سب کچھ ہے ....مگر

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


سب کچھ ہے ....مگر



سوال: 

ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب  کا کاروبار  ماشاءاﷲ اچھا ہے۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ جو چیز مانگتے ہیں وہ ہمیں مل جاتی ہے۔ والدہ صاحبہ ایک NGO کی سینئر رکن ہیں۔ صبح جاتی ہیں اوررات کو واپس آتی ہیں۔
ہمارے گھر میں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی کوئی فرد خوش نہیں ہے۔ ہمیں آپس میں پیار محبت سے بات کیے ہوئے ایک عرصہ ہوگیاہے۔ عجب نفسانفسی ہے۔ گھر میں بات بے بات لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ 
والد صاحب کو گھر کی کوئی فکر نہیں ہے۔وہ گھر میں پیسے دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ والدہ صاحبہ کو گھر سے زیادہ باہر کے کام پسند ہیں۔بچوں کے لیے ان کے پاس کوئی ٹائم نہیں ہے۔ بھائی دن بھرگاڑیوں میں نجانے کن کن کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اوررات کونیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بڑی بہن کو فیشن سے ہی فرصت نہیں ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک سوٹ ہے لیکن ایک مرتبہ پہننے کے بعد اس سوٹ میں کیڑے نکالنے لگ جاتی ہیں۔
میں اپنے گھر کے ماحول کی وجہ سے بہت ڈسٹرب ہوگئی ہوں۔ میں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمارے والدین ہم بہن بھائیوں کی شادیوں کی طرف سے بھی بےِفکر معلوم ہوتے ہیں۔ حقیقت تویہ ہے کہ ان کے پاس بچوں کے لیے سوچنے کا ٹائم ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ انہیں اولاد کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔میں اپنے والدین اور بھائی بہن کے ہوتے ہوئے بھی خودکو تنہا محسوسکرتیہوں۔
اب ہر وقت میرے سرمیں درد رہنے لگاہے۔ نیند کی گولی کھانے سے بھی سکون نہیں مل رہا ہے۔ مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کیاکروں جس سے گھر میں خوشیاں اورمحبتیں بڑھیں اورہم سب ایک جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے کے بارے میں کچھ سوچیں ۔




<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

جواب:

