توکل کیا ہے؟
ہمارے معاشرے میں کچھ الفاظ یا چند اصطلاحات کے نامکمل یا غیر حقیقی معانی وضع کرلئے گئے ہیں۔
ا ن خود اخذکردہ معانی نے ہمارے سوچنے سمجھنے کے انداز اور
ہماری شخصیت کو اکثر منفی طورپرمتاثرکیا ہے۔
ہماری شخصیت کو اکثر منفی طورپرمتاثرکیا ہے۔
اس روز جب جہازٹیک آف کرکے فضامیں بلند ہوچکا تو میں نے اپنی خاموشی یہ کہہ کر توڑی کہ لوہے اور دیگر اجزاء سے بنے ہوئے ٹنوں وزنی جہازوں کی زمین سے فضا میں پرواز اور پھر واپس زمین پر باحفاظت لینڈنگ دراصل قدرت پر توکل کی وجہ سے ہے۔
میری یہ بات سن کر میرے ساتھیوں نے بے ساختہ ایک زودار قہقہہ لگایا اورکہا جناب!.... یہ سائنس کے کمالات ہیں اورسائنسدان حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں۔اگر سائنسدان بھی ہماری طرح توکل پر ہی بیٹھے رہتے تو یورپ آج بھی تیرہویں صدی والی حالت پر ہی ہوتا۔
یہ بات سن کر میں نے پھر کہا کہ اس زمین پرسائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ،زمین اور خلاء میں انسان کا تصرف دراصل قدرت پرتوکل کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکاہے۔
اس بات پر میرے دائیں بائیں بیٹھے حضرات نے قہقہہ تو نہیں لگایا لیکن ان کے چہروں کے تاثرات سے لگ رہاتھا کہ انہیں میری بات سے اتفاق نہیں۔ شاید میری بات کووہ عقیدت اور اندھی تقلید کے تانے بانے سے تیارکردہ کوئی دیپاچہ سمجھ رہے ہوں۔
قارئین کرام....! اپنے معاشرے میں اکثر لوگوں کی سوچ کا جائزہ لیجئے۔
کیا یہ بات سامنے نہیں آتی کہ ہم کئی مواقع پرحقیقت کو سراب اورسراب کو حقیقت سمجھ کر حال کے لئے لائحہ عمل اورمستقبل کے لئے منصوبہ بنالیتے ہیں۔
اس نکتہ پر مزیدگہرائی میں جائیں تو واضح ہوگاکہ یہ انداز فکر معاشرے کے صرف ناخواندہ ،نیم خواندہ طبقات میں نہیں بلکہ ملک کی پالیسی بنانے والوں کی سطح تک پایا جاتا ہے۔
سرکاری اورنجی اداروں میں بد انتظامی ،بجلی پانی کے بحران، رشوت ، اقربا پروری وغیرہ پر کئی بار لوگ طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام تو بس اللہ توکل چل رہاہے۔
یہ سن کر میں کہتاہوں اگر پاکستان کانظام صحیح معنوں میں اللہ پر توکل کرکے چلایا جاتاتو اس زمین سے سونا نکلتا ، تیل، گیس اور بجلی کی فراوانی ہوتی۔زرخیز زمینوں سے حاصل ہونے والی پیداوار نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرتی بلکہ ہم کئی اجناس، ڈیری پراڈکٹس ، ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے بڑے ایکسپورٹر ہوتے۔
اگرہم اللہ پر توکل کے تقاضوں کو سمجھتے اور ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے شب وروز محنت اور دیانتداری سے گزارتے تو پاکستان کا شماردنیا کے دس بڑے ترقی یافتہ اور خوش حال ترین ممالک میں ہوتا۔
پاکستان میرا وطن ہے، میرا ماضی میر احال ،میرامستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔
قارئین کرام....! آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنے مستقبل کو محفو ظ و مامون بنانے کی خواہش رکھتاہے اور اکثر لوگ اس کے لئے کم یا زیادہ کوششیں بھی کرتے ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے تو اس کامطلب یہ بھی ہے کہ ہم پاکستان کومضبوط ، محفوظ ، ترقی کرتا ہوا اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لئے ہم سب کو قدرت پر توکل کرتے ہوئے صحیح سمت میں ،سچائی اور دیانت داری کے ساتھ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ابھی تو حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کم ہورہی ہے ،غربت، بے روزگاری اور جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ،بیماریاں پھیل رہی ہیں،معاشرے میں تنظیم نظرنہیں آتی۔
ہمارے معاشرے میں کچھ الفاظ یا چند اصطلاحات کے نامکمل یا غیر حقیقی معانی وضع کرلئے گئے ہیں۔ ا ن خود اخذکردہ معانی نے ہمارے سوچنے سمجھنے کے اندازکو اور ہماری شخصیت کو اکثر منفی طورپرمتاثرکیا ہے۔ان میں لفظ توکل بھی شامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر توکل کے جو معنی سمجھے جاتے ہیں ان سے تو بے عملی، بے چارگی اور بے بسی جیسے تاثرات سامنے آتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے اپنے آپ کو کمزور یا کم علم سمجھتے ہوئے اپنے معاملات کسی طاقتورکو یا زیادہ علم رکھنے والوں کو سونپ دئیے جائیں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
توکل کا مطلب ہے بھروسہ کرنا ۔ اس وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ قدرت کے قوانین اٹل ہیں۔ انسان اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے قوانین قدرت سے آگہی پائے اور ان قوانین کے مطابق عمل کرے تو اسے کامیابی لازماً ملے گی ۔
اللہ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے احکامات اور اس کائنات کے لیے اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کو سمجھا جائے اور ان قوانین پر عمل کیاجائے۔
سائنس دانوں کی سب دریافتیں قوانین قدرت سے آگہی کی وجہ سے ہی تو ممکن ہو پائی ہیں۔ سائنس کے سب حاصلات دراصل قوانین قدرت پر عمل کا نتیجہ ہیں۔
انسان نے فضاء میں پرواز کرنا چاہا تواس حوالے سے پہلے قوانین قدرت سے واقفیت حاصل کی۔ یہ سیکھا کہ ان قوانین پر کیسے عمل کیا جائے ، ریسرچ کی اور آخرکار ایک مشین بناڈالی، اس مشین کو ہم ہوائی جہاز کہتے ہیں۔
سائنس کی تمام دریافتیں، ٹیکنالوجی کی جدتیں، سادہ مشین سے لے کر بڑی بڑی پیچیدہ مشینوں کی تیاری انسان کی اس ریسرچ کا نتیجہ ہے جو اس نے قوانین قدرت کو سمجھنے اور ان کے مطابق عمل کرنا سیکھنے کے لیے کی۔
قوانین قدرت کو سمجھنا، ان پر عمل کرنا، ان قوانین پر بھروسہ کرنا دراصل قدرت پرتوکل ہے۔
جن لوگوں نے ،جن گروہوں نے اس انداز میں توکل اختیار کیا انہیں کامیابی ضرور ملی۔
انسان کی کوشش کانتیجہ خیر پر مبنی ہو، اس کے لیے سچائی اورامانت داری لازمی ہے۔ کامیابیوں پر انسان کا ردعمل شکر گزاری والا ہونا چاہیے۔
ہمارے ملک میں سیاستدانوں، افسروں، زمینداروں، وڈیروں، صنعتکاروں ، تاجروں اور دیگر طبقات کے طرزعمل کا مشاہدہ کیجیے اور اس کے نتیجہ میں ملک کے سیاسی ،معاشی، معاشرتی حالات کو دیکھئے۔ عوامی نمائدوں کے ایوان ہوں، نفاذ قانون کے ادارے ہوں ،فراہمی انصاف کے ذمہ دار ہوں غرض معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ہو وہاں سچائی اورامانت داری کس قدر ہے....؟
اپنے ملک کے حالات بہتر کرنے ہیں، عوام کی جان مال وآبرو کو تحفظ دینا ہے ، قوموں کی برادری میں معزز مقام بناناہے تو ہمیں توکل اختیار کرتے ہوئے سچ اور دیانت داری کو اپنانا ہوگا ۔کامیابیوں پر غرور نہیں شکر گزار ی اور عاجزی سیکھنا ہوگی۔
موسم کی خرابی کی وجہ سے دوران سفر کئی بار پرواز ناہموا ہوئی۔ ایک جگہ تو جہازہواکے تھپیڑوں کا سامنا کرتے ہوئے ڈولنے لگا ،دہشت اور خوف سے کئی مسافروں کی چیخیں نکل گئیں لیکن پھر پرواز ہموار ہوگئی۔ باقی سفر آرام سے گزرا۔
تھوڑی دیر بعد جہاز میں اعلان ہوا کہ اب ہم اترنے والے ہیں اپنی سیٹ بلیٹ باندھ لیں۔
ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت اور دورانِ سفر سیٹ بیلٹ باندھنا انسان نے قوانین قدرت کی پیروی سے سیکھا ہے۔
===========
توکل اور ترقی
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روزنامہ ایکسپریس ۔ 5 جولائی 2016ء
https://www.express.pk/story/549564/