پاکستان میں جہالت و مفلسی کیوں ہے؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی

پاکستان میں جہالت و مفلسی کیوں ہے؟

اللہ نے ماں کی دعا قبول نہ کی 

خودداری، غیرت و حمیّت کا مطالبہ


کتنی ہی مدت گزرچکی ہے دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں آباد مسلمان اپنے اعمال کی اصلاح اور اپنے حالات کی بہتری کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کررہے ہیں۔ بحیثیت اُمت یا قوم مسلمانوں کی دعائوں میں سرفہرست غیروں کے غلبہ سے نجات اور ان کے شر سے حفاظت ہے۔ 
دعائوں کی قبولیت کے بارے میں کئی روایات بیان کی جاتی ہیں۔ خانہ کعبہ کے سامنے دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ روزہ دار کی افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں کئی اوقات قبولیتِ دعا کے لئے متبرک بتائے جاتے ہیں۔ اپنی نیند چھوڑ کر تہجد ادا کرنے والوں کی دعا قبول ہوتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں ، لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کی برسہا برس سے نہایت خشوع وخضوع سے مانگی گئی بعض اہم دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں۔ یہ دعائیں کبھی مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے سامنے نماز ادا کرکے مانگی جاتی ہیں۔ کبھی بیت اللہ  کا طواف کرتے ہوئے، کبھی افطار کے وقت اور کبھی تہجد ادا کرنے کے بعد۔۔۔۔۔ غرضیکہ قبولیت دعا کے لئے جتنے متبرک مقامات ہیں اور جو بھی متبرک اوقات ہیں ان سب میں مسلمان قوم خوب گڑگڑاکر،   رو رو کر، آنسوئوں کا نذرانہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی سربلندی اور فتح مندی کے لئے دعائیں کر رہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن نتیجہ۔۔۔۔۔؟ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ 
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہمارا یہ چاہنا کس بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی اقوام میں ہمیں سربلندی عطا فرمائے۔۔۔۔؟ اس سوال کا جواب تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اللہ  پر اللہ  کے رسولﷺ اور اللہ  کی کتاب پر ہمارا پختہ ایمان ہے۔ اہلِ ایمان سے اللہ  کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابیاں عطا فرمائے گا۔
وَعَدَ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
 لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ان سے اللہ  کا وعدہ ہے کہ انہیں زمین کا حاکم بنادے گا 
جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا۔(سورۂ نور:  55)

قرآن پاک میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: جو ایمان لائے اور متقی رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے 
اور آخرت میں بھی۔ اللہ  کی باتیں بدلتی نہیں ہیں۔ (ایمان والوں کے لئے) یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (سورۂ  یونس)

ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حقدار ہیں۔ چند صدیاں پہلے ہمارے اسلاف کو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی وجہ سے ہی دنیا میں سربلندی اور امامت عطا فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے سب کچھ اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ  کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ ہمیں آج دوبارہ دنیا کی امامت و قیادت پر فائز کردے۔
بے شک اللہ  کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہوجا اور وہ کام ہوجاتا ہے۔ 

اِنَّمَآ اَمْرُهٝٓ اِذَآ اَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَّقُوْلَ لَـهٝ كُنْ فَيَكُـوْنُ

ترجمہ: اللہ  کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو اور وہ ہوجاتی ہے۔ (سورۂ  یٰسین: 82)

اب یہ کام خواہ کسی ذرّہ کی تخلیق ہو، کسی نوع کی تخلیق ہو، ستاروں و سیاروں کی تخلیق ہو یا کسی قوم کے دنوں کی تبدیلی یعنی عروج و زوال کا معاملہ ہو۔ سب کچھ اللہ  کے ہاتھ میں ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ بات ہمیشہ مدنظر رہنی چاہئے کہ کائنات میں موجود ہر تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی نظام مرتب کیا ہے۔ کچھ اصول، قاعدے ضابطے مقرر فرمائے ہیں۔ اللہ کی مخلوقات میں سے جو بھی ان اصولوں، قاعدوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرے گا وہ خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔




<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

 مچھلی کی زندگی کا دار و مدار پانی پر ہے۔ مچھلی خشکی پر آکر پانی کے بغیر اپنی زندگی برقرار رکھنا چاہے تو اللہ  کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ایسا نہیں ہوگا۔ اب کوئی مچھلی خشکی پر آکر جتنی چاہے دعائیں کرلے اپنی زندگی کی بقاء کے لئے اسے بہرحال پانی پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔ کیا مچھلی کو پانی کے بغیر زندہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے۔۔۔۔۔؟ یقینا ہے۔ اگر اللہ  چاہے تو مچھلی پانی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بنائے ہوئے نظام کے مطابق اس دھرتی پر مچھلی کو پانی کے بغیر زندہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح انسان نظامِ تنفس کے لئے ہو اکا انتظام کئے بغیر پانی کے اندر چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ کوئی انسان نہر، دریا  یا سمندر میں بغیر مصنوعی ذرائع کے زیرِ آب رہ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی زندگی کی دعائیں کرنا شروع کردے اور چاہے کہ اللہ  میری دعائیں سن کر مجھے باقی تمام زندگی پانی میںزندہ رکھے تو کیا ایسا ہوگا۔۔۔۔۔؟ کسی انسان کو زیرِ آب زندہ رکھنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہرگز نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ہی کوئی انسان پانی میں ڈوب کر زندہ نہیں رہ پاتا۔ 
ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں شیرخوار بچے اسہال اور دوسری شدید بیماریوں کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کسی معصوم بچہ کی ہلاکت پر شدتِ غم سے اس کی ماں کا کیا حال ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ اپنے معصوم بیمار بچہ کو جانکنی کے عالم میں دیکھ کر ماں کی دلخراش چیخیں اور دعائیں کیا عرش تک نہیں پہنچتی ہوں گی۔۔۔۔۔؟ اپنی گود میں اپنے بچہ کو موت کے منہ میں جاتا دیکھنے والی دکھی ماں کی دعائوں میں خشوع و خضوع کا کیا عالم ہوتا ہوگا۔۔۔۔۔ مگر پھر تھوڑی دیر بعد اُکھڑی سانسوں والا بچہ جنم دینے والی ماں کے ہاتھوں میں دم توڑ کر بے جان لاشہ کیوں بن جاتا ہے۔۔۔۔۔؟ اللہ تعالیٰ نے اس ماں کی دعائیں کیوں قبول نہ کیں۔۔۔۔۔؟
کلمہ گو مسلمانوں کے ملک پاکستان میں ڈائریا، ٹائیفائیڈ اور دوسرے امراض کے باعث بچوں کی شرحِ اموات کیوں زیادہ ہے۔۔۔۔۔؟ غیر مسلم امریکہ یا یورپ میں شیرخوار بچوں کی شرح اموات صفر کے برابر کیوں ہے۔۔۔۔۔؟
پاکستانی معاشرہ مسلمانوں کا معاشرہ ہے۔ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کا معاشرہ ہے۔ اتنی بڑی نعمت کے حامل ہونے کے باوجود اس معاشرہ میں بیماریاں عام کیوںہیں۔۔۔۔۔؟ یہاں عوام کے ایک بڑے طبقہ میں جہالت اور مفلسی نے ڈیرے کیوں جمائے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔؟ ہم اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کیوں ہماری نہیں سنتا۔۔۔۔۔؟ ہماری دعائوں کی بدولت ہمارا معاشرہ بیماریوں سے، غربت سے، جہالت سے کیوں محفوظ نہیں ہوجاتا ۔۔۔۔۔؟
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ان مقاصد کے حصول کے لئے انسانی کوشش لازمی ہے۔ انسان جس سمت میں اور جتنی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ انہیںقبول کرکے کامیابیوں سے نوازے گا۔ کوئی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی عبادت گزار اور صالح ہو، ڈاکٹر بننا چاہے تو اسے طب کی تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ اسے اناٹومی، فزیالوجی، صحت و مرض و علاج سے آگہی کے لئے کئی دوسرے مضامین کی کتابیں پڑھ کر سمجھنا ہوں گی۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میڈیکل کا طالب علم خاص اوقات میں کوئی دعا کرے اور اسے اناٹومی کی کتابیں راتوں رات ذہن نشین ہوجائیں، کیا ایسا ہوجانا اللہ  کے قبضہ قدرت سے باہر ہے۔۔۔۔۔؟ ہرگز نہیں! لیکن۔۔۔۔۔ لیکن اللہ  کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ہی ایسا نہیں ہوتا۔ کسی علم کی تفہیم کے لئے اس کے تمام متعلقہ مضامین کو پڑھنا پڑتا ہے، محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی شخص کرکٹ،ہاکی یا فٹ بال کا اچھا کھلاڑی بننا چاہتا ہے تو اس کے لئے ورد و وظائف اور دعائوں کی نہیں بلکہ اس کھیل کے اسرار و رموز سمجھنے اور کھیل میں مہارت پیدا کرنے کے لئے سخت محنت و ریاضت کی ضرورت ہے۔ جب ایک کھلاڑی قرار واقعی محنت کرکے اپنے آپ کو مقابلہ کے لئے تیار کرلے تو اب اسے اپنی کوششوںمیں کامیابی کے لئے اللہ  سے دعا کرنی چاہئے۔ اگر مسلمان کھلاڑیوں کو یہ باور کرادیا جائے کہ تم مسلمان ہو اور تمہاری دعا ہرحال میں قبول ہوگی تو ورلڈ چیمپئن شپ، اولمپکس، ایشین، یورپئین چیمپئن غرضیکہ دنیا کے تمام اہم ٹائٹل دعا میں مشغول مسلمانوں کے پاس ہی ہونے چاہئیں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔۔۔۔۔ عام طور پر تو ہم یہی دیکھتے ہیں کہ مقابلہ کے لئے جو جتنی زیادہ تیاری کرتا ہے جتنا اچھا کھیل پیش کرتا ہے کامیابی اسے ہی ملتی ہے۔
قوموں کی برادری میں عزت و سربلندی کا حصول بھی مقابلہ کا ایک میدان ہی ہے۔ مقابلہ کے اس میدان میں کامیابی کچھ تقاضوں اور کچھ شرائط سے منسلک ہے۔ اس میدان میں کامیابی کے لئے مسلسل تیاری اور تربیت لازمی ہے۔ زمین و آسمان میں اللہ  کی تخلیقات پر غور و فکر یعنی فزکس اور میٹا فزکس کی تعلیم، معاملہ فہمی، جرأت، صبر، تدبر، وقت کا بہترین استعمال، دانش و حکمت اس میدان میں کام آنے والے ہتھیار ہیں۔ انسانوں میں سے جو گروہ یا قوم ان ہتھیاروں کو بہتر طور پر استعمال کرتے ہوئے مقابلہ کرے گی اسے کامیابی حاصل ہوگی۔ اس میں مسلم غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس حقیقت کی گواہی تاریخ کے صفحات سے جابجا ملتی ہے۔ قوموں کی برادری میں کمزور طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ وہ ہمدردی کا حقدارنہیں بھیک یا خیرات کا طالب قرار پاتا ہے۔ طاقتور کی مرضی کہ اسے خیرات دے یا نہ دے یا پھر کچھ خیرات دے تو اپنی شرائط پر دے۔
یہ بات ایک سچے پکّے مسلمان کی، ایک مومن کی غیرت کے منافی ہے کہ وہ غیروں کے ٹکڑوں پر زندگی بسر کرے۔ اسلام اپنے پیروکاروں سے خودداری، غیرت اور حمیت کے تحت زندگی بسر کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ دین کے اس اہم تقاضہ کی ، اس مطالبہ کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ اللہ  اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے مطابق مسلمان معاشرہ میں علم کا دور دورہ ہو۔ سیاست و حکومت میں نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری ہو۔ معاشرہ میں تنظیم ہو، عدل ہو، اپنے دین و ملت کو دشمنوں کی سازشوں اور دستبرد سے بچانے کے لئے ہر قسم کی ضروری صلاحیت اور طاقت ہو، اللہ  اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات پر صدقِ دل سے عمل کرنے والی قوم ہو اور اللہ  کی راہ میں جذبۂ شہادت سے سرشار سپاہ ہو۔ ان تدابیر کے بعد، ان تقاضوں کی تکمیل کے بعد اللہ  وحدہٗ لاشریک کی بارگاہ میں سجدہ ریز مسلمان قوم اپنے لئے فتح و نصرت کی دعا کرے۔۔۔۔۔ اسے آج بھی اپنی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے اُترتے ہوئے محسوس ہوں گے۔
دعائوں کی قبولیت کی اُمید رکھناہے تو اللہ  کے بنائے ہوئے نظام کو سمجھنا ہوگا۔ خود کو اللہ  کی نصرت کا حقدار ثابت کرنا ہوگا۔ نصرت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ 

ترجمہ: کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی ۔ اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ہم نے ان کو بھی آزمایا تھا۔ سو اللہ  ضرور جانچے گا کہ کون لوگ ایمان میں سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔(سورۂ عنکبوت)


ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے کالم حق الیقین مطبوعہ 2004ء سے اقتباسات

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے