مرعوب و مغلوب قوم....؟؟
فکر کا بگاڑ۔ رد عمل کی نفسیات....؟؟
الحمد للہ ہم دینِ فطرت اسلام کے پیروکار ہیں۔ اس دین کے عطاکردہ نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہرزمانہ اور ہر دور کے لئے قابلِ عمل اور باعثِ کامیابی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود گزشتہ چند صدیوں سے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب کے علوم و فنون سے مرعوب اور اس کی سیاسی و فوجی طاقت سے مغلوب ہیں۔ کئی سوسالہ مرعوبیت ا ور مغلوبیت کے باعث محرومی، ردِّعمل اور مایوسی کے جذبات ہماری قومی نفسیات کا حصہ بن گئے ہیں۔
اسلام ایک نظریۂ حیات ہے۔ فطرتِ انسانی کے ساتھ اس نظریۂ حیات کی مطابقت ہر دور میں قائم رہتی ہے۔ انسان کے علمی و شعوری ارتقاء کی وجہ سے دورِ حاضر کے انسان اور اسلام کے درمیان کوئی تعطل، کوئی جمود واقع نہیں ہوتا۔ ہر دور میں انسانی فطرت کے ساتھ مطابقت اسلامی نظریۂ حیات کی زبردست قوت اور اس کے پیروکاروں کی بہت بڑی طاقت ہے۔
پھر آج کا مسلمان کہیں مرعوب، کہیں مغلوب کیوں ہے....؟ ہماری پختہ رائے یہ ہے کہ اس کی وجہ اسلام کے عطاکردہ نظام کی کوئی خامی یا نقص نہیں بلکہ اس کا بڑا سبب اسلامی اصولوں اور احکامات کی روح کو سمجھنے کے بجائے مسلمانوں کی جانب سے محض الفاظ پر نظر رکھنا ہے۔ اِن الفاظ کے اطلاق میں بھی موقع محل کی مناسبت سے اسلامی تعلیمات کو پوری طرح مدِّنظر نہیں رکھا گیا۔
ماضی میں اس طرزِعمل کی مثال برصغیر پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد مسلمان مذہبی دانشوروں کا ردِّعمل ہے۔
آج اس ردِّعمل کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے حاملین یورپ کی جانب سے علمی و فنی ترقی کی اہمیت و اثرات سے ناواقف اور زمانہ کی بصیرت سے عاری تھے۔ اس وقت ان دانشوروں کی تجویز کردہ حکمت عملی اُمت مسلمہ کے لئے تحفظ و نجات کا ذریعہ بننے کے بجائے جمود اور تنزلّی کا ذریعہ بن گئی۔ مسلم قوم علمی و فکری پسماندگی کا شکار ہوگئی۔ اس فکری پسماندگی نے تضادات اور کنفیوژن کو جنم دیا۔
اس صورتحال کا سبب اسلامی احکامات کی محدود ذہن کے ساتھ کی جانے والی تعبیر و تشریحات تھیں۔ ارشادِنبویﷺ کے مطابق مومن کے لئے زمانہ کی بصیرت ضروری ہے۔ برصغیر کے بعض مذہبی دانشوروں میں زمانہ کی بصیرت سے محرومی کے باعث مسلم قوم ذہنی طور پر جدید و قدیم کی نہایت نقصان دہ تقسیم کا شکار ہوگئی۔
مسجد کو اسلامی معاشرہ میں مرکز یا نیوکلیئس کا درجہ حاصل ہے۔ مسلم معاشروں میں مسجد کا یہ درجہ ہر زمانہ میں برقرار رہنا چاہئے۔ دورِ حاضر سائنس و ٹیکنالوجی، ذرائع ابلاغ کی ترقی اور فکری آزادی کا دور کہلاتا ہے۔ مسلمانوں میں ذہنی تقسیم کے نتائج اس طرح ظاہر ہوئے کہ مسجد کے معاملات زیادہ تر قدامت پسندوں کے ہاتھ میں آگئے۔ جدیدتعلیم یافتہ طبقہ کا مسجد سے تعلق محض نمازی وہ بھی زیادہ تر جمعہ کے نمازی کی حد تک رہ گیا۔ اس عمل سے مسلم معاشرہ میں مسجد کی مرکزی حیثیت کا مقام شدید متاثر ہوا جبکہ حکومت ، صنعت و تجارت، اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن جدید طبقہ نے اپنے اختیار میں کرلئے۔
اسلامی تعلیمات سے حاصل ہونے والی فہم سے جائزہ لیا جائے تو مسلم معاشرہ میں ہمیں ان دونوں طبقات کی طرزِ فکر اور طرزِعمل غلط نظر آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جدید و قدیم حوالوں سے ذہنی و علمی تقسیم ہونی ہی نہیں چاہئے تھی لیکن اگر یہ واقع ہوچکی تھی تب بھی اس کے منفی اثرات سامنے آجانے پر ابتداء میں ہی اصلاحِ احوال کے اقدامات کرلینے چاہئے تھے۔ اس تقسیم پر ہر ایک کا اپنے آپ کو صحیح سمجھنا اور اس پر اصرار کرتے رہنا بھی مسلم معاشرہ میں جدید و قدیم دونوں علوم کے حاملین کی غلطی تھی۔
ہر دور ماضی کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہوتا ہے لیکن اٹھارویں صدی کے بعد جدید علوم و فنون کی وجہ سے انسان کے طرزِ زندگی اور تہذیب و تمدن میں ماضی کے ہر دور سے زیادہ بلکہ بے شمار تبدیلیاں آئیں۔
مسلم قوم میں جدید و قدیم کی تقسیم سے مرتب ہونے والے اثرات سے ترقی یافتہ دنیا میں اس تاثر کو پھیلایا گیا کہ اسلام دورِ جدید کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ خلاف واقعہ قائم کئے جانے والے اس تاثر کی تصدیق کے لئے خود مسلم معاشروں سے ہی غلط تعبیریں اور شہادتیں فراہم کی گئیں۔ ان عوامل کی بہت بڑی ذمّہ داری ان علماء پر عائد ہوتی ہے جو زمانہ کی بصیرت سے محروم رہے، جن کی نظر میں دین کے تقاضے ظاہرداری اور روایت کی پیروی کرتے رہنے سے پورے ہوجاتے ہیں۔ ظاہرداری کی تبلیغ مسلم معاشرہ پر کچھ اس شدت سے اثرانداز ہوئی کہ دین اسلام کو مطلوب اصل انسان کا تشخص بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں نہ رہا۔
فکری لحاظ سے جدید و قدیم کی تقسیم سے مسلم معاشرہ میں ایک اور فرق سامنے آیا ہے۔ جدید علوم کی تحصیل کرنے والے اعلیٰ حکومتی عہدوں تک پہنچے۔ صنعت و تجارت کے شعبے ان کے ہاتھ میں آئے۔ ذرائع ابلاغ پر دورِجدید کی مذہب سے لاتعلق فکر کے اثرات نمایاں ہوئے۔ دوسری طرف قدیم رواج پر اسلامی علوم کی تحصیل کرنے والوں نے مسجد کی امامت و اذان، مدرسوں میں درسِ نظامی اور دیگر قدیم علوم کی تعلیم دینے، مسلمان گھرانوں میں نومولود بچہ کے کان میں اذان دینے، نماز جنازہ پڑھانے، کسی خوشی یا غم کے موقع پر قرآن خوانی یا درس کی محفلوں میں تقاریر یا دعا کروانے کے فرائض سنبھالے۔ کچھ صلاحیتیں مسئلے مسائل بتانے میں صرف ہوئیں۔ جن میں زیادہ تر نکاح طلاق یا وراثت کے مسائل شامل ہوتے ہیں۔
ان مثالوں کے باوجود یہاں میں ایک سوال اپنے معزز قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ’’کیا آج اُمتِ مسلمہ کی مرعوبیت اور مغلوبیت کی تمام تر ذمہ داری قدامت پسند علماء کے اندازِ فکر و عمل پر عائد ہوتی ہے.... ؟‘‘
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
اس سوال پر میرا جواب ہے .... جی نہیں....!
ٹیپو سلطان کی شہادت اور خلافتِ عثمانیہ کے زوال سے لے کر آج تک اُمت مسلمہ کو درپیش حالات اور قوم کے ردِّعمل کا جائزہ اِسی نتیجہ کا باعث ہے۔ اُمت مسلمہ آج جس انحطاط اور تنزلی میں مبتلا ہے اس میں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کا کنٹری بیوشن، قدامت پسند علماء سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رائے کے اظہار کا مقصد مذہبی علماء کی خوشنودی حاصل کرنا اور تعلیم یافتہ طبقہ کو لعن طعن کرنا ہر گز نہیں ہے۔ سیدھا سا اُصول ہے کہ جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس مسئلہ کے تمام پہلوئوں کا بے لاگ اور غیر جانبداری سے مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے۔ اس سے حاصل شدہ نتائج کو سامنے رکھ کر مسئلہ کے حل کے مختلف امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ اس اصول کے تحت آئیے دیکھتے ہیں کہ
مسلم معاشرہ میں مولوی خواہ ماڈرن سوچ کا حامل ہو یا قدامت پسند ہو کس قدر اثر و رسوخ رکھتا ہے....؟
پاکستانی عوام کی غالب اکثریت دین اسلام کے ساتھ شدید وابستگی رکھتی ہے۔ ارکانِ اسلام یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کی ادائیگی میں رہنمائی یا امامت کے لئے ہم مولوی صاحب کی طرف ہی دیکھتے ہیں لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ جو لوگ مولوی صاحب کی امامت میں نماز ادا کرتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ اپنے معاملات بھی مولوی صاحب کے خیالات یا تقریروں کے زیرِ اثر رکھیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال ٹیلی ویژن ہے۔ علماء کی اکثریت ٹیلی ویژن کی مخالف رہی ہے۔ کئی علماء ٹیلی ویژن کے خلاف مساجد میں تقریریں کرتے رہے لیکن ان کے سامعین میں ٹیلی ویژن سیٹ گھروں میں رکھنے والوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی رہی۔ مذہبی علماء کے ایک بڑے طبقہ نے معاشی میدان میں عورت کی شمولیت کی سخت مخالفت کی ہے۔ بہت سے علماء لڑکیوں کی جدید تعلیم کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ علماء کی مخالفت کے باوجود آج مسلم خواتین حصولِ تعلیم کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم خواہ ماڈرن کہلائیں یا قدامت پسند جو کرنا چاہتے ہیں وہ مولوی کی مخالفت کے باوجود کرتے ہیں۔ مولوی کے لئے معاشرہ میں بہت زیادہ احترام کے جذبات کے باوجود معاشرہ کا موثر حصہ مولوی کی تقلید (Follow) نہیں کرتا۔ ہمارے معاشرہ کا یہی موثر حصہ اس معاشرہ کی صورت گری کی اہلیت واستعداد رکھتا ہے ہمارے انحطاط کی ذمہ داری صرف مذہبی علماء پر عائد نہیں ہوتی، یہ علماء کے ساتھ ہمارے دانشوروں، اساتذہ، سیاستدانوں ، حکمرانوں پر، حسبِ مراتب اور حسبِ حیثیت سب پر عائد ہوتی ہے۔ اس تنزلی کو صعود میں، اس زوال کو عروج میں بدلنا بھی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ہمارا مسئلہ ہماری فکر کا بگاڑ ہے۔ فکری کجی نے آج ہماری ملت کی تعمیر میں خرابیاں پیدا کردی ہیں۔ ہماری فکر کی اصلاح ہوگی تو ہمارا ہر قدم درست سمت میں ٹھیک قوت کے ساتھ اُٹھے گا۔ فکر میں خرابی ہوگی تو ہم بھٹک جائیں گے۔ جتنا چلیں گے منزل سے اتنا دور ہوتے جائیں گے۔ قوت بھی ضائع ہوگی، وقت بھی اور ہمت بھی....
فکر کی اصلاح کے بعد سب سے زیادہ ترجیح جس کام کو ملنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم ردِّعمل کی نفسیات سے باہر آئیں۔ اپنے لئے ایک لائحہ عمل طے کریں۔ ردِّعمل کے بجائے عمل کی راہیں متعین کریں۔
ہمیں غیر قوموں سے گلے شکوے پر مبنی باتیں بھی چھوڑنا ہوں گی۔
ہم پہلے کسی قوم کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں پھر کمزوری کے ساتھ گلہ کرتے ہیں کہ ہائے فلاں ملک ہماری قوم کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دشمن قوم ہمارے خلاف منصوبے بنائے گی یا ہمیں ہار پھول تحفہ میں بھیجے گی۔
دشمن تو سازشیں ہی کرے گا اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔
اب یہ ہمارا کام ہے کہ قوم کے ایک ایک فرد کی تربیت اس طرح کریں کہ دشمن کی کوئی سازش کارگر نہ ہوسکے یا پھر اپنے اندر اتنی قوت پیدا کریں کہ دشمن ہمارے خلاف سازش کرنے سے پہلے سوبار سوچے۔
موجودہ دور کی قوت محض ہتھیاروں کے انبار میں پنہاں نہیں ہے۔ علم و ٹیکنالوجی، مضبوط معیشت، منظم معاشرہ، معاشرہ میں اظہارِ رائے کی آزادی یہ سب عوامل بھی آج قوت کے زُمرہ میں آتے ہیں۔
اسلام دنیا کے تمام انسانوں کا ، ہر خطہ میں بسنے والوں کا، ہر قوم کا حقیقی خیرخواہ ہے۔ قرآن دنیا کے لئے امن و سلامتی کا پیغام ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے اُسوئہ حسنہ پر عمل، انسانیت کے احترام اور شرف آدمیت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
اگر ہم سنت نبویﷺ کی حکمتوں سے واقفیت حاصل کرلیتے تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ تاہم اب بھی ہم اپنا حال بہتر بناسکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ دورِنبویﷺ اور دورِخلافتِ راشدہ میں صحابہ کرامؓ کے طریقہ اجتہاد کو سمجھ کر آج کی ضرورتوں کے مطابق اس سے استفادہ کیا جائے۔
جیسی ہماری کوشش ہوگی ویسی ہی کامیابی میسر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىO
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ (سورۂ نجم )
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے کالم حق الیقین مطبوعہ 2004ء سے اقتباسات