھلی اور کمزور ہیں۔وہ کسی صحیح سائنسی بنیادپرقائم نہیں۔ کڑے تنقیدی جائزوں کے بعد ان کی بے مائیگی واضح ہوچکی ہے۔
زندگی یا یوں کہیے کہ انسان کی پیدائش پر دونوں نظریات کے حامیوں میں گزشتہ دوصدیوں سے بہت بحث و مباحثہ ہو رہا ہے۔ سائنسی حلقے اس بات کو گوارہ نہیں کر تے ہیں کہ اسکولوں میں تخلیق کا نظریہ پڑھایا جائے، جبکہ ایک طبقہ نظریہ ارتقا کی تعلیم کی مخالفت کر تا ہے! موجودہ دور میں کئی سائنسدان انسان کی تخلیق کا یہ معاملہ سُلجھانے میں مسلسل مصروف ہیں کہ آیا انسان کا وجود زمین پر ارتقاء کا نتیجہ ہے یا نہیں ....؟
ا س ضمن میں چند برس پہلے ہی ایک سائنسدان نے اپنی کتاب میں ایک تہلکہ خیز دعوی کیا ہے۔
<!....AD>
<!....AD>
یہ سائنسدان، محقق، مصنف ، امریکہ کے نامور ماہرِ ماحولیات Environmentalist اور ایکولوجسٹ Ecologistڈاکٹر ایلیس سِلور Ellis Silverہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کرۂ ارض یعنی زمین انسان کا آبائی سیارہ نہیں ہے، انسان اس سیارے یعنی زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ انسان اس زمین کے لیے ایلین یا مسافر ہے ۔ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ اسے کہیں اور تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے انسان اپنے اصل مسکن سے اس زمین پر آگیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ الفاظ کسی مذہبی عالم کے نہیں بلکہ ایک سائنس دان کے ہیں ۔ ڈاکٹر ایلس سلور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ماحولیات کے ماہر ہیں۔
اپنی کتاب Humans are not from earth میں ڈاکٹر ایلس سلور نے لکھا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔ انسان میں ایسی بہت سی خاصیتیں ہیں جو زمین کے ماحول کے مخالف ہیں اور یہ صفات زمین پر موجود دیگر جانوروں میں نہیں پائی جاتیں۔
ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کی کمزوری اور کمر کے نقائص ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کسی کم کشش ثقل یا گریویٹی والی جگہ پر پیدا ہوا لیکن زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ زمین کے درجہ حرارت، موسم، سورج کی شعاعیں ، کشش ثقل اور بے شمار عوامل ایسے ہیں جو کہ انسانی زندگی کے لیے اس سیارہ زمین پہ پائے جانے والے دوسرے جانداروں کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں۔ اس ضمن میں انہوں پچاس سے زیادہ سائنسی دلائل پیش کیے ۔ جن میں سے چند ہم یہاں بیان کررہےہیں۔
سورج سے الرجی
ڈاکٹر ایلس سلور کی تحقیق کے مطابق انسان کی جلد ایک خاص موسم کے لئے مناسب بنائی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان کو سورج سے الرجی اور سن برن کی شکایات رہتی ہیں۔ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے۔ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ہے مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجود کئی جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔
انسان واحد زمینی مخلوق ہے جس میں سورج کی شعاعوں اور الٹرا وائلٹ ریز سے حفاظت کا نظام موجود۔ نہ ہی اس مقصد کے لیے اس کے جسم میں پائی جانے والی چکنائی یا فیٹ کی تہہ موٹی ہے۔
سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم یا Sun burns ظاہر کرتے ہیں کہ انسان زمین پر تخلیق نہیں ہوا۔ انسان جہاں تخلیق ہوا وہاں زمین جیسا ماحول نہیں تھا، یعنی انسان ایسے ماحول کے لئے بنا ہے جہاں سورج کی مہلک الٹرا وائلٹ شعائیں نہیں پائی جاتیں یا ابر آلود موسم رہتا ہے۔
کشش ثقل
آخر انسان کو کمر درد کی شکایات کیوں رہتی ہے....؟، یہ بات تو معمولی سی لگتی ہے لیکن ڈاکٹر ایلس سلور کے مطابق انسانوں میں کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ایک انسان کا بچہ جو نیا نیا پیدا ہوتا ہے وہ اس کشش ثقل کی وجہ سے روتا چیختا چلاتا ہے جو اس کے جسم میں درد کا احساس پیدا کرتی ہے۔
اس سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس مسکن سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین زمین کی نسبت بہت کم ہوگی، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھانا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسان اس زمین پہ آنے کے بعد زیادہ گریوٹی کی وجہ سے اس درد میں مبتلا ہوا ۔
انسان کی کمر کی کمزوری اور نقائص ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کسی کم گریویٹی والی جگہ پر تخلیق ہوا ہے۔
موسم
ایلس کا کہنا ہے کہ انسان جس ماحول میں تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رہتا رہا ہے وہ جگہ آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی، انسان کی طبیعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے موسم کی سختی کی عادت نہیں تھی۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رہتا تھا اور وہاں پر موسم کی وہ سختیاں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باہر اور تکلیف دہ ہوں۔ انسان جس مسکن کی تخلیق ہے اس سیارے کا محوری جھکاؤ زیرو تھا اس لیے اس سیارے پر موسم ہمیشہ ایک رہتا۔ وہاں کوئ برفانی یا گلیشیل دور نہیں آیا۔اس مقام کا موسم معتدل تھا۔یہی وجہ ہے کہ انسان زمین پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اسے زمینی موسم میں اپنے وجود کو قائم (Survive)رکھنے کے لیے دیگر حیوانات کے برعکس لباس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
<!....AD>
<!....AD>
زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان میں ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمارہونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار اور SAD یعنی Seasonal Affective Disorder موسمی ڈپریشن کا مسئلہ انسانوں میں پایا جاتا ہے ۔
حفاظت کا سسٹم
جنگلی حیوانات وہ چیزیں دیکھ لیتے ہیں جو انسان نہیں دیکھ سکتے، جانداروں میں قدرتی آفات یعنی زلزلہ، سونامی ،طوفان وغیرہ کو بھانپ لینے کی صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن حیرت انگیز طورپر اس زمین پر انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔دوسری جانب خوراک کی تلاش اور خطروں سے حفاظت کے لیے بھی تقریباً ہر جاندار میں قدرتی طور پر صلاحیتیں موجود ہیں ۔ شکاری جانور سانپ، بلی عقاب اور شارک وغیرہ ایسے جانوروں کی مثالیں ہیں جو تاریکی میں دیکھ لیتے ہیں ، دوسرے جانوروں کے جسم سے نکلنے والی حرارت اور روشنیوں کومحسوس کرلیتے ہیں۔ کئی عام جانور اور حشرات الٹرا وائلٹ اور انفرا ریڈ شعاعوں کو دیکھ لیتے ہیں اور بہت دور سے ہی خطرات محسوس کرلیتے ہیں۔ ڈولفن اور چمگادڑ ریڈیو لہروں اور آواز کی بازگشت کو محسوس کرلیتی ہیں۔ انسان اس زمین پر واحد مخلوق ہے جس میں قدرتی طور پر ایسا کوئی نظام موجود نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انسان ایسے مسکن اور ماحول کا رہائشی رہا ہو جہاں قدرتی آفات اور کسی قسم کے خطرات کا وجود ہی نہ ہو۔
میگنیٹک فیلڈ
