اخلاق کی فضول خرچی
سوال:
میں بہت جلد لوگوں میں گھل مل جاتا ہوں اور ہر ایک کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتا ہوں۔ لوگ مجھ سے خوش بھی ہوتے ہیں۔ میں اپنا کام چھوڑ چھوڑ کر دوسروں کے کام آتا ہوں۔ کسی کی پریشانی میں اُس کا بہت زیادہ ساتھ دیتا ہوں لیکن میرے ساتھ کوئی پریشانی ہو تو وہی لوگ مجھ سے کنی کترانے لگتے ہیں۔
<!....ADV>
<!....ADV>
جواب:میرے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کا ایک قول اکثر سناتے ہیں۔
’’اسراف صرف روپے پیسے کا ہی نہیں بعض اوقات اخلاق کا بھی ہوتا ہے‘‘۔
میرے بھائی! آپ بھی اخلاق کی فضول خرچی اور دوسروں سے حد سے بڑھی ہوئی توقعات میں مبتلا معلوم ہوتے ہیں۔ دوسروں کے کام آنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ اچھائی بھی اس وقت مناسب ہوتی ہے جب دوسرے کو آپ کی ضرورت محسوس ہورہی ہو۔ آپ خود ہی فرض کرلیں کہ اسے میری ضرورت ہے اور اس کی مدد کو پہنچ جائیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ دوست آپ کے اس طرزِ عمل سے اُکتا جائے۔ایسی صورت میں وہ آپ کا دل رکھنے کے لئے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی تعریف کردے مگر بعد میں اس کے رویّہ میں سرد مہری آسکتی ہے۔
آپ دوستوں کے کام آنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اُنہیں مطلع کردیں کہ ان کے فلاں کام کے لئے آپ کی خدمات حاضر ہیں۔ اب اگر وہ آپ کی خدمات طلب کرلیں تو حتی الامکان اُن کے کام آئیں لیکن اگر آپ کی طرف سے آفر کے باوجود وہ آپ کو زحمت دینا مناسب نہ سمجھیں تو آپ خود کو اُن پر مسلط نہ کریں۔
اپنی پریشانی سے نجات کے لئے آپ کو دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ اپنے دوستوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرا شخص باوجود خواہش اور کوشش کے پوری طرح آپ کے کام نہ آسکتا ہو۔ ایسی صورت میں حد سے بڑھی ہوئی توقعات سے دلوں میں رنجش اور کدورت پیداہوتی ہے۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یاعزیز کا ورد کرتے رہا کریں۔