زندگی ہے یا غموں کا طوفان
سوال:
میں ایک نوجوان طالب علم ہوں۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک خود کو پیش آنے والے کئی واقعات کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ زندگی غموں اور آلام کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ کئی تکلیف دہ واقعات نے مجھے ناامیدی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ایسا نہیں کہ مجھے صرف غم ہی غم ملے ہوں۔ اس عرصے میں خوشی کے لمحات بھی نصیب ہوئے لیکن اس طرح جیسے غموں کی بڑی سی زنجیر کو جوڑنے کے لئے درمیان میں ایک چھوٹی سی کڑی آجائے۔ اب تو امید کی آخری کرن بھی مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں تبدیل ہوتی جارہی ہے ۔جواب :
عزیز نوجوان....! اکثر لوگ استعمال شدہ چیزوں مثلاً کاغذ کے ریپرز، گتے کے ڈبوں، ٹن، پلاسٹک یا کانچ کی بوتلوں اور دیگر کئی اشیاء کو بےکار سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ چند لوگ انہی اشیاء کو ریسائیکل کرکے انہیں اپنے لیے دولت کے حصول کا زریعہ بنا لیتے ہیں۔خوشی کی تمنا ایک فطری بات معلوم ہوتی ہے۔ لوگ خوشیوں کی خواہش رکھتے ہیں اور غم سے بچنا چاہتے ہیں۔ تم غور کرو کہ انسان کی اعلیٰ صفات کیاکیاہیں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
قرآن پاک میں اللہ کے پسندیدہ انسانوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ برائی کو اچھائی سے دور کرتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کے برے سلوک کے رد عمل میں خود برا سلوک نہیں کرتے بلکہ مخالفوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود اپنے اندر موجود برائیوں اور خامیوں کا مقابلہ برائیوں سے کرنے کے بجائے ان برائیوں کے بدلے اچھائیوں کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جائے۔ اپنی خامیوں، کوتاہیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کا عمل تذکیہ کرنا کہلاتا ہے۔
تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ خود پر پڑنے والے غموں پر مایوس ہونے کے بجائے ان دکھوں کو اپنی ذات کے لیے ترقی کا زینہ بنا دو۔ یہ کام ہے تو بہت مشکل لیکن بہرحال کیا جاسکتا ہے۔ یہ مشکل کام کیسےہوگا....؟
تم اچھی تعلیم یا بہتر ہنر کے ذریعے مالی خود کفالت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ دوسروں پر انحصار کرنے والے (Dependent) بننے کے بجائے دوسروں کے کام آے والا بننے کی کوشش کرو۔ جو لوگ ایسے پروفیشنز اختیار کرتے ہیں جن میں دوسروں کے نام آنے کے زیادہ مواقع ہوں معاشرے میں ایسے لوگوں کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔
تکلیف دہ واقعات پر یا کسی کی طرف سے دل آزاری پر دکھی ہونا ایک فطری ردعمل ہے لیکن ایسی باتوں پر دکھی ہونے کے احساس میں ڈوبے رہنا یا غموں کا غلبہ محسوس کرتے رہنا فطری عمل نہیں بلکہ آدمی کی کمزوری کا اظہار ہے۔
تمہیں زندگی میں دکھ ملے، برا ہوا لیکن اس غم کو شکووں اور بےعملی کی شکل اختیار نہ کرنے دو۔
پختہ عزم اور مضبوط ارادے کے ذریعہ خود کو بنانے کے لیے تیار کرو اور زمانے سے خود کو منواؤ لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ زمانے کے سامنے خود کو منوانے سے پہلے تمہیں خود کو اپنے سامنے منوانا ہے۔