یہ کرۂ زمین ایک مقناطیس کی طرح ہے، زمین کے اندر کا مرکز پگھلا ہوا ہے۔ یہ مرکز لوہے اور دیگر دھاتوں پر مشتمل ہے۔ زمین جب گردش کرتی ہے تو پگھلا ہوالوہا بھی مڑتا اور گھومتا ہے نتیجتاً سیارے کی میگنیٹک فیلڈ بن جاتی ہے۔ آپ نے مچھلیوں، کچھوؤں اور ہجرتی پرندوں کے بارے میں سنا ہوگا جو مہینوں سفر میں رہتے ہیں اور زمین کے ایک خطہ سے دوسرے خطہ تک سفر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اس سفر کے لیے سمتوں اور راستوں کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا بلکہ ان کے دماغ میں قدرتی طور پر میگنیٹک فیلڈ کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ زمین کے کم و بیش تمام جاندار اس کے میگنیٹک فیلڈ کا استعمال کر کے راستے آسانی سے تلاش کر لیتے ہیں لیکن انسانوں کو GPSجیسی ٹیکنالوجی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانوں کے دماغ میں بھی ایسے سیل موجود ہوتے ہیں جو میگنیٹک فیلڈ کو ڈٹیکٹ کر سکتے ہیں مگر زمین کا میگنیٹک فیلڈ کمزور ہونے کی وجہ سے ایکٹو نہیں ہوتے ، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان جس مسکن سے آیاہے وہاں میگنیٹک فیلڈ زمین سے زیادہ قوی ہوگی -
مزمن امراض
وسائل اور آبادی
ممکن ہے کہ انسان کسی ایسے مسکن کی مخلوق ہے جہاں دوسرا ایکو سسٹم ہو جو انسان کے لیے وسیع آبادی اور کثیر وسائل کی گنجائش پیدا کرتا ہو۔
بقا نہیں تبدیلی
ایلس سلور کا کہنا ہے کہ اس زمین کی ہر مخلوق Surviveکرتی ہے مگر انسان Thrive کرتا ہے۔ یعنی انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان اپنے مستقبل کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا یے جبکہ حیوان یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ جن حالات میں حیوان کروڑوں سالوں سے رہتے آئے ہیں، انہوں نے کبھی ان حالات کو نہیں بدلا۔ وہ اپنے حالات کو بدلنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ وہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں یا دوسرے علاقوں میں ہجرت کرجاتے ہیں یا مرجاتےہیں۔ جبکہ انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خود کو اور اپنے ارد گرد کے حالات کو بدل سکتا ہے۔ انسان پلاننگ کرسکتا ہے، وہ ایک منٹ سے لے کر ہزار سال تک کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ یہ خوبی زمین کی کسی دوسری مخلوق کے پاس نہیں ۔
ڈپریشن ، تنہائی، اداسی اور خودکشی
ڈپریشن ، تنہائی، اداسی، ناخوشی اور خودکشی یہ تمام وہ مسائل ہیں جو صرف انسان سے منسلک ہیں۔
ایک سروے کے مطابق تقریبا ہر انسان کبھی کبھی یہ محسوس کرتا ہے اور اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس زمین پر نہیں ہے، خود کو شہر کی گہما گہمی میں بھی تنہا، اجنبی محسوس کرتا ہے، کبھی کبھی اس پر حیرت انگیز طورپر ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے کو ہوتی ہے چاہے وہ اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا ہوں۔
انسانوں میں جب یہ احساس شدت اختیار کرجاتا ہے تو ڈپریشن کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور بعض میں اس کا نتیجہ خودکشی کی صورت میں ہوتا ہے۔ زمین پر بسنے والے دیگر حیوانات اس احساس سے ماورا ہیں۔
جسمانی ، جینیاتی اور دماغی فرق
انسان زمین پر پائے جانے والے دیگر جانداروں سے بالکل الگ ہے ۔ انسان کی بعض جسمانی خصوصیات بھی اس سیارے زمین دیگر مخلوقات سے مختلف ہیں ۔ اس کا ڈی این اے اور جینز بھی اس زمین پہ پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے حیرت انگیز طور پہ بہت الگ ہیں۔ یہ فرق ظاہرکرتا ہے کہ انسان درحقیقت اس زمین کی مخلوق نہیں۔ ایک جانور اور انسان کے دماغ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسانی دماغ ریشنل (Rational) ہے۔ ریشنل سے مراد ہے ایک وقت میں دو یا دو سے زائد آئیڈیاز یا خیالیوں کو پراسس کرنے یا فکر سے گزارنے کی صلاحیت۔ یہ صلاحیت صرف اور صرف انسانی دماغ کے پاس ہے۔ دیگر جانداروں کے پاس بھی دماغ تو ہے، مگر وہ دماغ فقط ایک خیال ہی سے جڑا ہوا ہے۔ ایک فطری خیال جو اسے فقط اپنے افعال انجام دینے اور زندہ رہنے کی سعی میں مصروف رکھتا ہے۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
ذہانت، گفتگو اور مزاح
