سیہون کا شہباز : حضرت لعل شہباز قلندر

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


حضرت لعل شہباز قلندرؒ

سیہون کا شہباز


زمانہ قبل مسیح میں ہندوستان میں مختلف قومیں آکر آباد ہوتی رہیں، ان  میں سے ایک آریا قوم بھی تھی،   وسط ایشیا کی یہ قوم سندھ پہنچی تو  یہاں  کے دریا، پہاڑ، غار و چشموں کو دیکھ کر انہوں نے یہیں قیام کا فیصلہ کیا ۔ اس علاقے کو شیواستھان   کا نام دیا۔  وقت گزرتا گیا،    اس  خطہ کا نام  شیواستھان سے سیوستان پھر سدوسان اور آخر میں ‘‘سیہون’’ پڑگیا۔    
اس شہر نے تاریخ کے کئی رخ دیکھے لیکن اسے شہرت بارہویں صدی عیسوی سے  ملی،   جب ایک صوفی بزرگ نے اسے اپنا مسکن بنایا۔  یہ ہستی حضرت شیخ عثمان مروندیؒ   کی ہے  جنہیں  آج دنیا لعل شہباز قلندر کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت شیخ عثمان مروندی  لعل شہباز قلندر    یوں تو پورے برصغیر میں صاحبِ  کرامات   صوفی کے  طور پر شہرت رکھتے ہیں لیکن  ان کی زندگی کے کئی  اہم گوشے اکثر  لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔      حضرت لعل شہباز قلندرؒ ناصرف صوفی باعمل بزرگ تھے بلکہ آپؒ نے سندھ  میں علم کی ترویج کے لئے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔  حضرت لعل شہباز قلندرؒ  ایک  شاعر، ایک محقق، سیاح، ماہرِلسانیات  اور گرامر  دان بھی تھے.... آپ  نے مدارس تعمیر کیے اور آپ کاتحریر کردہ نصابِ تعلیم  تقریباً آٹھ سو سال تک برصغیر کے مدرسوں میں پڑھایا جاتا رہا ہے۔
    آئیے ....! لعل شہباز قلندر کی زندگی کے ان  گوشوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 
 آذربائیجان اور تبریر سے 40میل کے فاصلے پر ایک گاؤں مروند واقع ہے۔ جہاں  ایک چھوٹا سا تاریخی قلعہ اور مسجد واقع ہے۔    یہ خطہ  چہاراطراف سے باغات سے گھرا ہوا ہے۔ اِسی گاؤں میں روحانیت کے ایک جلیل نے اپنی زندگی کے ابتدائی دن گزارے۔  ولایت کی منازل طے کرتے ہوئے یہ منفرد ہستی ایک دن لعل شہباز قلندر کے نام سے  ایسی چمکی جس کی ضوفشانی سے آج بھی وادیٔ مہران  منور اور تاباں ہے۔
حضرت عثمان مروندی لعل شہباز قلندر کی ولادت 570 یا  573ھ بمطابق 1177ء میں ہوئی۔ آپ ؒ کو ابتدائی تعلیم آپؒ کی والدہ ماجدہ نےدی۔  سات برس کی عمر میں کلام پاک حفظ کرنے کے بعد  علومِ ظاہری کے حصول کا اہتمام ہوا۔  عربی اور فارسی زبانوں میں آپ نے بہت کم عرصے میں خاصی مہارت حاصل کرلی تھی ۔
عثمان مروندی  ابھی نوجوان ہی تھے کہ آپ کے والدین  کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔   آپ کا میلان روحانی علوم کی طرف ہوا ،  چنانچہ آپ نے مروند سے سبزوار کا بھی سفر کیا اور وہاں حضرت  سید ابراہیم ولی ؒ ابراہیم ولیؒ کی خدمت میں رہ کرتحصیلِ علم میں مشغول ہوگئے۔ حضرت ابراہیم ولی ؒنے نوجوان عثمان مروندی کی صلاحیتوں کو پرکھ کر جلد ہی آپ  کو خلافت سے نواز دیا۔  آپ اپنے وطن واپس لوٹے، بعد ازاں  ایران  میں حضرت  امام ِرضاؒ   اور  عراق میں حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کے مزارات  پر حاضر ہوئے۔   مکہ مکرمہ  اور مدینہ منورہ  کی زیارت کی ۔ بارگاہِ رسالت سے دورانِ خواب آپ کو سندھ جانے کی بشارت ملی۔ اس بشارت پر آپ سندھ کی طرف روانہ ہوگئے۔
  سفر کے دوران شہباز قلندر ؒ مکران کے ساحل پہنچے،  آپ کی تعلیمات  سے متاثر ہو کر کئی مکرانیوں  اور بلوچوں نے اسلام قبول کرلیا اور آپ کے  مرید ہوگئے۔  یہاں سے آپ اس دور میں سندھ   کے مرکزی شہر ملتان پہنچے اور شہر کے مضافات میں قیام فرمایا۔ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر ملتان اور گرد و نواح کے لوگ طرح طرح کے مسائل لے کر آپ کے پاس آنے لگے۔ ہر وقت لوگوں کا ایک ہجوم رہنے لگا۔    قلندر شہباز ؒ کی دعاؤں  سے بے شمار مریضوں  کو شفا ملی،  لاتعداد دکھیاروں کے دکھ دور ہوئے، ان خوش نصیب لوگوں  کی زبانی قلندر شہباز ؒکی کرامات کا شہرہ بھی دور دور تک ہونے لگا۔ 
ملتان  میں اس وقت  حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ تشریف فرما تھے۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ ایسی صحبتوں کے متلاشی تھے۔   حضرت بہاؤالدین زکریاؒ  سے پہلی ہی ملاقات دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ اسی خانقاہ میں آپ  کی ملاقات حضرت فرید الدین گنج شکرؒ اور حضرت سرخ بخاریؒ سے ہوئی۔ اس زمانے میں خطہ پنجاب  میں کئی علاقے ایسے تھے جہاں اسلام کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔  ان حالات کے پیش نظر حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ نے رشد و ہدایت اور اسلام کی تبلیغ کا ایک عملی منصوبہ تیار کیا۔ ایک طرف اپنے مریدوں کو مختلف تبلیغی دوروں پر روانہ کیا تو دوسری جانب حضرت لعل شہباز قلندرؒ حضرت فرید الدین گنج شکرؒ اور سید جلال سرخ بخاریؒ کے ہمراہ تبلیغی دوروں پر روانہ ہوئے۔  یہ بزرگ کافی عرصہ ایک ساتھ رہے۔بعد میں یہ چاروں بزرگ چار یا رکے نام سے  بھی مشہور ہوئے۔حضرت شہباز قلندرؒ ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے جوناگڑھ،  گرنار، گجرات  اور پانی پت بھی تشریف لے گئے۔ سب جگہ آپ نے   لوگوں کو  توحید اور حقانیت کا درس دیا۔ اسی سیاحت کے دوران آپ نے حضرت بوعلی شاہ قلندرؒ سے بھی ملاقات کی۔  کہا جاتا ہے کہ  حضرت بوعلی شاہ قلندرؒ ہی نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ سندھ میں سیوستان (سہون) میں سکونت اختیارفرمائیں۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ649ہجری میں سیہون سندھ تشریف لائے ۔



<!....AD>
<!....AD>
سیہون میں اس وقت ہندو راجہ جیسر جی(راجاچوپٹ )  کی حکومت  تھی۔   راجہ چوپٹ ایک عیاش طبع آدمی تھا ۔  راجہ رعایا کے حال سے بے خبر رہتا۔  لاقانونیت اور ظلم و تشدد ہر طرف عام تھا۔ کسی کی کوئی فریاد نہیں سنی جاتی تھی۔   