اس قسم کی یا اس سے ملتی جلتی صورت حال زیادہ تر ایسے گھرانوں میں دکھائی دیتی ہے جہاں شوہر اوربیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہو، ایک دوسرے کے لیے محبت وایثار کے جذبات کی کمی ہو اور اہل خانہ کے ساتھ کمٹ منٹ نہ ہو۔ یہ کمٹ منٹ نہ ہونے کی وجہ سے گھر یلو ذمہ داریاں بوجھ معلوم ہونے لگتی ہوں۔
شوہر کی بے رخی اورعدم توجہی کی شکایت کرنے والی بہت سی خواتین شدید اسٹریس اورٹینشن میں اوربعض اوقات ڈپریشن تک میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔اس کیفیت میں مبتلا بعض خواتین گھر کا کام کاج اورسماجی سرگرمیاں چھوڑ چھاڑ کر خود کو اپنے کمرے تک یا اپنے چند معاملات تک محدود کرلیتی ہیں۔بعض خواتین گھر کے ماحول میں اپنے لیے گھٹن محسوس کرتی ہیں اورراپنے گھر سے باہررشتہ داروں کے ہاں یا اپنی سہیلیوں کے ہاں وہ خود کوہلکا پھلکا اورخوش محسوس کرتی ہیں۔ اگر انہیں مواقع اورسہولتیں میسرہوں تو وہ اپنے لیے کوئی مستقل مصروفیت بھی بنالیتی ہیں جیسے آپ کی والدہ نے ایک این جی او میں اپنا وقت گزارنا شروع کردیاہے۔
معاش کے حصول کی وجہ سے مرد کا زیادہ تر وقت گھر کے باہر گزرتاہے مگر شام کو واپس آتے وقت اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر جارہاہے جہاں بیوی بچے اوردیگراہل خانہ اس کے منتظر ہیں۔ہرانسان کے لیے اس کاگھر سکون ومسرت کا مرکز ہوتاہے۔ ہرشخص چاہتاہے کہ اسے اپنے گھرمیں سکون ملے۔
مرد کے لیے اگرگھر کے ماحول میں جاذبیت نہ ہو اور اسے تناؤ کا ماحول ملے تو وہ گھر میں وقت گزارنے سے کترانے لگتاہے اورگھر کے باہر اپنی مصروفیات مزید بڑھانے لگتاہے۔
مرد کی جانب سے گھر کو مناسب وقت نہ دینا اوراپنے اہل خانہ پرتوجہ نہ دینا کئی طرح کے مسائل کاسبب بنتا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان تلخیوں کی وجہ سے مرد و عورت دونوں ہی  ذہنی کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ والدین کے درمیان جھگڑوں کی وجہ سے اولاد ذہنی خلفشار میں مبتلا ہوتی ہے اوربہن بھائیوں کے درمیان کھنچاتانی پڑھتے رہنے سے بچوں میں خودغرضی، لاتعلقی اورنفسانفسی جیسی منفی صفات پروان چڑھتی ہیں۔
ماحول کہیں کا بھی ہو ازخود تشکیل نہیں پایا جاتا بلکہ ماحول نتیجہ ہوتاہے لوگوں کی سوچ اور رویوں کا۔
ایک گھر کا ماحول، وہاں رہنے والوں  خصوصاً گھر کے بڑوں یعنی والدین اوردیگر بزرگوں کی سوچ ، رویوں اورکمٹ منٹ سے وجود میں آتاہے۔ گھر کے بڑوں کی جیسی سوچ ہوگی ،ان کے باہمی تعلقات جیسے ہوں گے اوران سے جس قسم کے رویوں کااظہار ہوتارہے گا گھر کاماحول اسی کے مطابق ڈھلتارہے گا۔ کسی گھر میں پرورش پانے والے بچوں کی شخصیت بھی اس ماحول کے اثرات قبول کرتی رہے گی۔ 
آپ اپنے گھر کے ماحول کی اصلاح کرنا چاہتی ہیں۔آپ کی خواہش بہت احسن ہے مگر آپ کو اس اچھے کام کی یعنی اصلاح احوال کی ابتداءاپنے بہن بھائیوں سے نہیں بلکہ اپنے والدین سے کرنا چاہیے۔ بظاہر یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے مگر ایک بات یہ سمجھ لیجئے کہ اصلاح ِاحوال کا مطلب بڑا بننا نہیں ہے بلکہ نہایت ادب واحترام اورتدبّر کے ساتھ اصلاح کی کوششیں کرنا ہیں۔ بعض اوقات گھر کے کوئی بڑے ذیابیطس یا عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود پرہیز نہیں کرتے۔ اب گھر کے ان صاحب یا صاحبہ کی اپنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ان کا ادب احترام ملحوظ رکھتے ہوئے پرہیز کرنے پرآمادہ  کیا جائے۔
آپ خیال رکھیے کہ اصلاح احوال کا یہ عمل بڑوں کو ان کی غلطیاں بتا کر شروع نہیں کرنا بلکہ ان میں اولاد کی چاہت کے دبے ہوئے جذبات کو بیدارکرکے شروع کرنا ہے۔
اس کام کے آغاز میں آپ اپنی والدہ کی مصروفیات میں دلچسپی لینا شروع کیجئے۔ وہ ایک این جی او کواپناکافی وقت دیتی ہیں۔ اس بات پر ان سے شاکی ہونے کے بجائے سماجی کاموں کے لیے ان کی خدمات کو خوب سراہئیے اوران سے کہیے کہ کسی دن وہ آپ کو بھی اپنے ساتھ لے کر وہاں جائیں۔اس طرح رفتہ رفتہ ہفتہ میں ایک یا دو دن آپ ان کے ساتھ گزارنے کا شیڈول بنالیجئے۔
دوسری طرف اپنے والد کے ساتھ کچھ وقت گزارنا شروع کیجئے۔ جب وہ اپنے دفترسے گھر واپس آئیں توآپ خود ان کے لیے کھانا لگایئے اوران کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔ 
اپنے والد سے ان کے پچپن اوراسکول کالج کی باتیں پوچھیے۔ ان سے پوچھئے کہ ان کی عملی زندگی کیسے شروع ہوئی اورانہوں نے کاروبار جمانے کے لیے کتنی جدوجہد کی....؟
 خیال رہے کہ یہ سب باتیں ایک ہی نشست میں نہیں ہوں گی بلکہ ان کا دورانیہ ایسی بیس پچیس نشستوں پر پھیلا ہوا ہوگا۔
آپ کی طرف سے اپنے والد کاخیال رکھنے سے، ان کی زندگی کے معاملات میں دلچسپی لینے سے انہیں اپنے گھر کے ماحول میں دوبارہ اپنائیت محسوس ہونےلگے گی۔
یاد رکھیے! کبھی اپنے بڑوں کو یہ مت کہئیے کہ آپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا ،آپ نے یہ غلط کیا،وہ غلط کیا۔ بڑوں کو الزام دیتے رہنے سے ان کی غلط روی کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔اس کے بجائے بڑوں کو یہ اطمینان دلانے سے اچھے نتائج مل سکتے ہیں کہ ان کی اولاد ان سے بہت محبت کرتی ہے اوردل سے ان کی  قدردان ہے۔
آپ کے والدین آپ کی کوششوں کے ذریعہ گھر کے ماحول میں اپنائیت محسوس کرنے لگیں گے تو باقی مسائل کے حل کی راہیں کھلنا شروع ہوجائیں گی۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ حٰم السجدہ(41) کی آیت 34 اور آیت 35 میں سے :
وَلَا تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ اِدْفَـعْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ 
فَاِذَا الَّـذِىْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٝ عَدَاوَةٌ كَاَنَّـهٝ وَلِـىٌّ حَـمِـيْـمٌ O 
وَمَا يُلَقَّاهَآ اِلَّا الَّـذِيْنَ صَبَـرُوْاۚ

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کےس اتھ پڑھ کر اپنے والدین کا تصور کرکے دم کردیں اور گھر کے ماحول میں صبر و محبت کے فروغ کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے