لڑکیاں اور اسکوٹر سواری!
کیا ہمارے معاشرے میں قابلِ عمل ہے....؟
سوال:
میں روحانی ڈائجسٹ کی پرانی قاری ہوں، روحانی ڈائجسٹ میں آپ کا کالم ‘‘روحانی ڈاک ’’بہت توجہ اورشوق سے پڑھتی ہوں۔ اس کے علاوہ آپ کا کالم روشن راستہ بھی بہت اہتمام سے پڑھتی تھی۔ کالم روشن راستہ میں کئی سال پہلے ایک میڈیکل خاتون ریپریزینٹیٹو کا مسئلہ بھی شائع کیا گیا تھا۔ ان خاتون کو بہت سی دوسری خواتین کی طرح اپنے کام پر جانے آنے میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا تھا۔ان خاتون کومشورہ دیتے ہوئے آپ نے لکھا کہ خواتین اپنی آمدورفت میں سہولت کے لیے اسکوٹر چلائیں۔
آپ کا مشورہ اس لحاظ سے تو درست ہے کہ اس طرح بہت سی خواتین کا خصوصاً کام کرنے والی خواتین کاکنوینس پرابلم بڑی حد تک دور ہوجائے گا لیکن انتہائی ادب کے ساتھ میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے یہ مشورہ دیتے ہوئے اس کے قابل عمل ہونے کا بھی جائزہ لیایانہیں...؟
ہمارے معاشرے میں انتہائی ضرورت کے لیے بھی گھر سے باہرنکلنے والی اکثر خواتین کوکئی لوگوں کی جانب سے گھٹیا نظروں اور بُرے رویوں کا سامنا کرناپڑتاہے۔ اسکوٹر کی نسبت کار ایک محفوظ سواری ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی خواتین کار چلاتی ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے کہ ان خواتین کو خصوصاً جب وہ اکیلی ڈرائیو کررہی ہوں تو بعض اوقات چند موٹر سائیکل سوار اور دیگر مردوں کی نازیبا حرکات سے کس قدر ذہنی اذیت اٹھاناپڑتی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اکیلی اسکوٹر سوار خاتون کو سڑک پر بدتمیز اور بُرے اخلاق کے حامل مرد تنگ نہیں کریں گے....؟
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
کئی سال پہلے ایک خاتون میڈیکل ریپریزینٹیٹو نے مجھے لکھا تھا کہ انہیں ادویات کی فروخت کے لیے دوردراز علاقوں میں واقع کلینکس میں جانا ہوتا ہے۔ سارے کلینکس بس اسٹاپ کے قریب واقع نہیں ہوتے۔ بسوں اور ویگنوں میں سفر کیا جائے تو بیگ اٹھا کر کافی دورتک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اس سے تھکن بھی ہوتی ہے اوروقت بھی کافی لگتاہے۔ اگر وقت اور قوت کو بچانے کے لیے ٹیکسی میں سفر کیا جائے تو ان کا کرایہ افورڈ نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں ورکنگ خواتین کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ کام پر جانے والی بےشمار خواتین بسوں اور ویگنوں میں سفرکرتی ہیں۔ ایک قلیل تعداد میں خواتین اپنی آمد ورفت کے لیے خود اپنی کار بھی ڈرائیو کرتی ہیں۔ کار ڈرائیو کرنے والی اکثر خواتین کو بھی سڑک پر بعض مردوں کی جانب سے نازیبا رویوں کی شکایت رہتی ہے۔
خواتین جس احترام کی حق دار ہیں ہمارے معاشرے میں بہت سے مردوں کی جانب سے اس کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ یہ صورتحال ناصرف خواتین کے لیے ذہنی اذیت کا سبب ہے بلکہ مہذب مرد بھی اسے پسند نہیں کرتے۔
محترم بہن....!
ایک طرف تو یہ افسوس ناک صورتحال ہے دوسری طرف یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ چند مردوں کی بری حرکات کی وجہ سے عورتیں معذور ہوکر تو نہیں رہ گئیں۔ لاکھوں خواتین میڈکل، انجینئیرنگ، صحافت، فنون لطیفہ، اسلامک اسٹیڈیز اور دیگر شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
لاکھوں خواتین، دفتروں، کارخانوں اور کھیتوں میں کام کرکے اپنے گھر کی معاشی کفالت میں اپنا حصہ ادا کررہی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیمی اورعملی میدانوں میں شمولیت ہمیشہ سے تو نہیں ہے۔ خواتین کی ان شعبوں میں جتنی شمولیت آج ہے ساٹھ ستر سال پہلے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا۔
جب خواتین تعلیم اورعملی شعبوں میں آگے آئیں تو انہیں مزاحمت اوررکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اگر ہماری خواتین ان رکاوٹوں سے گھبرا کر گھر بیٹھ جاتیں توکیا آج پاکستان میں کروڑوں خواتین زیورِعلم سے آراستہ نظرآتیں....؟
کوئی بھی طبقہ خواہ وہ مرد و زن کا طبقہ ہو یا زندگی کسی بھی شعبے سے متعلق افراد کا طبقہ ہو اگر مخالفتوں سے اوررکاوٹوں سے گھبرا جائے گا تو وہ کبھی بھی آگے بڑھ کر اپنا حق حاصل نہیں کر پائے گا۔
محترم بہن....!
آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اسکوٹر چلانے کا مشورہ دینا اس لیے درست نہیں کیونکہ سڑکوں پراوباش نوجوانوں کے رد عمل کا ڈر ہے لیکن کیاکارچلانے والی خواتین اس قسم کے منفی رویوں سے بالکل محفوظ ہیں....؟
سوسائٹی میں تبدیلی کا آغاز ہو تو شروع شروع میں اس کی مزاحمت ہوتی ہے،مذاق اڑایا جاتا ہے، ڈرایا جاتاہے لیکن اگر مثبت تبدیلی کامل استقامت کے ساتھ جاری رہے تو پھر مخالف لوگ بھی بتدریج اسے قبول کرنا شروع کردیتے ہیں۔