عشق کیا ہے....؟
بے کلی، بےقراری، راحت، حاصل زندگی، منزل مقصود یا دکھ اور کرب کا وسیع صحرا عشق سکون جاں بھی ہے اور حرز جان بھی۔
عشق ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ عشق کے بغیر انسان ادھورا ہے۔
جلال الدین رومی کے مرید مریدِ ہندی حکیم الامت علامہ اقبال نے بھی عشق کے موضوع پر کلام کیا ہے۔
علامہ اقبال کے یومِ پیدائش 9 نومبر کی مناسبت سے روحانی ڈائجسٹ سے عارفہ خان کی ایک تحریر
بےکلی، بےقراری، راحت انبساط، حاصل زندگی، منزل مقصود یا دکھ اور کرب کا اندھا صحرا....؟ عشق سکون جان بھی ہے اور عرز جاں بھی ۔ لاعشق کا نشہ گہرا ہے خواہ وہ حقیقی ہو کہ مجازی، عشق ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
عشق زمزمہ حیات اور کائنات کا فسوں ہے اور انسان عشق کا اسیر ہے۔ عشق تو زمین کے ذروں سے آسمان کے تاروں تک پھیلا ہوا ہے۔ عشق کے دم سے ہی دنیا کی کشش باقی ہے۔
پھر بھی یہ عشق کیا ہے.... یہ کیسے ہو جاتا ہے اور انسان کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ آخر عشق میں ایسی کون سی تاثیر ہے جو انسان میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے....؟ اور عشق کا مقام کیا ہے....؟ عشق کا رنگ گہرا کس طرح ہوتاہے....؟
ان سارے سوالوں کے جواب ہمیں اقبال کی شاعری میں جابجا نظر آتے ہیں۔
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر دیں
عشق کے اونی غلام، صاحب تاج ونگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقین اور یقین فتح و باب
اقبال کے ہاں عشق کا مفہوم نہایت وسیع اور گہرا ہے۔ اقبال نے عشق کو برتری اور اولیت دی ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں جابجا علم اور عشق کا موازنہ کرتے ہوئے عشق کی بڑائی بیان کی ہے۔
اقبال کا کہنا ہے کہ علم کا بھی اپنا ایک مقام ہے لیکن عشق کا پہلا درجہ ہے۔ عشق افضل ہے، عشق برتر ہے۔ عشق دل ہے، عمل دماغ ہے! اقبال نے عقل کو عشق سے کم درجہ دیا ہے۔ ان کے خیال میں عشق کے بغیر عقل کی راہنمائی اور علم کا توسل ممکن نہیں۔
جوں جوں زمانہ ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے.... مادیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مادہ پرست علم اور عقل کو اولیت دیتے ہیں اور عشق کو ثانوی.... جس کے نتیجے میں علم محدود نامکمل اور خام رہتا ہے۔ دوسری جانب عشق کی عدم موجودگی نے موجودہ دنیا کو جذبوں کی جدت سے دور کردیا ہے۔ خود فریبی، نفسانفسی اور بُعد انہی عوامل کی پیداوار ہیں۔
علامہ مرحوم نے عقل اور عشق میں امتیاز کیا ہے اور عشق پر زور دیا ہے۔ اقبال سے قبل کسی شاعری نے تصور عشق و عقل پر اتنی عرق ریزی سے کام نہیں۔ کیا اور نہ دونوں کے اس طرح درجات مقرر کیے۔
اقبال نے عشق اور عقل کی انسانی زندگی میں اہمیت کو دو چند کیا ہے۔ عشق و عقل ہی انسانی زندگی کے راستوں کا تعین کرتے ہیں۔ انہی کے توسط سے زندگی کی راہیں کھلتی ہیں۔
اقبال کہتا ہے کہ عقل لاجواب ہے مگر زمان و مکان کی حدود کی پابند ہے مگر عشق باکمال ہے جو زمان و مکان سے ماورا ہے۔ اسی لیے عقل کو صرف ‘‘خدا جو’’ اور عشق کو ‘‘خدا نما’’ قرار دیا ہے۔
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمین پہ گزر فلک پہ میرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں
ہے مجھے واسطہ مظاہر سے!
اور باطن سے آشنا ہوں میں
بےخطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل اور عشق کے فرق کو اقبال نے ایک جگہ اور یوں واضح کیا ہے۔
عشق فرمودہ اصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
<!....ADV>
<!....ADV>
غالب کے ہاں عشق کی جو کیفیت ہے وہی رنگ اقبال کی شاعری میں اپنی تمام تر شوکت کے ساتھ جلوہ فگن ہے.... فرق صرف اتنا ہے کہ اقبال کی شاعری نے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک جا سفر طے کیا ہے۔ زمان و مکان اور کسی بھی بندش سے ماورا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو غالب کی اردو، فارسی شاعری کا سرور دوسری زبان کے لوگ نہ لیتے۔ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردو شاعری کے جسم میں نئی روح پھونک دے گا جس کی بدولت غالب کا بےنظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئے گا۔غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشرک ہیں خصوصاً عشق میں....
اقبال کی شاعری میں عقل و دانش کا پر تو بھی ہے لیکن عشق کی جولانی نے دراصل اقبال کے کلام کو حیات جاوداں بخش دی ہے۔ ان کے ابتدائی کلام سے ہی اس کا آگاز ہوگیا تھا۔ ‘‘بانگ درا’’ کا بیشتر کلام عشق و محبت کی چاشنی سے لبریز ہے۔ ابتداء میں اقبال نے عشق مجازی سے کام لیا جو عموماً ہر شاعر یا ہر عاشق کے ہاں نظر آتا ہے کہ عشق حقیقی تک پہنچنے کے لیے عشق مجازی کے مرحلے بھی راستہ آسان کرتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص خدا کے بندے سے محبت نہیں کرسکتا.... وہ خدا کی محبت کا اہل نہیں۔ عشق کا سفر انسان سے شروع ہوتا ہے اور خدا پر ختم ہوتا ہے! عشق کا جذبہ عمیق ہو، سچا ہو تو چاہے وہ مجازی ہو یا حقیقی ہو.... اپنا رنگ دکھاتا ہے اور منزل پاتا ہے۔ یہ عشق کی انتہا ہے!
مرد خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
جو ہر انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
اقبال کے نزدیک عقل کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں جرات کی کمی ہے۔ اگر عشق علم کی پشت پناہی اور رہبری نہ کرے تو علم یا عقل منزل مقصود سے دور رہے۔ یہ عشق ہی ہے جو سوز و زیاں سے بےنیاز ہوتا ہے اور عشق کی حرارت سے بےخطر انسان آگ میں کود جاتا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو آگ کو گلزار اور سمندر کو سبزہ زار بنا دیتا ہے۔ جو انہونی کو ہونی کردیتا ہے اور دکھ کو سکھ میں بدل دیتا ہے۔ عشق کبریائی اور غرور کے بتوں کو پاش پاش کردیتا ہے۔ عشق ہی ہے جس کی رسائی آسمانوں تک ہے۔ لیکن عقل اسباب علل کے بھول بھولیوں میں الجھ کر اصل حقیقت سے دور رہتی ہے۔
عشق سے اشیاء کا مکمل علم اور صحیح بصیرت حاصل ہوتی ہے۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے