بات کہنے کے انداز اور ان کے اثرات
ڈاکٹر
وقار یوسف عظیمی کے لیکچرز (مورخہ 27 اکتوبر اور 3 نومبر 2019ء) سے انتخاب
انسان اپنے
خیالات ، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لیے زیادہ تر الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ واقعات
کی اطلاع دینی ہو ، علم حاصل کرنا ہو یا علم
سکھانا ہو ذریعہ الفاظ ہی بنتے ہیں۔ ہر لفظ ایک صورت (تصور) اور ایک یا زیادہ معنی رکھتا
ہے ۔ ہر زبان میں نئے الفاظ شامل( گویا پیدا
)ہوتے رہتے ہیں اور کچھ الفاظ متروک (ہوکر گویا مردہ) ہو جاتے ہیں ۔ بات یا گفتگو الفاظ
کے زریعے ہوتی ہے۔ ہم بات کہہ کر کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ کلام کی یا ابلاغ کی
خوبی یہ ہے کہ کسی بات کو اسی طرح سمجھا جائے جیسا کہ کہنے والے کے ذہن میں ہے۔ اس
حوالے سے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اہم بات یہ نہیں کہ کیا کہا جا رہا ہے بلکہ
اہم بات یہ ہے کہ کہ کیا سمجھا جا رہا ہے ۔ بعض اوقات
مخاطب بہت اچھی بات کا وہ مطلب یا وہ تاثر نہیں لیتے جو کہنے والے کے ذہن یا دل میں ہوتا ہے۔ اگر
کسی اچھی بات ، کسی بڑے پیغام ، کسی اعلیٰ سبق کا ابلاغ صحیح طرح سے نہ ہو تو کہنے
والے کی بات اور محنت ضائع ہوسکتی ہے۔
یہ نکتہ خود مجھے اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ
اپنی بات کو اور اپنے ذہن یا قلب میں پنہاں معنی کو مخاطب تک پہنچانا میری اپنی ذمہداری
ہے۔
زبان
سے کہی ہوئی بات یا گفتگو میں الفاظ کی اہمیت تو ہے لیکن سامنے والا شخص بات کہنے والے کی سوچ کا تعین کرنے کے لیے متکلم
کے الفاظ ، لہجے، چہرے کے تاثرات ، آنکھوں کی کیفیات، ہاتھوں کی پوزیشن اور جسم کی
حرکات سے بھی معنی اخذ کرتا ہے۔ لہٰذا اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ درست انداز میں
دوسروں تک پہنچانے کے لیے گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ کے ساتھ لہجے اور جسم
کی حرکات پر توجہ دینا ضروری ہے۔
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُولُوا لِلنَّاسِ
حُسْنًا۔
(سورہ بقرہ آیت 83)
اللہ تعالی
کے اس ارشاد پر غور کرتے ہوئے میں انسانوں میں عمل اور ردعمل کے مثبت اور منفی اثرات
کا جائزہ
لینے لگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نرم لہجے میں
خوش اخلاقی کے ساتھ بات کرنے سے مخاطب پر اچھا
تاثر پڑتا ہے۔ خوش اخلاقی سے
بات کرنا اجنبی افراد کے درمیان بھی قربت کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر قربت نہ ہو پائے تو بھی اچھی طرح بات کرنا کم
از کم کسی منفی سوچ کا سبب تو نہیں بنے گا۔ تلخ لہجے میں یا دوسروں کو ناگوار انداز میں بات کرنا غلط
فہمی کو جنم دینے اور تعلقات میں خرابیاں ڈال دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس نکتے
کو ایک دوسرے انداز سے سمجھئے ۔مجھے کوشش کرنی چاہیے کہ میری ذات دوسروں کے لئے فائدے
کا ذریعہ بنے لیکن اگر میں خود کو دوسروں کے لئے فائدے کا ذریعہ نہ بنا سکوں تو اتنا
تو ضرور کر لوں کہ میری ذات کسی کے لیے نقصان
کا سبب نہ بنے۔
قولو للناس حسنا پر عمل
کرنے سے ہم دوسروں کو عزت افزائی کا احساس اور خوشی دے سکتے ہیں۔ ہمارے اس طرز کلام سے دوسرے اگر خوشی محسوس نہ کر
پائیں تب بھی کم از کم اتنا تو ہوگا کہ وہ
کوئی منفی اثر نہیں لیں گے ۔ اس طرح ہم کسی خرابی سے بچ سکتے ہیں۔ آپ غور کیجیے....!
جہاں بہت خرابیاں پائی جاتی ہوں وہاں خرابی کے پھیلاؤ کو روک دینا اچھائیوں کے فروغ کا
پہلا مرحلہ ہے۔
ابلاغ
کےذرائع:
ابلاغ
کے تین بڑے ذرائع ہیں ۔1۔تقریری۔2 ۔تحریری۔3۔تاثراتی ۔
1۔تقریری ذریعہ ۔ یہ زبان اور ہونٹوں کے استعمال سے ادا کئے جانے
والے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان الفاظ کو کانوں سے سنا جاتا ہے اور زہن میں ان کے
معنی سمجھے جاتے ہیں۔
2۔تحریری ذریعہ ۔ یہ لکھے ہوئے الفاظ پر مشتمل ہے۔ ان الفاظ کو
آواز سے یا بغیر آواز کے محض آنکھوں سے پڑھا جاتا ہے۔
3۔تاثراتی ذریعہ ۔اس میں زبان سے الفاظ کی ادائی ضروری نہیں ہے۔اس
زریعے میں متکلم کی بات کے معنی اس کے لہجے اور جسم کی حرکات یعنی بدن بولی (Body Language) سےاخذ کیے جاتے ہیں۔ لہجہ اور بدن بولی
کانوں سے اور آنکھوں سے سمجھی جاتی ہے۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
___
لہجہ ایک ہی جملے کے کئی مفہوم بنادیتا ہے۔
کئی الفاظ پر مشتمل ایک جملے میں سے کسی ایک لفظ پر زور (Stress) دینا یا وقفہ (Pause) دینا اس جملے کے کئی مفہوم بنادیتا ہے۔
لفظ پر زور دینے کی ایک مثال:
مالی۔۔۔۔بیج لایا
مالی ۔۔۔بیج ۔۔۔لایا
مالی بیج ۔۔۔لایا۔؟
جملے میں وقفہ دینے کی ایک مثال:
روکو۔۔۔ مت جانے دو
روکو مت ۔۔۔ جانے دو
لہجہ رائے بناتا ہے۔
لہجہ ایک جملے کے کئی تاثرات پیش کرتا ہے ۔ لہجے کی وجہ سے بننے والا تاثر متکلم کی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اس بات کو اس طرح کہیں گے
لہجہ ۔۔۔ تاثر۔۔۔رائے۔
لفظ تو اچھے کہے اس نے مگر
اس کا لہجہ مرا دل توڑ گیا
ہر کہی ہوئی بات ، ہر لکھی ہوئی بات اپنا اثر رکھتی ہے۔ یہ اثر یا تاثر بات کہنے والے یا لکھنے والے کے بارے میں ذہن میں ایک رائے بنادیتا ہے۔ رائے بنانے میں گفتگو کے دوران اختیار کئے گئے لہجے اور بدن بولی کا حصہ بہت زیادہ ہے۔
اچھی طرح گفتگو کے چند اثرات یا نتائج:
والدین اور اساتذہ کا اپنی اولاد اور اپنے شاگردوں کے ساتھ اچھی طرح بات کرنا اولاد اور شاگردوں میں عزت نفس، خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کی لگن میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
دفاتر اور اداروں میں آفیسرز کا ، سینئرز کا اپنے ماتحتوں سے اچھی طرح بات کرنا ماتحتوں کے لیے ذہنی سکون اور ان کی کارکردگی میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔
معاشرے میں نمایاں مقام رکھنے والے ادیب ،شاعر، فنکار کھلاڑی اور دیگر افراد کا لوگوں سے اچھی طرح بات کرنا ان کی اپنی قدر میں اضافے اور ان سے وابستہ افراد یا ان کے چاہنے والوں کے لئے خوشی اور فخر کا سبب بنتا ہے۔
ان سب مثالوں سے مجموعی طور پر یہ حقیقت سامنے آئی کہ قولو للناس حسنا پر عمل سے عمومی طور پر بہت خوشگوار اثرات ہوتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہر عمل کا اپنا کوئی ایک اثر یاچند اثرات ہوتے ہیں ۔ اچھی طرح بات کرنا بھی ایک عمل ہے ۔ کسی شخص کا میرے ساتھ اچھی طرح بات کرنا مجھے یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ شخص میری عزت کر رہا ہے ۔ کوئی شخص زیادہ لوگوں کے ساتھ اچھی طرح بات کرتا ہو تو اس کے بارے میں عمومی تاثر یہی بنتا ہے کہ یہ آدمی خوش اخلاق ہے۔ خوش اخلاقی کے بارے میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے:
”خوش اخلاقی پروان چڑھتی ہے۔“
]سنن ابی داؤد، کتاب الادب]
کسی کی مدد کے لیے رقم خرچ کرنا، ایک بہت احسن عمل ہے، دوسروں کی مدد کرتے وقت بھی اس بات کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ سامنے والا کوئی منفی معنی اخذ نہ کرلے یا اس کی عزت نفس متاثر نہ ہو۔ اس حوالے سے سورۂ بقرہ کی ایک آیت رویوں کو بہتر بنانے اور اخلاق کی تربیت کے لیے کئی اہم نکات کو واضح کرتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَّتْبَعُهَآ اَذًى ۗ وَاللّٰهُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ O [سورۂ بقرہ :آیت 263]
مفہوم :ایک میٹھا بول اور درگزر کردینا اس خیرات سے کہیں زیادہ بہتر ہے جس کے پیچھے لوگوں کو اذیت دی جارہی ہو۔
واضح رہے کہ ایسی اذیت کی بڑی وجہ خیرات کرنے والے کے خراب رویے یا ناگوار لہجے بنتے ہیں۔
_________________________________________________________________________
اپنی بات کو اچھی طرح کہنے اور اپنے بارے میں اچھا تاثر قائم ہونے کے حوالے سے چند مشقیں درج ذیل ہیں
مشق نمبر1: بات کرتے ہوئے، نام پکارتے ہوئے لہجہ نرم رکھنا ہے ۔ اسے مزید مؤثر اس طرح بنایا جاسکتا ہے کہ نام پکارتے ہوئے لہجے میں مٹھاس محسوس ہو۔
مشق نمبر 2: آنکھوں کی کیفیات کو محترم بنانا ہے۔ یہاں ایک بات یاد آرہی ہے، سوشل میڈیا پر کسی پوسٹ میں پڑھا تھاکہ کسی کے گھر جاؤ تو اپنی آنکھیں قابو میں رکھو۔ اُس کے گھر سے باہر آکر اپنی زبان قابو میں رکھو۔
مشق نمبر 3: چہرے پر تناؤ کم کرنا ہے۔ اس کے لیے رات سونے سے پہلے تناؤ کم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
مشق نمبر 4: ہاتھوں کی پوزیشن کا خیال رکھنا ہے۔
مشق نمبر 5: جسم کی حرکات کو مہذب بنانا ہے۔