سگے بھائیوں نے گھر سے نکال دیا
مسئلہ:
ہم چاربہنیں اورتین بھائی ہیں۔میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔آج سے بیس سال پہلے والد صاحب کوفالج ہوا ۔ کچھ عرصے بعد وہ فوت ہوگئے۔ان کی موت کے بعد گھر داری اوربہن بھائیوں کی ذمہ داریاں مجھ پرآن پڑی۔
اس وقت میں نے تعلیم کو خیر باد کہا اورمعاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے مڈل ایسٹ آگیا۔ میں نے اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم مکمل کروائی ۔اس کے بعد بہن بھائیوں کی شادی کروائی ۔اب وہ سب ماشاء اللہ بچوں والے ہیں۔
میں فرمانبرداری سے ساری ذمہ داریاں نبھاتارہا۔والدہ سے جب بھی اپنی شادی کی بات کرتا تو وہ کہتیں کہ میں تمہارے لیے بہت ہی اچھی لڑکی تلاش کررہی ہوں۔اس طرح وقت گزرتارہا اورمیری عمر چالیس سال سے زیادہ ہوگئی۔
پچھلے سال میرا Contractتجدید نہیں ہوا تومیں واپس اپنے ملک آگیا۔
میری آمدنی سے دومنزلہ مکان بنایا گیاہے۔ پہلی منزل پر منجلہ بھائی اور گراؤنڈ فلورپر چھوٹا بھائی اوروالدہ رہتی ہیں۔مجھے والدہ کے کمرے میں جگہ دی گئی ۔میں نے والدہ صاحبہ سے کہا کہ میں نے بیس سال محنت کرکے یہ گھر بنایا اور بہن بھائیوں کی شادی کی ۔میرے لیے اس گھر میں ایک کمرے کی جگہ نہیں ہے....؟
دوسرے دن میں نے اپنی والدہ سے کسی کاروبار کے لیے کچھ رقم مانگی توپتا چلا کہ والدہ کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔میری محنت کے پیسے کو پانی کی طرح اس گھرمیں بہا دیا گیا ۔چند ماہ میں ہی دونوں بھائیوں نے مجھے اتنا ذہنی دباؤ کا شکار کردیاکہ مجبوراً مجھے اس گھر سے بے سروسامان نکلنا پڑا۔میری ماں نے بھی اس معاملہ میں میرا ساتھ نہیں دیا۔
میں نے ایک جگہ ملازمت کرلی ہے اورکرایہ کے مکان میں رہ رہا ہوں ۔میں پھر سے اپنے اچھے مستقبل کے لیےجدوجہد کررہاہوں لیکن ماضی کی باتیں ذہن سے نہیں نکلتیں ۔میں بہت بے قرار وبے چین رہنے لگاہوں۔
میں نے تو بڑے خلوص اورمحبت کے ساتھ سب کی خدمت کی تھی پھر میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا....؟ کیا میں نے اپنی زندگی کے بیس سال ضائع کردیئے ہیں ....؟
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
محترم بھائی.... بات تلخ توہے مگر سچ یہی ہے کہ آپ کے بہن بھائیوں کی نظروں میں آپ کی خدمات کی اب ذرہ برابر وقعت نہیں رہی۔آپ کی ذات ان کے لیے مزید پسیوں کے حصول کا ذریعہ نہیں رہی اس لیے اب ان کی طرف سے آپ کے لیے چاہت اوراحترام کے رسمی مظاہرے بھی غیر ضروری سمجھے گئے۔
آپ کی والدہ کو اس بڑھاپے میں جس دیکھ بھال کی ضرورت ہے وہ آپ کی طرف سے انہیں نہیں مل سکتی اس لیے ان کا جھکاؤ بھی اپنے مالدار بیٹوں کی طرف ہے۔
اپنے والد کے انتقال کے بعد گزشتہ بیس برسوں میں آپ نے اپے بہن بھائیوں کے لیے جس محنت ، خلوص اورایثار کا مظاہرہ کیا وہ انسانی فطرت کا ایک پہلو ہے۔آپ کے بہن بھائیوں نے آپ کے ساتھ جس لالچ ،خودغرضی اوربے مروتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ انسانی فطرت کا ایک الگ پہلو ہے۔ یا یوں سمجھیئے کہ تصویر کا ایک رخ آپ کا رویہ ہے اورتصویر کا دوسرارخ آپ کے بہن بھائیوں کا طرزعمل ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے میں دونوں طرح کے طرزعمل کامشاہدہ ہوتاہے۔ اچھائی کااظہار بھی ہوتاہے ۔اچھے لوگوں کو ڈس اپائمنٹ بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔برائیوں کا مشاہدہ بھی ہوتاہے۔ برائیوں کے باوجود کئی لوگ بظاہر پھلتے پھولتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
اچھائی کرنا،لوگوں کے کام آنا یہ ایک صفت ہے۔ اچھائی کا یادر نہ رکھنا ،اچھائی کا بدلہ برائی سے دینا یہ بھی ایک صفت ہے۔
ان صفات کا تعلق آدمی کی سوچ ،ملنے والی تربیت ، معاشی زندگی میں اس کی اہلیت اوراللہ تعالیٰ پر اس کے بھروسہ اورتوکل سے ہے۔
آپ کے بہن بھائیوں نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا ۔ میں آپ سے یہ تو نہیں کہتا کہ ان بری باتوں کوبھول جائیے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ان کا اوراپنامعاملہ اللہ پر چھوڑ دیجئے۔اپنی ماں کے لیے دعا کیجئے کہ ان کا بڑھاپا آرام سے گزرے۔ان کی طرف سے آپ کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوئیں انہیں معاف کردیجئے اور ان کے لیے دعا کرتےرہئیے۔
عشاء کی نماز کے بعد اکیس مرتبہ سورہ حم سجدہ (41) کی آیت 35 :
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍO
سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں اور صبر وسکون کی دعا کریں۔