اقبال اور قرآن
عبدالباری قاسمی کے ایک مضمون سے چند اقتباسات!
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو شخص بقدر ضرورت مغربی علوم حاصل کرلیتا ہے اور یورپ میں رہنے لگتا ہے تو اسلام کا نام تک لینے میں عار محسوس کرنے لگتا ہے۔ مغربی علوم و فنون حاصل کرنے کے بعد اقبال کے ایمان میں مزید پختگی پیدا ہوتی گئی اور جوں جوں ان کی فکر و فہم کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، کلام اللہ کے پیغامات اور افکار میں بھی غور و فکر کا دائرہ بڑھتا گیا۔
حضرت علامہ اقبالؒ مسائل کا حل قرآن میں تلاش کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اسی کی ترغیب و تلقین کرتے تھے۔اقبال کا نظریہ تھا کہ دنیا میں سرخ روئی اور سربلندی کا راز قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے میں مضمر ہے اور ذلت و خواری کی بھی بنیادی وجہ قرآن پاک سے دوری ہے۔ اقبال نے اسی دعوت فکر کو اپنے ایک شعر میں اس انداز سے بیان کیا ہے۔
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ترجمہ:‘‘اور تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو اور دوسرا مصرعہ سورہ فرقان (25) کی آیت 30 کا مفہومی ترجمہ ہے۔ (وقال الرسول یارب ان قومی اتخذو ھذالقرآن مہجورا )۔ یعنی رسول تارکین قرآن کے سلسہ میں اپنے رب کے سامنے خود گواہی دیں گے کہ اے میرے رب میری قوم نے قرآن کو چھوڑدیا تھا۔
اقبال کی پرورش اسلامی اورقرآنی ماحول میں ہوئی . قرآن کے معانی و مفاہیم میں غو رو فکر کے ذریعہ ہی آپ اتنے بڑے فلسفی بنے کہ مشرق و مغرب میں آج بھی ان کے فلسفہ کی دھوم مچی ہوئی ہے، اقبال کو شاعر مشرق کہاجاتاہے مگر ان کا کلام اور فلسفہ اس مقام پر فائز ہے کہ اسے مشرق و مغرب میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
اقبال نے متعدد مقامات پر مختلف پیرایے میں قرآن کو اپنانے کی دعوت دی۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
فلسفۂ خودی کا قرآنی ماخذ:
اقبالؔ کا سب سے اہم فلسفہ خودی ہے جسے ان کی فکرکا شاہکار کہا جاسکتا ہے. بہت سے لوگوں نے اقبالؔ کے اس فلسفہ کو نطشے سے ماخوذ بتایا تھا ،ڈاکٹر اسرار احمدنے اپنے ایک بیان میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی کہ سید نذیر نیازی نے اقبالؔ سے کہا کہ کوئی کہتا ہے آپ نے یہ فلسفہ نطشے سے لیا کوئی کچھ اور....؟یہ سن کر اقبال نے کہا کل آنا ،سید نذیر نیازی بہت خوش ہوئے کہ شاعر مشرق مجھے یہ سعادت بخش رہے ہیں . اگلے دن جب مقررہ وقت پر وہ پہنچے تو اقبال نے فرمایا قرآن مجید نکالو، میں نے سوچا تھا کہ فلسفہ کی کوئی کتاب نکالیں گے، پھر کہا سورہ حشر نکالو . کہا میرے فلسفۂ خودی کا ماخذ ہے آیت ولاتکونوا کالذین نسواللہ(19)
علامہ اقبالؔ نہ صرف یہ کہ قرآن سے استفادہ کرتے تھے، بلکہ قرآنی افکار کو اپنانے اور انہیں حرز جاں بنانے کی دعوت بھی دیتے تھے اس کا انداز ہ اس شعر سے بھی لگایا جا سکتا ہے
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
کلام اقبال میں قرآنی آیات کے ترجمے:
علامہ اقبال ؔ کے اردو اور فارسی کلام کا ایک بڑا حصہ قرآنی آیات کے تراجم یا تفسیر ہیں ،بسا اوقات تو اپنے اشعار میں بالکل واضح طور پر کسی آیت کا ترجمہ کردیتے ہیں اور بہت سی آیات کا مرادی اور مفہومی ترجمہ کرتے ہیں۔اقبال نے قرآنی آیات کو جس طرح شعر کا حصہ بنا لیا ہے اردو شاعری میں اس کی نظیر دیگر شعر ا کے یہاں کم ملتی ہیں، جیسے ‘‘بچے کی دعا’’ نظم کا ایک شعر ہے
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پر چلانا مجھ کو
ترجمہ :اور دور کردے ہم سے برائیاں ،اور دوسرا مصرعہ سورہ فاتحہ (1)آیت :6 کی ترجمانی ہے ترجمہ :بتلا ہم کو راہ سیدھی ،راہ ان لوگوں کی جن پر تونے فضل فرمایا ۔
بانگ درا میں ‘‘پہاڑ او ر گلہری ’’ کا ایک شعر ہے
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
ترجمہ :اے ہمارے رب تونے یہ عبث نہیں بنایا ۔
‘‘ترانۂ ملی’’ کا ایک شعر ہے
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
ترجمہ :بیشک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہوا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے ۔
‘‘تصویرِدرد’’ کا ایک شعر ہے
زباں سے گر کیا توحید کا دعوی تو کیا حاصل
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تونے
ترجمہ :کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا خدا اپنیِ خواہشات کو بنا لیا ہے۔
بانگ درا ،بال جبریل ،ضر ب کلیم اور ارمغان حجاز میں بڑی تعداد میں ایسے اشعار ہیں جوقرآنی آیات کی ترجمانی یا تلمیحات ہیں، مختصر سے مضمون میں سب کا احاطہ ممکن نہیں ۔
قرآن پاک میں حضرت خضر ؑاور موسیٰؑ کے قصہ کا خلاصہ اقبال نے دو مصروں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ایجاز کایہ سلیقہ بھی اقبالؔ نے قرآن سے ہی سیکھا ہے
کشتیِ مسکیں ،جان پاک،و دیواریتیم
علمِ موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
شاعری میں قرآنی الفاظ کا استعمال:
اقبال کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں انہوں نے کسی آیت کے حصے کو ہی اشعار کا حصہ بنا لیا ہے۔
اے مسلماں! ہر گھڑی پیشِ نظر
آیہ ‘‘لاَ یُخلِفُ الْمِیْعَاد’’ رکھ
یہ لسان العصر کا پیغام ہے
“اِنَّ وعْد اللہِ حقُ” یاد رکھ
بانگ درا کا ایک شعر ہے
حکم حق ہے لیس للانسان الا ماسعی
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
علامہ اقبال ؔ کی تربیت وتعلیم اور پرورش بہت ہی پاکیزہ اور قرآنی ماحول میں ہوئی تھی ،ان کے والد اعلی درجہ کے متقی انسان تھے ،خود اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے کہ قرآن کی تلاوت اس طرح کرو کہ جیسے تم پر نازل ہو رہاہے ،اس ماحول میں اقبال ؔ نے پرورش و پرداخت کی وجہ سے اپنے قلب و ذہن میں قرآن کو بسا لیا اور تمام مشکلات کا حل قرآن میں ہی تلاش کرتے رہے۔ قرآنی افکار کی ترجمانی میں پوری زندگی صرف کر دی ۔
تحریر: عبدالباری قاسمی
( میراپیام شمارہ مارچ 2018 کے شکریہ کے ساتھ )