Child Misbehavior and Weak Personality
ہماری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں۔ ہماری ایک بیٹی ہے جو اس وقت نو سال کی ہے۔ میری بیٹی بہت ضدی ہے۔ کسی چیز کی خواہش کردے اوروہ پوری نہ ہو تو غصہ میں پوراگھر سرپراٹھا لیتی ہے۔چیزیں توڑناشروع کردیتی ہے۔
ایک دن اس نے ایک فرمائش کی ،وہ فرمائش بر وقت پوری نہ ہونے پرغصے میں اپنے کمرے میں جاکر اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ لیا۔ہم دونوں میاں بیوی نے بہت مشکلوں سے اُسے قابو میں کیا۔
چھوٹے بچوں کے ذہن اور مزاج پرکئی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت اور ان کی شخصیت کی مثبت اور ٹھوس بنیادوں پر تعمیر والدین اور دیگر اہل خانہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے، تاہم والدین زیادہ ذمہ دار ہیں۔
بچوں کو سکھانے کا ایک طریقہ تویہ ہے کہ مختلف مواقع پرانہیں بتایا جائے کہ فلاں کام اچھا ہے اس لیے یہ کام کرو ، فلاں کام بُرا ہے اس لیے یہ کام نہ کرو۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق اورمحبت و احترام سے ہیش آتے ہوئے اپنے گھر میں ایک اچھاماحول تشکیل دیں۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے غیر محسو س طورپر اچھی عادتیں اور اعلیٰ اخلاق اپنالیتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زبان سے کہہ کر کچھ سکھانے کی نسبت ماحول کا اثر انسان پر زیادہ ہوتاہے۔
گھرمیں اچھا ماحول قائم کرنے کے لیے اہل خانہ میں باہمی عزت و احترام لازمی ہے۔
اللہ کےکلام قرآن پاک کی آیات، معلم اعظم، نبی رحمت، حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے اچھے ماحول کی بنیاد یں بہ آسانی مستحکم کی جاسکتی ہیں۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کرکے والدین اور سب گھر والوں کو بہت خوشی ہوتی ہے تاہم یہ خیال رکھنا چاہیے کہ یہ لاڈ پیار بچے کی شخصیت کمزور کرنے کا سبب نہ بنے۔ بچوں سے لاڈ پیار کرتے ہوئے والدین یا گھر کے دوسرے افراد عموماً بچے کی سب باتیں مانتے چلے جاتے ہیں۔ بڑوں کی اس روش سے بچہ اپنی ہر بات منوانا اپنا حق سمجھنے لگتاہے۔ اس کی بات نہ مانی جائے تو کبھی منہ بسورکر ،کبھی روکر یا چیخ چلا کر والدین اورگھر کے دوسرے افراد سے اپنی بات منوالیتاہے۔ بچوں کی باتوں کو اس طرح سے مانتے چلے جانا بچوں کو پہلے ضدی پھر ہٹ دھرم پھر بدتمیز بناسکتاہے۔ بچوں کی اچھی ٹریننگ کے لیے ضروری ہے کہ انہیں نا سننے کا عادی بھی بنایا جائے ۔
اس حوالے سے تین انداز اختیار کرنے چاہیئں
1- بچے کی بات مان لی جائے
2- بچے کی بات مشروط طور پر مانی جائے یعنی تم فلاں کام کرو گے تو تمہاری بات پوری کردی جائے گی۔
3- بچے کی بات نہ مانی جائے۔ بچے کی شخصیت کی بہتر تعمیر کے لیے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھادینی چاہیے کہ جس بات سے منع کردیا گیا ہے اس پر اسے والدین کے سامنے اصرارنہیں کرنا۔
ان تدابیر کے ساتھ بطورروحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ انعام (6) کی آیت نمبر54، :
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بیٹی کا تصورکرکے دم کردیں اوراللہ تعالیٰ کے حضوردعاکریں۔
سفید چکنے کاغذ پرزعفران اورعرق گلاب سے روشنائی بنا کر تین سطروں میں سورہ کوثر
لکھ کربیٹی کے گلے میں پہنادیں۔
بیٹی کی طرف سے حسب استطاعت صدقہ کردیں اورہرجمعرات کے دن کسی مستحق کو کھانا کھلادیں ۔
بچے ضدی کیوں ہو جاتے ہیں؟
بچوں کی شخصیت کو کمزور Weak Personality ہونے سے کیسے بچایا جائے
مسئلہ:
محترم ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی صاحب ....!ہماری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں۔ ہماری ایک بیٹی ہے جو اس وقت نو سال کی ہے۔ میری بیٹی بہت ضدی ہے۔ کسی چیز کی خواہش کردے اوروہ پوری نہ ہو تو غصہ میں پوراگھر سرپراٹھا لیتی ہے۔چیزیں توڑناشروع کردیتی ہے۔
ایک دن اس نے ایک فرمائش کی ،وہ فرمائش بر وقت پوری نہ ہونے پرغصے میں اپنے کمرے میں جاکر اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ لیا۔ہم دونوں میاں بیوی نے بہت مشکلوں سے اُسے قابو میں کیا۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
محترم بہن.... وظیفہ بتانے سے پہلے میں آپ کی وساطت سے والدین کی خدمت میں چند نکات پیش کرنا چاہتا ہوں،چھوٹے بچوں کے ذہن اور مزاج پرکئی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچوں کی اچھی تربیت اور ان کی شخصیت کی مثبت اور ٹھوس بنیادوں پر تعمیر والدین اور دیگر اہل خانہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے، تاہم والدین زیادہ ذمہ دار ہیں۔
بچوں کو سکھانے کا ایک طریقہ تویہ ہے کہ مختلف مواقع پرانہیں بتایا جائے کہ فلاں کام اچھا ہے اس لیے یہ کام کرو ، فلاں کام بُرا ہے اس لیے یہ کام نہ کرو۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق اورمحبت و احترام سے ہیش آتے ہوئے اپنے گھر میں ایک اچھاماحول تشکیل دیں۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے غیر محسو س طورپر اچھی عادتیں اور اعلیٰ اخلاق اپنالیتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زبان سے کہہ کر کچھ سکھانے کی نسبت ماحول کا اثر انسان پر زیادہ ہوتاہے۔
گھرمیں اچھا ماحول قائم کرنے کے لیے اہل خانہ میں باہمی عزت و احترام لازمی ہے۔
اللہ کےکلام قرآن پاک کی آیات، معلم اعظم، نبی رحمت، حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے اچھے ماحول کی بنیاد یں بہ آسانی مستحکم کی جاسکتی ہیں۔
چھوٹے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کرکے والدین اور سب گھر والوں کو بہت خوشی ہوتی ہے تاہم یہ خیال رکھنا چاہیے کہ یہ لاڈ پیار بچے کی شخصیت کمزور کرنے کا سبب نہ بنے۔ بچوں سے لاڈ پیار کرتے ہوئے والدین یا گھر کے دوسرے افراد عموماً بچے کی سب باتیں مانتے چلے جاتے ہیں۔ بڑوں کی اس روش سے بچہ اپنی ہر بات منوانا اپنا حق سمجھنے لگتاہے۔ اس کی بات نہ مانی جائے تو کبھی منہ بسورکر ،کبھی روکر یا چیخ چلا کر والدین اورگھر کے دوسرے افراد سے اپنی بات منوالیتاہے۔ بچوں کی باتوں کو اس طرح سے مانتے چلے جانا بچوں کو پہلے ضدی پھر ہٹ دھرم پھر بدتمیز بناسکتاہے۔ بچوں کی اچھی ٹریننگ کے لیے ضروری ہے کہ انہیں نا سننے کا عادی بھی بنایا جائے ۔
اس حوالے سے تین انداز اختیار کرنے چاہیئں
1- بچے کی بات مان لی جائے
2- بچے کی بات مشروط طور پر مانی جائے یعنی تم فلاں کام کرو گے تو تمہاری بات پوری کردی جائے گی۔
3- بچے کی بات نہ مانی جائے۔ بچے کی شخصیت کی بہتر تعمیر کے لیے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھادینی چاہیے کہ جس بات سے منع کردیا گیا ہے اس پر اسے والدین کے سامنے اصرارنہیں کرنا۔
ان تدابیر کے ساتھ بطورروحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ انعام (6) کی آیت نمبر54، :
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌO
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بیٹی کا تصورکرکے دم کردیں اوراللہ تعالیٰ کے حضوردعاکریں۔
سفید چکنے کاغذ پرزعفران اورعرق گلاب سے روشنائی بنا کر تین سطروں میں سورہ کوثر
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ O
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ O
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO
لکھ کربیٹی کے گلے میں پہنادیں۔
بیٹی کی طرف سے حسب استطاعت صدقہ کردیں اورہرجمعرات کے دن کسی مستحق کو کھانا کھلادیں ۔