انسان وہ واحد مخلوق ہے جس میں تین ایسی خوبیاں ہیں جو اسے زمین کی دوسری تمام مخلوقات سے جُدا کرتی ہیں۔ ان خوبیوں میں سے پہلی خوبی عقل و ذہانت کی ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جو دوسرے جانداروں سے بہت زیادہ ذہین ہے یا یوں کہہ لیا جائے کہ انسان میں عقل و شعور باقی مخلوقات سے زیادہ ہے ۔ یہ بات نہیں کہ دوسرے حیوانات میں عقل نہیں ، دراصل انسان اس عقل اور صلاحیتوں کا استعمال کرنا جانتا ہے۔
انسان کی دوسری خوبی گفتگو یا کمیونیکیشن ہے۔ انسان زمین پر بسنے والی واحد مخلوق ہے جو اپنے احساس، اپنے جذبے، اپنی فکر، اپنے دل میں پیدا ہونے والے گمان اور اپنے ذہن میں پروان چڑھنے والے خیالات کا زبانی اظہار کر سکتا ہے۔
انسان کی تیسری خوبی ہنسی ، مزاح یا انجوائمنٹ ہے۔ طلوع اور غروبِ آفتاب، موسم، برستی بارش، سمندر کی لہریں ، پرندوں کی آوازیں انسان کو خوشی فراہم کرتی ہیں۔ انسان واحد مخلوق ہے جو زمین پر اس طرح انجوائے کرتی ہے، جیسے کوئی سیاح کسی نئے مقام پر جاکر انجوائے کرتا ہے۔
زمینی دن اور انسانی دن
انسان جہاں تخلیق کیا گیا، اندازہ ہے کہ وہاں وقت زمین سے مختلف ہوگا، 2006ء میں نیند پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق انسان اکثر بیمار رہتا ہے اور دوسرے جانوروں کی بنسبت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے کیونکہ زمین کی محوری گردش اور دن کا دورانیہ چوبیس گھنٹے ہے لیکن انسان کی اندرونی بائیولوجیکل کلاک Circadian rhythm کا دورانیہ 25 گھنٹے یا اس سے زیادہ ہے۔ یعنی انسان کی بائیولوجیکل کلاک زمین کے دن کے مطابق نہیں، بلکہ کسی ایسے زون کے مطابق ہے جس پر دن کا دورانیہ 25 سے 30 گھنٹے یا اس سے زیادہ ہوتا ہوگا۔
1972ء میں غاروں کے علوم کے فرانسیسی ماہر Peleologist مائیکل سیفرCiffreنے زمین کے نیچے چھ ماہ گزارے اور اپنے آپ کو دنیا سے بالکل قطع تعلق کر لیا۔اس دوران انہوں نے اپنے تجربات کا سارا ریکارڈ رکھا۔ انہیں غار میں اپنے قیام کا 179 واں دن 151 دن لگا۔جس کا مطلب تھا کہ انہوں نے پورا ایک شمسی مہینہ کھو دیا۔ اس پر یہ گمان کیا گیا کہ ان کا حیاتیاتی دورانیہ یا بیالوجیکل کلاک زمین کے دن رات کی بجائے کسی اور سیارے سے مطابقت رکھتا تھا۔
ایلس سلور نے اور کئی نکتے بھی ان بیان کیے ہیں، مثال کے طور پر ایلس کا کہنا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ انسان کے بچے کا پیدائش کے وقت سر بڑا ہوتا ہے جس سے پیدائش کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔یہ وہ خاصیت ہے جو زمین پر موجوددوسرے جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔ تقریباً ہر جانور میں بڑھاپے تک بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، لیکن انسان وہ واحد مخلوق ہے جس میں سن یاس یا مینوپاس Menopause جیسے مسائل ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کی نسبت انسانوں میں وٹامن ڈی کی ضروریات میں فرق ہوتا ہے، صرف انسان ہی زمین کی قدرتی خوراک میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔
ایلس کے مطابق ان کی تحقیق ، سائنسی دلائل اور مفرو ضوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی اور جگہ پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اپنے اصل مسکن سے وہ موجودہ رہائشی سیارے زمین پر آگیا ہے۔
وجوہات کچھ بھی ہوسکتی ہے ہوسکتا ہے کہ اسے اس سیارے سے نکلنا پڑا ہو یا نکال دیا گیا ہو اور اس نے اس زمین کو عارضی ٹھکانا بنایا ہو ۔ یا پھر ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ وہ اس زمین پر ایک قیدی ہے، زمین کی حیثیت ایک قید خانے کی سی ہے۔چونکہ انسان ایک تندخو مخلوق ہے۔ لہذا امتحان اور اصلاح کے لیے یہاں رکھا گیا ہو۔