والدین کی تربیت کے انداز....؟
سوال:
میری عمر 34 سال ہے۔ میں سرکاری ملازم ہوں۔ میں بچپن سے ہی عجیب و غریب قسم کے خوف میں مبتلا رہتا ہوں۔ ہر وقت ایسا لگتا ہے کہ میرا کچھ کھو سا گیا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے منفی پہلو ذہن میں آتے ہیں اور میں مایوسی میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ کسی کے سامنے اعتماد سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا، بہت جلد گھبرا جاتا ہوں اور اکثر تنہائی میں بیٹھ جاتا ہوں۔ اپنے مستقبل سے بہت نااُمید رہتا ہوں۔گھر کے افراد میری چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت مذاق اُڑاتے ہیں۔ میرے دوست مجھے ہر طرح سے بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اُنہیں کس طرح ڈیل کروں۔ میں زیادہ تر خیالات کی دنیا میں رہتا ہوں۔
کیا میں دنیا میں سر اُٹھاکر جی سکتا ہوں یا یونہی بے یار و مددگار پریشان رہوں گا....؟سلسلۂ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ اب سے پچاس برس پہلے فرماتے تھے کہ اگلی صدی (اکیسویں صدی) میں خواتین کی بالادستی ہوگی۔ آج ہر گزرتا دن اس قول کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ دنیا بھر میں سماجی، معاشی، سیاسی امور میں خواتین کی شمولیت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امورِ خانہ داری، بچوں کی پرورش و تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں، دفتروں، کھیتوں، فیکٹریوں میں خواتین مؤثر کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ سپہ گری خالصتاً مردانہ شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب فوج کے مختلف شعبوں میں بھی خواتین کی تعداد نمایاں ہوتی جارہی ہے۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
بعض والدین اپنے بچوں کو ناپسندیدہ باتوں سے روکنے کے لئے سمجھانے کے بجائے انہیں مختلف حقیقی یا فرضی چیزوں سے ڈراتے ہیں۔ اُن میں جن بھوت کا ڈراوا یا کسی موذی جانور مثلاً کتے، چھپکلی وغیرہ کا خوف ذہنوں میں بٹھانا شامل ہے۔ ایک اور اہم ڈراوا احساس گناہ کا ہے۔ کئی والدین اپنے بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت و محبت کے جذبات جاگزیں کرنے کے بجائے صرف خوف و ڈر کے جذبات پروان چڑھاتے ہیں۔ ایسے والدین مثبت اندازِ فکر کے تحت یہ کہیں کہ فلاں کام کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے یا فلاں اچھا کام کرنے کا حکم رسول اللہﷺ نے دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بات منوانے کے لیے اس طرح کہتے ہیں کہ یہ بات نہ مانی گئی تو تمہیں بہت گناہ ہوگا، سخت سزا ملے گی۔وغیرہوغیرہ۔
ایسے ماحول میں پلنے بڑھنے والے اکثر بچے نیکیوں کی فہرست جاننے اور اچھے کاموں کی انجام دہی کا ذوق شوق اور اعتماد رکھنے کے بجائے اپنے فطری تقاضوں کو بھی گناہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے اکثر بچے بڑے ہوکر بھی اعتماد کی کمی میں مبتلا رہتے ہیں۔والدین ، اساتذہ اور اہلِ خانہ کو بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی اور ان کے اعتماد میں اضافہ کے اقدامات بچپن سے ہی کرنے چاہئیں۔ بعد میں شخصیت کی بحالی کے لئے متاثرہ شخص کو کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔
محترم بھائی! آپ بطور روحانی علاج صبح شام 101 مرتبہ اسمِ الٰہی :
یاحمید
اوّل آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر سرخ شعاعوں کے پانی پر دمکرکےپئیں۔چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاقوی یاعزیز کا ورد کرتے رہیں۔
اپنے کمرے میں اور دفتر میں اپنی میز پر روزانہ سرخ گلاب ضرور رکھا کریں۔
یہ عمل کم ازکم نوّے روز تک جاری رکھیں۔