سندھ  میں داخل ہونے کے بعد حضرت شہباز قلندر ؒ  نے  کسی ایک جگہ مستقل سکونت اختیار کرنے سے  پہلے ارد گرد علاقوں میں  تبلیغی دوروں کاآغاز کیا۔    
وادیٔ مہران کے مختلف علاقوں کو فیضیاب کرنے لے بعد حضرت لعل شہباز قلندرؒ  ‘‘سیوستان’’ یعنی سیہون میں مقیم ہوئے۔  لعل شہباز قلندر  اور ان کے ساتھیوں نے جس میدان میں پڑاؤ ڈالا تھا، اس کے قریب ایک بستی میں  شراب و شباب کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ درویش کے پڑاؤ کی وجہ سے اس بستی کے مکینوں نے خوف محسوس کیا اور راجہ کے پاس جاکر ان کی شکایت کی۔  ان لوگوں کی دروغ گوئی سن کر  راجہ غصہ سے تلملا اُٹھا۔ اس نے بہت مغرور لہجے میں  اپنے کوتوال کو حکم دیا کہ ان مسلمان فقیروں  کو  بےعزت کرکے اس کی ریاست سے نکال دیا جائے۔ 
راجہ جیر جی کے سپاہی گدڑی پوشوں کے خیمے میں داخل ہوئے  اور انہیں حاکم سیوستان (سہون) کا حکم سنایا۔   گدڑی پوشوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے مرشد  کے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔اگر تمہیں کچھ کہنا ہے تو ان  سے کہو۔  راجا جیر جی کے سپاہی اسی حالت غضب میں قلندر شہبازؒ کے خیمے کی طرف بڑھے مگر وہ اندر داخل نہیں ہوسکے۔ سپاہیوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے پیروں کی طاقت سلب ہوچکی ہے اور وہ اپنے جسم کو حرکت دینے سے قاصر ہیں۔ پھر جب سپاہیوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو ان کی ساری طاقت بحال ہوگئی۔ سپاہیوں نے دوبارہ  خیمے میں جانے کی کوشش کی ۔ اس بار بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مجبوراً سپاہی کچھ کیے بنا  واپس چلے گئے۔ 
راجا  جیر جی اپنے سپاہیوں کی مجبوریوں کا قصہ سن کر چراغ پا ہوگیا۔  درباری نجومیوں کو طلب کیا گیا، درباری نجومیوں نے  راجا جیر جی سے  عرض کیا۔ ‘‘زائچے بتاتے ہیں کہ  یہ شخص اقتدار کے ساتھ ساتھ آپ  کی زندگی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ ’’
نئی چال سوچی گئی،  ہیرے جواہرات اور اشرفیوں سے بھرا ہوا خوان لے کر شہباز قلندرؒ  کی خدمت میں پیش کیا گیا   کہ اسے قبول فرمائیں اور کسی دوسرے جگہ قیام فرمالیں۔  آپؒ نے حکم دیا کہ ان جواہرات کو آگ میں ڈال دو،  خدمت گار نے اپنے مرشد کے حکم کے مطابق خوان اٹھا کر آگ میں ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک  شعلہ سا بھڑکا، اور واقعی تمام ہیرے جواہرات اور سونے کے ٹکڑے  کوئلے اور لکڑی کی طرح آگ میں جل کر خاک ہوگئے۔  
آپ ؒ  نے نہایت پر جلال لہجے میں فرمایا۔ 
‘‘اپنے راجا سے کہہ دینا کہ ہم یہاں سے واپس جانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔  اگر حاکم سہون اپنی سلامتی چاہتا ہے تو خود یہاں سے چلا جائے۔’’
وزیر دوبارہ حاکم سہون کی خدمت میں پہنچا اور اس نے لعل و جواہر کے راکھ ہوجانے کا پورا واقعہ سنایا تو  راجا جیر جی اور زیادہ  غضبناک ہوگیا۔
شدید مخالفتوں کے باوجود  شہباز قلندرؒ نے  سیہون شریف میں رہ کر اسلام کا نور پھیلایا ہزاروں لوگوں کو راہِ ہدایت دکھائی، لاتعداد بھٹکے ہوئے افراد کا رشتہ خدا سے جوڑا۔  لوگوں کو اخلاق او ر محبت کی تعلیم دی۔ سچائی اور نیکی کی لگن انسانوں کے دلوں میں اجاگر کی۔   
آپ ؒ     کی تعلیمات اور حسن سلوک سے سیہون  کی ایسی کا یا پلٹی کہ  بہت بڑی تعداد میں غیر مسلموں نے اسلام قبول کرلیا ۔ لعل شہباز قلندرؒ کی وجہ سے راجہ کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آرہا تھا۔ آخر حاکم سہون نے اپنے علاقے کے کچھ جادوگروں کو طلب کرکے ان سے مسلمان درویش سے مقابلے کا کہا، لیکن  سہون کے ساحروں نے مقابلے سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کرلی تھی کہ انہیں ہرا نا ہمارے بس کی بات نہیں۔   البتہ جادوگروں نے راجہ کو مشورہ دیا کہ   اگر کسی طرح مسلمان درویش کے شکم میں حرام غذا داخل کردی جائے تو اس کی ساری روحانی قوت زائل ہوجائے گی اور پھر ہمارے جادو کی طاقت اس پر غالب آجائےگی۔راجہ نے ایک روز کسی حرام جانور کا گوشت پکوایا اور کئی خوان سجا کر مسلمان درویش کی خدمت میں بھیج.دیے۔
جب یہ خوان حضرت شہباز قلندر کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اسے دیکھتے ہی شیخ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے یہ کہہ کر کھانے سے بھرا ہوا خوانالٹ دیا۔ ‘‘ہمارا خیال تھا کہ وہ ظالم اتنی نشانیاں دیکھنے کے بعد راہِ راست پر آجائے گا مگر جس کی تقدیر میں ہلاکت و بربادی لکھی جا چکی ہو، اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔’’ پھر دوسرے ہی لمحے زمین لرزنے لگی۔ سہون شدید زلزلےکی لپیٹ میں  تھا۔ زمین نے دو تین کروٹیں لیں اور طاقت و اقتدار کا سارا کھیل ختم ہوگیا۔ ادھر شیخ کے سامنے خوان الٹا پڑا تھا.... راجہ جیر جی کے قلعے کی بنیادیں الٹی ہوگئی تھیں۔
      تواریخ یا صوفیاء کرام کے  تذکروں پر نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہو گا کہ صوفیاء نے  عمرانی، سیاسی، ثقافتی اور لسانی  ترقی میں  بھی اپنا کردار اداکیاہے۔    حضرت لعل شہباز قلندرؒ ناصرف صوفی باعمل بزرگ تھے بلکہ آپؒ نے علم کی ترویج کے لئے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔        حضرت لعل شہباز قلندرؒ  صرف ونحو کے بھی ماہر تھے۔ آپؒ کو ماہرِلسانیات بھی جانا جاتا ہے۔   برطانوی ماہر  لسانیا ت رچرڈ فرانسس برٹن Richard Francis Burton کے مطابق  لعل شہباز قلندر ایک عظیم ماہر لسانیات ،  ماہرِ گرامر، زبان دان،  سیاح اور صوفی بھی تھے۔  شہباز قلندر  نے چار کتابیں  گرامر اور لسانیات کے حوالے سے فارسی زبان میں تحریر کیں تھیں جن  کے  نام   میزان الصرف،   صرف ِ صغیر (قسم دوئم )،  عقد اور  اجناس(منشعب) ہیں۔   اس وقت مدارس میں جو کتا بیں پڑھا ئی جاتی ہیں ان میں پہلی کتاب میزان صرف کے نام سے  ہے ۔ یہ ایک مختصر رسالہ ہے جو مشہور صوفی قلندر شہباز  کا تحریر کردہ ہے،  اس میں   فعل کی گردان دی گئی ہے ، یہ  حافظہ کے لیے ہے۔ ایک اور کتاب اجناس جسے منشعب بھی کہا جاتا ہے،  جس میں مشتق و استخراج کے  قوائد بیان کی گئے تھے۔   کتاب قسمِ دوم میں فعل مجہول(فعل فاسد) اور صرف صغیر   سکھائی جاتی ہے۔ یہ دو کتابیں  فارسی میں لکھی گئی ہیں اور ان کے مصنف لعل شہباز ہیں ۔ تیسرا رسالہ عقد کہلاتا ہے۔ یہ بھی انہی مصنف کا تحریر کردہ ہے لیکن فارسی اورعربی میں مشترکہ ہے۔ جس میں فعل معروف و فعل مجہول کے  قوائد کے مطابق الفاظ بنانے  کی ترتیب  سکھائی جاتی ہے۔  
برطانوی مصنف  البرٹ  ولیم ہگیز Albert William Hughes  نے بھی ذکر کیا ہے کہ   سندھ کے مدارس میں صرف و نحو کی جو تعلیم انگریز عہد سے قبل دی جاتی تھی اس کے نصاب میں حضرت لعل شہباز قلندر کی تصنیف شامل تھی۔  سىہون شرىف مىں بھی ایک مدرسہ‘‘فقہ الاسلام’’ تھا،  جس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرت لعل شہباز قلندر  نے قائم فرمایا  ۔   معروف سیاح ابن بطوطہ نے بھی آپ کے قائم کردہ مدرسہ میں قیام کیا تھا۔ 
لعل شہباز قلندر نے  عوام کے لیے فارسی     زبان میں تعلیم کو فروغ دیا ، ایسے درسی نصاب تحریر کیے ،   جو اگلے کئی سو برسوں تک  جب تک   اٹھاوریں صدی میں انگریزوں نے فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دے دیا۔ سندھ کے مدارس میں پڑھائے جاتے رہے ۔ 
 حضرت لعل شہباز قلندرؒ کو شعر وسخن سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی ۔ شہباز قلندرؒ وجد کی حالت میں بڑے بے مثال اور بے نظیر اشعار کہا کرتے تھے۔ شاعر و محقق ڈاکٹر ہرومل ایثار داس سدا رنگانی  نے لعل شہباز قلندر  کو سندھ کے اولین فارسی شعرا میں شمار کیا  ہے۔ سندھ میں فارسی شاعری کی اولین کتاب ‘‘عشقیہ’’ لال شہباز قلندر کی  تصنیف   ہے۔       
حضرت لعل شہباز قلندرؒ  کے مجموعہ کلام  میں معرفتِ الٰہی اور سرکارِ مدینہؐ کی مدح سرائی، عشق حقیقی کے والہانہ انداز اور عقیدت کا اظہار جا بجا نظر آتا ہے۔  آپؒ کی شاعری میں روحانی وارفتگی اور طریقت و تصوف کے اسرار و رموز بے حد نمایاں اور واضح ہوکر سامنے آتے ہیں جو اکابر صوفیاء کرامؒ کا ایک خاص طرۂامتیاز ہے۔ 
حضرت لعل شہباز قلندرؒ اپنے کلام میں عبدو معبود کے رشتوں کی ترجمانی اتنے حسین پیرائے میں کرتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے قلوب میں گداز اور عشق و محبت کا جذبہ فروزاں ہونے لگتا ہے۔  
حضرت قلندر لعل شہبازؒ 649ہجری میں  سندھ تشریف لائے اور اسی شہر سیہون میں آخر وقت تک رہے۔    حضرت لعل شہباز قلندرؒنے تقریباً 103 برس (بعض تذکروں کے مطابق 112 برس )کی عمر پائی ،  آسمانِ ولایت کا یہ شہباز  اور سیہون اور سندھ   کے گردونواح کے تاریک علاقوں کو نورِ اسلام سے منور کرنے والا یہ آفتاب  18شعبان المعظم673ھ بمطابق1275ء  میں  غروب ہوگیا ۔ـ 
آپؒ کا مزار سیہون شریف میں ہے جہاں ہر سال18شعبان المعظم کو عرس منایا جاتا ہے۔



اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے