اسلام اور تصوف
سلسلہ عظیمیہقلندر شعور فاؤنڈیشن
چھبیسویں روحانی ورکشاپ26 جنوری 2020ء
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
واَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ مُحَمَّدٌ رَّسُولَ اللَّهِ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء ؒکے عرس کے موقع پر ہونے والی سالانہ روحانی تربیتی ورکشاپ2020ء کا موضوع
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے
حضرت نے بعض مقامات پر ترمیم و اصلاح کے بعد اس تحریر کو اشاعت کے لیے منظور فرمایا ہے۔
یہ رسالہ میں بصد احترام
سلسلہ عظیمیہ کے اراکین ، تصوف کے طالب علموں ،
اساتذہ کرام اور عامۃ الناس کی نذر کر رہا ہوں
طالبِ دعا
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
جنوری 2020ء بمطابق جمادی الاول 1441F
عربی زبان کے لفظ ‘‘سَلَمَ ’’ (س ۔ ل۔م )سے مشتق ایک لفظ اسلام ہے۔ سَلَمَ کے کئی معانی و مفاہیم ہیں۔ اصطلاحا ًاسلام ایک دین کا نام ہے۔اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس دین کی مبادیات اور تفصیلات سے نوع انسانی کو آگاہ کیا ہے۔ اللہ نے اپنے بندے اور رسول، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ پر اپنی کتاب بذریعہ وحی نازل فرمائی۔ اس کتاب کا نام القرآن ہے۔
دین اسلام کے بنیادی ارکان درج ذیل ہیں۔
-1 کلمہ طیبہ۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، -2صلوٰۃ (نماز)،
-3 صوم (روزہ)، -4 زکوٰۃ، -5 حج
ایمان کے بنیادی ارکان درج ذیل ہیں۔
-1اللہ پر ایمان ، -2 اللہ کے فرشتوں پر ایمان -3 اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان،
-4اللہ کے رسولوں پر ایمان ، -5روز قیامت پر ایمان۔ -6تقدیر پر ایمان۔
اسلام اور ایمان (سَلَمَ ۔ اَمَنَ )کو سمجھتے ہوئےزمین پر زندگی بسر کرنے کے لیے ، انسان کو اللہ کی طرف سے ہدایات عطا کی گئی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل کیسے کیا جائےاس کے لیے واضح رہنمائی دی گئی ہے۔ انسان کو ان ہدایات پر عمل کرنے یا عمل نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
دینِ اسلام کا ایک اہم تقاضہ نفس کی تربیت اور اس کا تزکیہ ہے۔ تزکیہ نفس سے ہم اپنے خالق اللہ رب العالمین کو پہچان سکتے ہیں، اللہ کے قریب ہوسکتے ہیں۔
اللہ کے کلام قرآن پاک سے علم ہوتا ہے کہ انسان کو دی جانے والی ہدایت و رہنمائی کے تین بڑے ذرائع اور کئی مراحل(Phases) ہیں۔
خالق کائنات اللہ وحدہٗ لاشریک نے آدم علیہ السلام کی سب اولاد کو یعنی قیامت تک اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر انسان کو اس دنیا میں بھیجے جانے سے پہلے ہی اپنی ربوبیت سے آگاہ فرمایا۔ انسانوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہونے والی سب انسانوں کی اس خاص مجلس اور اس کی کچھ روداد کا علم ہمیں قرآن پاک کی سورۂ اعراف سے ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسان کی روح میں یا انسان کے باطن میں محفوظ ہے۔ اسے آج کی اصطلاح میں DNA کہا جاسکتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے خالق اللہ سے محبت اور اپنے رب کی پرستش کا تقاضہ انسان کی فطرت میں ہے۔
اس حوالے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے مزید رہنمائی ملتی ہے کہ:
اس زمین پر بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے انبیاء اور مرسلین کے ذریعے ہدایات عطا فرمائیں۔ان ہدایات میں نوع انسانی کو توحید پر ایمان لانے کی دعوت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش اور انسانوں کے باہمی معاملات خیر ، احسان اور انصاف کے ساتھ طے کرنے کی تلقین اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر، زندگی قبل از پیدائش اور زندگی بعد الموت سے آگہی بھی شامل ہے۔ انسانوں کو شرک ، ظلم، شر ، فساد اور اللہ کے ناپسندیدہ دیگر کاموں سے بچنے کی تاکید کی گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت ادریسؑ، حضرت نوح ؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت الیاسؑ، حصرت یحییٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ ، اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک اللہ کے بھیجے ہوئے سب انبیاء ؑ کا پیغام اور ان کی دعوت ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالی کی توحید پر ایمان اور صرف اللہ کی عبادت کا اقرار ۔ لا الہ الا اللہ ۔
ہدایت کا تیسرا ذریعہ ہر انسان کے باطن میں ودیعت (Built in)کیا گیا ہے۔انسان کو ان ہدایات پر عمل کرنے یا عمل نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان اعمال کے الگ الگ درجات ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔
اس دنیا میں انسان کا آنا دراصل ایک امتحان گاہ میں آنا ہے۔
انفرادی طور پر ہر آدمی اپنے اپنے کاموں کا نتیجہ پائے گا۔ اچھے کاموں کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے، برے کاموں کے برے نتائج مرتب ہوں گے۔ اچھے یا برے بعض نتائج اس دنیاوی زندگی میں سامنے آجائیں گے۔
آخرت میں انسان کے سب کام خواہ وہ کتنے ہی معمولی یا کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ، انسان کے سامنے کردیے جائیں گے ۔
خلافت ارضی کی ذمہ داریاں ٹھیک طرح نبھانے کے لیے اللہ نے آدم کو علم الاسماء عطا فرمایا۔
ان مقاصد کو پانے کے لیے اللہ کی طرف سے انسان کی کثیر پہلو مدد کی گئی۔ انسان کو دیگر سب مخلوقات سے زیادہ حسین اور زیادہ کارآمد جسم عطا کیا گیا۔ انسان کے ہاتھ اور پیر منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ ہاتھ میں چار انگلیوں کے ساتھ انگوٹھے کی وجہ سے انسان کئی ایسے کام کرنے کے قابل ہوا جن سے اس زمین پر زراعت، تعمیرات، صنعت اور فنون لطیفہ کے کئی شعبوں کا آغاز ممکن ہوا۔ انسان کے پیر میں موجود ایڑی (Heel Bone) کی وجہ سے انسان دو پیروں پر سیدھا کھڑا ہوجانے اور پیچھے گرجانے سے بچنے کے قابل ہوا۔
علم سیکھنے کے لیے، اس دنیا میں معاملوں کی بہتر تفہیم اور اچھی کارکردگی کے لیے انسان کو عقل سے نوازا گیا۔ عقل کی وجہ سے انسان سوچنے، سمجھنے ، یاد رکھنے، تجزیہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہوا۔
اس دنیا میں سب فنون و علوم انسانی عقل کی وجہ سے وجود میں آئے ۔ عقل کے بہتر استعمال کے لیے انسان کو دانش*1، فراست*2، بصیرت *3 سے نوازا گیا۔ حکمت*4 عطا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکمت کو خیر کثیر کہا ہے۔ اس دنیا میں خیر کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عقل کو اللہ کی مرضی کے مطابق حکمت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
حاشیہ:
انسان کا امتحان انفرادی ہو یا اجتماعی ، ہر امتحان میں کامیابی کے لیے اللہ کی فرماں برداری ، کائنات کے لیے خالق کے بنائے ہوئے قوانین و احکامات کی پیروی، تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اللہ کے عطا کردہ نظام کی پابندی کرنا (یعنی مسلم ہونا) لازمی ہے۔
اللہ کے احکامات و قوانین اس زمین پر انسان تک دو بڑے ذرائع سے پہنچے ہیں۔
کائنات میں جاری سب نظام اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔ان نظاموں میں کارفرما سارےقوانین اللہ کے نافذ کردہ ہیں۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔ انسان کو یہ صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں کہ وہ اللہ کی تخلیقات میں تصرف کرسکے۔
اللہ کی منشاء پر عمل کرتے ہوئے تقویٰ کی صفات اپنائے اور اس زمین پر نوع انسانی اور دوسری سب مخلوقات کے لیے پُرخیر نتائج حاصل کرے۔
کائنات کے خالق اور مالک اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ملنے والی صلاحیتیوں کو استعمال کرتے ہوئے، علم کے حصول ، جستجو اور تحقیق میں مصروف ہو۔
ان کاموں کے لیے راستوں کے تعین ، منزل تک پہنچنے کی جدوجہد اورمبنی برخیر نتائج کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہدایات یعنی وحی کے تابع ہو۔ {عقل کو وحی کے تابع رکھا جائے تو انسان ‘‘خدا ہے کہ نہیں ہے ’’جیسے فلسفیانہ مباحث اور تخلیق انسانی کے حوالے سے نظریہ ارتقا (Theory of Evolution) جیسی عقلی ٹھوکروں سے بچا رہے گا۔ }
ان اوصاف کے حامل افراد معنوی طور پر‘‘ مسلم’’ کہلائیں گے۔
نطام قدرت کو سمجھنے ، خالق کی فرماں برداری کے طریقے سیکھنے کے لیے جامع ترین رہنمائی اللہ کی کتاب قرآن میں عطا فرمادی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھ کر قرآن سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ اللہ کا ارشاد ہے۔
اللہ الحئی القیوم نے اپنی مخلوقات کے لیےزندگی گزارنے کے وسائل بہت بڑے پیمانے پر فراہم کیے ہیں۔ اللہ رب العالمین مخلوقات کو روزی فراہم کرتا ہے۔ انسان ہو یا دیگر مخلوقات اس دنیا میں روزی کے حصول کے لیے سب کو کچھ نہ کچھ کوشش کرنا ہوتی ہے، یہ کوشش بھی اس لیے ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نظام ایسا بنایا ہے کہ مخلوقات کے ارکان حرکت میں رہیں۔ سب مخلوقات فطرت کے قوانین کے مطابق اپنی زندگی بسرکرتی ہیں۔ اپنی روزی کے حصول کے لیے انسان کے علاوہ کسی ذی نفس نے فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ یہ انسان ہی ہے جو اللہ کی طرف سے ملنے والی صلاحیتوں کو نافرمانی میں بھی استعمال میں لاتا ہے۔
آج اس زمین پر مخلوقات کو درپیش سنگین خطرات کی سب سے بڑی وجہ انسان کا اپنی معاشی سرگرمیوں میں قوانین قدرت سے انحراف اور کئی برے کاموں کا ارتکاب ہے ۔ فطری قوانین سے انحراف کرتے ہوئے حاصل کی جانے والی ترقی چند لوگوں کے لیے بہت زیادہ دولت کے حصول کا ذریعہ تو بن سکتی ہے لیکن نوع انسانی کے لیے فلاح اور دوسری مخلوقات کے لیے بقا کا باعث نہیں بن سکتی۔
سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
زمین کو اس خوفناک انجام سے بچانے اور زمین پر آباد اللہ کی مخلوقات کی بقاء کے لیے یعنی امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی غلط روش سے باز آجائے اور اپنی معیشت اور معاشرت کے معاملات کو خالق کائنات کا فرماں بردار (مسلم ) بن کر طے کرے۔
سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء موجودہ دور کے انسان کو درپیش مسائل سے نجات پانے کے لیے رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انسان اس دنیا میں امتحان کس طرح دے اور اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ٹھیک طرح کیسے اداکرے؟....
یہ سمجھنے کے لیے اور اس امتحان کی تیاری اور اپنے کردار کی ادائی کی تربیت لینے کے لیے تصوف کی تعلیمات بہت زیادہ مدد گار ہیں۔
تصوف دین اسلام کا باطنی رخ ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کی زیرنگرانی تعلیمات تصوف کا اعلیٰ ترین مقصد حقیقت تک رسائی ، اللہ کی معرفت اور قربت پانا ہے۔ اولیاء اللہ سے ملنے والی اچھی تربیت شاگرد کو تقویٰ کی صفات سے آگہی فراہم کرتی ہے، تزکیہ نفس میں مدد دیتی ہے، اس تربیت سے انسان میں اللہ کی عبادات کا ذوق ابھرتا ہے، مرتبہ احسان کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ اولیاء اللہ کا تربیت یافتہ فرد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات میں غور و فکر اور اسوۂ حسنہ پر زیادہ سے زیادہ عمل کے ذریعے نبی ﷺ کی نظر رحمت اور نسبت کا امیدوار بن کر قرب الٰہی کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔ اللہ سے قرب کی راہ کا مسافر قرآن سے ہدایت اور تربیت لیتے ہوئے انسانی معاشروں میں خیر کے فروغ اور اللہ کی سب مخلوقات کے لیے بھلائی کا ذریعہ بنتا ہے۔
سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں:
حضرت محمد عظیم برخیاء ، قلندر بابا اولیاء کے قائم کردہ سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نصاب اور تعلیمات کا مقصد اس فہم اور فکر کو سمجھنا ہے، جس کا تعلق انسانی ذات کے روحانی اور مادی پہلوؤں سے ہے۔ قرآنی آیات، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور اولیاء اللہ کے افکار کی روشنی میں بنائے گئے اس نظام کا مقصد ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے فرد کی تربیت اور تعلیم ہے۔ اس نظام میں باطنی پہلو کو اولیّت اور زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
قلندر بابا اولیاء ؒ کے شاگرد رشید، سلسلہ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
سلسلہ عظیمیہ کی جانب سے اپنے وابستگان کی تربیت کے لیے نصاب، قرآن پاک کی آیات ، حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ اور حضرت محمد ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کی تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع ، مخزن اور سرچشمہ قرآن کریم اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات و تعلیمات ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں
عادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ جسمانی عادتیں اور فکری عادتیں ۔
جسمانی عادتوں میں کسی وقت کچھ خاص چیز کھانے یا پینے کی طلب مثلآ صبح اٹھتے ہی چائے پینا ، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے کے انداز ، چہل قدمی یا ورزش کی عادت، رات سونے سے پہلے کچھ مطالعے کی عادت ، رات کو دیر تک جاگنا صبح دیر سے اٹھنا یا اور بہت سی ایسی عادتیں شامل ہیں جو آدمی کے معمول میں شامل ہوکر ظاہر ہوتی رہیں ۔
فکری عادتوں میں وہ جذبات اور خصلتیں شامل ہیں جو کسی آدمی کی سوچ پر غلبہ پاکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جائیں۔ ان میں منفی اور مثبت دونوں جذبے اور خصلتیں شامل ہیں ۔ یہاں منفی کا پہلے ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ شخصیت پر حاوی منفی جذبوں پر قابو پانا تصوف کی تربیت میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
منفی جذبوں اور خصلتوں میں خود غرضی ، دولت اور دیگر مادی ضروریات کی ہوس ، شہرت کی طلب، بخیلی، بغض و کینہ، حسد، تکبر، خود پسندی وغیرہ شامل ہیں ۔
مثبت جذبوں میں ایثار، خیر خواہی، شفقت، قناعت ، دل کا غنی ہونا ، نرم مزاجی، عاجزی و انکسار وغیرہ شامل ہیں۔
مثبت اور منفی دونوں طرح کے جذبات آدمی کے رویوں ، باتوں اور کاموں سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ حسد یا خیر خواہی یعنی منفی اور مثبت جذبوں کے اثرات بعض اوقات کافی عرصے بعد سامنے آتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے اقدامات سے ان کے پس پردہ منفی جذبوں کا پتہ نہیں چل پاتا۔ منافقت اکثر اسی راہ سے عمل پزیر ہوتی ہے۔تصوف اخلاص نیت اور ظاہر و باطن کی یکسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔
طرز فکر اور طرز عمل میں اصلاح کاعمل تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔ یہ اصلاح جلدی بھی ہوسکتی اور اس میں طویل وقت بھی لگ سکتا ہے۔
تعمیل ِ حکم کا جذبہ مرید کے لیے اصلاح کے عمل کو آسان بنادیتا ہے۔
یہاں مجھے 70 کی دہائی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ میں (وقار یوسف عظیمی) ایک دن حسب معمول قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں حاضر تھا، اس نشست میں بابا صاحب نے کئی باتیں ارشاد فرمائیں۔ دورانِ گفتگو اماں *1نے مجھ سے فرمایا کہ
‘‘خواجہ صاحب *2 سے کہنا کہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ ’’
حاشیہ:
میں اماں سے مل کر ناظم آباد اپنے گھر آیا تو ابا گھر پر نہیں تھے۔ اگلے روز میں کہیں باہر سے گھر واپس آیا تو ابا اپنے کمرے میں میز کے سامنے کرسی پر بیٹھے اخبار کے لیے کالم لکھ رہے تھے ۔ میز پر سگریٹ کا پیکٹ اور ایک طرف ایش ٹرے رکھی ہوئی تھی۔ لکھنے کے دوران ابا اس وقت سگریٹ پی رہے تھے۔ مجھے ابا کے لیے قلندر بابا کی ہدایت یاد آئی، میں نے اسی وقت ابا سے کہہ دیا کہ اماں نے کہا ہے کہ آپ سگریٹ پینا چھوڑ دیں۔
ابا اس وقت تک تقریباً نصف سگریٹ پی چکے تھے۔ سگریٹ نوش بخوبی جانتے ہیں کہ سگریٹ کے آخری کش میں بہت زیادہ لطف ہوتا ہے۔ میری بات سن کر ابا نے صرف اتنا کہا :‘‘اچھا’’....، اور اسی وقت وہ سگریٹ چھوڑ دی جسے وہ تقریباً آدھی پی چکے تھے۔ اس کے بعد ابا نے ساری عمر سگریٹ نہیں پی۔
بعد میں، میں نے اس واقعہ پر بہت غور کیا۔ ایک تو میں نے یہ سوچا کہ ابا اس وقت ہاتھ میں موجود سگریٹ تو پی لیتے ۔ یہ واقعہ میرے ذہن پر نقش ہے کہ ابا نے تو بابا صاحب کا حکم سنتے ہی سگریٹ کو اچھال کر کمرے سے باہر پھینک دیا۔ دوسری بات میں یہ سوچتا رہا کہ ابا نے کئی سالہ سگریٹ نوشی کی عادت سے یکدم چھٹکارا کیسے پالیا۔ سگریٹ کے عادی افراد جانتے ہیں کہ سگریٹ کی عادت سے نجات پانا ایک بہت مشکل کام ہے۔
انسانی وجود میں خیر اور شر یا مثبت اور منفی دونوں طرح کے جذبے موجود ہیں۔ تصوف کی تعلیمات کا بڑا مقصد اپنے وابستگان کو یہ سمجھانا اور سکھانا ہے کہ اپنے وجود میں خیر کو مسلسل بڑھاوا دیتے رہیں اور شرکو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ یہاں ایک خاص نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہے۔ وہ یہ کہ خیر کا بہت زیادہ بڑھاوا ہونے کے باوجود شر سے غافل ہرگز نہ ہوں۔
یاد رکھیے! ذرا سی غفلت سے محض ایک چنگاری سے بھڑکنے والی آگ کسی بہت بڑے جنگل کو تباہ کرسکتی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں لوگوں نے کئی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھا ہے کہ حفاظت مقدم ہے یعنی Safety First۔
بجلی کے تاروں میں معیار (Quality) کی ذرا سی بھی خرابی یا کسی ٹیکنیشن کی معمولی سی غلطی سے ہونے والے شارٹ سرکٹ سے بہت بڑی تنصیبات میں تباہی آسکتی ہے۔
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ انسان پر وہ کئی طریقوں سے وار کرسکتا ہے۔ انسان کے دل میں شیطان کبھی شک ڈالتا ہے ، کبھی اسے خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔ کبھی وسوسے آدمی کوگھیر لیتے ہیں۔ آدمی کو صحیح راہ سے ہٹانے کے لیے شیطان صرف ڈر اور خوف جیسے جذبوں سے کام نہیں لیتا، وہ ترغیبی اور تائیدی انداز بھی اپنالیتا ہے۔ اللہ نے انسان کو شیطان کے شر سے بچنے کی تاکید تخلیق آدم کے وقت سے ہی کردی ہے۔
اللہ کی عبادت کرنے والے اور معرفت الٰہی کی جستجو میں مصروف بندے شیطان کا خاص ہدف (Target) ہوتے ہیں ۔ شیطان کئی طریقوں سے انہیں باور کرواتا ہے کہ تم پر بہت نوازشات ہورہی ہیں، تم بہت اہم ہوگئے ہو اور بہت زیادہ اکرام کے حق دار ہو۔
بڑے پیر صاحب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مشہور واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے ان پر کئی بار اپنے فریب آزمائے، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے شیطان کے ہر فریب پر اللہ کی پناہ مانگی اور اللہ سے مدد طلب کی۔ [بحوالہ : کتاب بہجۃ الاسرار]
شیطان کی چالوں اور اس کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے ہر آدمی کو اپنے نفس امارہ پر کنٹرول کے لیے مسلسل مراقبہ کی ضرورت ہے۔
مادی علوم کے ذریعہ انسان معیشت و معاشرت ، سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرتا ہے۔ جمالیاتی علوم (فنون لطیفہ)کے ذریعہ انسان کی شخصیت کو نکھار اور انسانی معاشروں کو توازن وہم آہنگی جیسی خوبیاں مسیر آتی ہیں۔ روحانی علوم کے ذریعہ انسان کی روحانی نظر بیدار ومتحرک ہوتی ہے۔ اﷲ وحدہٗ لاشریک پر ایمان کی پختگی ،نیت کے اخلاص ، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی ،خود احتسابی جیسی صفات پروان چڑھتی ہیں۔ تصوف کی تعلیمات علوم کے ان تینوں شعبوں میں باہمی ربط و اشتراک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
سلاسل طریقت کے بزرگوں سے تربیت یافتہ کئی ہستیوں نے علوم کے ان تینوں شعبوں سے بہرہ مند ہوکر انسان کو اللہ کی طرف بلایا، جمالیات کے تقاضوں کو پورا کیا اور اللہ کی نشانیوں میں غور وفکر کرتے ہوئے انسانی معاشروں میں علوم و فنون کی ترقی کے لیے محرک اور رہنما کا کرداراداکیا۔
نظامِ تصوف سے وابستگی کے کئی درجے یا مراحل ہیں ۔ نمایاں مراحل سات ہیں۔
اس مرحلے (Phase) میں وابستگی کی بنیاد بالعموم دنیاوی یا خاندانی ضروریات میں روحانی مدد کی خواہش یا محض عقیدت بھی ہوسکتی ہے۔
کوئی شخص (مرد یا عورت) ماورائی علوم میں دلچسپی ، باطنی صلاحیتوں کی بیداری کی خواہش ، دولت کے حصول، ملازمت میں ترقی، کسی مرد یا عورت سے قربت کی تمنا یا اپنے دیگر دنیاوی معاملات میں کسی بزرگ کی دعاؤں کے زیر سایہ رہنے یا کسی اور ظاہری مقصد کے لیے نظام تصوف سے وابستہ ہوسکتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے کئی لوگ عملیات ، وظائف یا بعض دیگر مشقوں سے مدد لینا چاہتے ہیں۔
اس درجے میں آدمی کے لئے سکون کے ذرائع کسی بزرگ کی خدمت میں حاضری ، کسی ایک یا زیادہ مزارات پر حاضری، ، عرس کی تقریبات ، قوالیوں اور دیگر محافل میں شرکت کرنا ، وظائف، چلّے کرنا، تعویذ یا کسی خاص پتھر کی انگوٹھی پہننا وغیرہ شامل ہیں۔ تصوف سے اپنے تئیں وابستہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ساری عمر اسی مرحلے میں گزاردیتی ہے۔
کسی بزرگ سے وابستہ ایسے افراد میں ان بزرگ سے محبت یا عقیدت تو بہت ہوسکتی ہے لیکن عموماً ان میں اطاعت نہیں ہوتی اور ادب بھی بالعموم محض ظاہری یا سطحی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ادب کی تعریف میں مرشد کی تعمیل ، سلسلہ طریقت کی تعظیم ، اراکین سلسلہ کے لیے اعتماد کا حامل ہونا اور ان کا احترام کرنا، سلسلہ طریقت میں، اپنے خاندان میں اور معاشرے میں حفظ مراتب کا لحاظ اور دیگر امور شامل ہیں۔
اس مرحلےمیں پہلے مرحلے کی نسبت چند فیصد افراد ہی آتے ہیں۔ ان کی دلچسپی تصوف کی تعلیمات کو جاننے میں بھی ہوجاتی ہے۔ ایسا آدمی صوفیانہ موضوعات پر کتابیں پڑھنا چاہتا ہے، تصوف کی اصطلاحات کو سمجھنا چاہتا ہے، صوفیانہ کلام میں پنہاں پیغام کو سمجھنا چاہتا ہے ۔ وہ دنیا کی بے ثباتی کی باتوں کو دلچسپی سے سنتا تو ہے لیکن اس کا دل دنیا سے چپکا ہوا ہی ہوتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کی باتیں یا عبرت کے قصے اس کے ‘‘ذہن ’’ پر تو اثر انداز ہوتے ہیں لیکن ایسی باتوں یا حکایتوں کی وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں آپاتی۔ البتہ اس مرحلے میں منفی جذبات کے دباؤ یا گرفت میں کمی محسوس ہوتی ہے۔
کسی بزرگ سے یا سلسلہ طریقت سے وابستہ افراد میں محدود اطاعت کے جذبے بیدار ہونےلگتے ہیں۔
تعلیماتِ تصوف میں دلچسپی لینے والوں کو وقتی طور پر اپنی غلطیوں کا احساس و ادراک ہونے لگتا ہے۔
اس مرحلے میں آنے والوں کو اپنے خیالات اور روزمرہ معمولات میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔ مرشد کی تربیت اور اُن کی زیر نگرانی فکر کی اصلاح کے ابتدائی نتائج اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ مرید میں ذاتی درون بینی اور خود آگہی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے ادراک کے بعد اعتراف کی ہمت ہوجاتی ہے۔ اس مرحلے میں بندہ منفی جذبوں کی وجہ سے ہونے والے مادی اور روحانی خساروں کا اعتراف کرنے لگتا ہے۔ زندگی میں وقت کی ناقدری کرتے رہنے کو تسلیم کرنے ، انسانوں کی حق تلفیوں سے باز رہنے، اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ ان کیفیات کی وجہ سے مرشد کی قدر و منزلت اور ان کے لیے ادب اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اس مرحلے میں مثبت جذبات انسان کے منفی جذبات پر غالب آنے لگتے ہیں۔ تاہم کسی بندے کی ذرا سی غفلت ، اس کے صعودی (Ascending) سفر کو نیچے کی طرف یعنی نزولی (Descending) کر سکتی ہے۔
روحانی سلاسل میں مرشد اپنے مرید کو اللہ کی ذات پر توکل کے معنی، مفہوم اور توکل پانے کے طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے مشاہدے اور یقین کے لیے مرید کو تربیت کے کئی مراحل سے گزارا جاتاہے ۔ اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جو شخص جتنے بڑے درجے پر فائز ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ ذمہ داریاں ٹھیک طرح نبھانے کے لیے مرید کی سخت تربیت کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جتنی بڑی ذمہ داری اتنی زیادہ تعلیم اور سخت تربیت....
کثافتوں کے زون سے نکلنے کے بعد چوتھے مرحلے میں آنے والے مرید کا ذہن بامعنی عبادات کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس وقت مرید منفی جذبوں پر قابو پانے کے لیے زیادہ سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیتا ہے۔ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی طرف رغبت ہوتی ہے ۔ اللہ کا رنگ (صبغۃ اللہ)اختیار کرنے کی خواہش زور پکڑتی ہے۔ اس مرحلے میں مراقبہ میں انہماک بڑھ جاتا ہے۔ دوران مراقبہ یکسوئی ہوتی ہے۔ خواب کے حواس متحرک ہونے کی وجہ سے واضح خواب کثرت سے نظر آتے ہیں۔ لاشعوری زبان کی تفہیم کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ اس مرحلے میں آنے والے مرید کے قلب و ذہن میں معنویت کی تلاش اور روح کی صلاحیتوں کے ادراک کے لیے قرآنی آیات اور ارشاداتِ رسول کی زیادہ سے زیادہ تفہیم کا تقاضہ ابھرتا ہے ۔
پانچویں مرحلے میں پہنچنے والا مرید اپنے مرشد کی تربیت اور ان کی مسلسل توجہ کے زیر اثر کئی منفی جذبات کو بہت زیادہ دبانے میں اور اپنے نفس امارہ پر کچھ حد تک قابو پانے لگتا ہے۔ اس کا دل نفس مطمئنہ کے حصول کے لیے زیادہ راغب ہوجاتا ہے۔ اللہ کی عبادات اور اللہ کی نشانیوں میں تفکر میں مصروف ایسے بندے میں معلم اعظم حضرت محمد ﷺ کی نظر رحمت اور نسبت کے حصول کی تمنا زیادہ شدت اختیار کرلیتی ہے۔ مرتبہ احسان حاصل کرنے کی طلب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ ۔ واضح رہے کہ اس مرحلے میں آنے والوں پر شیطان کی طرف سے وسوسوں کا دباؤ بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوجاتاہے۔
یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ارتقا کے ہر مرحلے میں نظم و ضبط (Discipline) کی زیادہ پابندی اور شیطان کے شر سے زیادہ محتاط رہنا اور اللہ کی پناہ مانگتے رہنا ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر بڑا خسارہ ہے۔
مرحلہ وار تربیت اور ارتقاء کے اگلے مراحل کے متوقع نتائج پر گفتگو ان شاء اللہ آئندہ کسی نشست میں ہوگی۔
انسانی معاشروں میں تصوف کے فروغ کے ذریعہ اخوت وبھائی چارہ، احترام آدمیت، عفو ودرگزر، رشک وتحسین، اللہ کی شکر گزاری ،اللہ کی محبت، حضرت محمدﷺکا عشق اور آپﷺکی اطاعت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
حضرت محمدؐ کے وارث اولیاء اللہ اپنی روحانی اولاد ،اپنے مریدوں کی تربیت اس نہج پر فرماتے ہیں کہ سالک کادل اللہ کی محبت سے لبریز ہوجائے۔
سلسلہ عظیمیہ میں نئے شامل ہونے والے افراد ہوں یا سلسلہ کے قدیمی اراکین، انہیں اپنی علمی و روحانی تعلیم و تربیت کے لیے قرآن اور تعلیماتِ نبوی سے مستقل رہنمائی لیتے رہنے کے ساتھ ساتھ سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط کو ہمیشہ پیش ِنظر رکھنا ہے اور ان پر عمل کرنا ہے۔
موجودہ دور کے تقاضوں اورآج کے انسان کی ذہنی سطح کے پیش نظر سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاء اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تربیتی نصاب اس طرح مرتب فرمایا ہے کہ انسان مادی تقاضوں اورجمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی تقاضوں کی تکمیل کے قابل ہوسکے۔ انسان اپنی روح کا عرفان حاصل کرکے انفرادی ذمہ داریوں کو حسنات کے ساتھ پورا کرسکے اور اجتماعی طور پر خلیفۃ فی الارض کی ذمہ داریوں کو ٹھیک طرح نبھاسکے۔
انسان کی زندگی کا اصل کا مقصد اپنے خالق،اپنے مالک اللہ وحدہٗ لاشریک کی سچی اورخالص بندگی کرنا اور اللہ کے عرفان کا حصول ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے
اسلام اور تصوف
مقرر کیا ہے۔ اس ورکشاپ کے لیے میں نے اپنے والدِ محترم اور مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی اجازت سے یہ مختصر رسالہ قلم بند کیا اور اپنے والد کو سُنایا ہے۔حضرت نے بعض مقامات پر ترمیم و اصلاح کے بعد اس تحریر کو اشاعت کے لیے منظور فرمایا ہے۔
یہ رسالہ میں بصد احترام
سلسلہ عظیمیہ کے اراکین ، تصوف کے طالب علموں ،
اساتذہ کرام اور عامۃ الناس کی نذر کر رہا ہوں
طالبِ دعا
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
جنوری 2020ء بمطابق جمادی الاول 1441F
عنوان نمبر1 :
اسلام
عربی زبان کے لفظ ‘‘سَلَمَ ’’ (س ۔ ل۔م )سے مشتق ایک لفظ اسلام ہے۔ سَلَمَ کے کئی معانی و مفاہیم ہیں۔ اصطلاحا ًاسلام ایک دین کا نام ہے۔اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس دین کی مبادیات اور تفصیلات سے نوع انسانی کو آگاہ کیا ہے۔ اللہ نے اپنے بندے اور رسول، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ پر اپنی کتاب بذریعہ وحی نازل فرمائی۔ اس کتاب کا نام القرآن ہے۔
دین اسلام کے بنیادی ارکان درج ذیل ہیں۔
-1 کلمہ طیبہ۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، -2صلوٰۃ (نماز)،
-3 صوم (روزہ)، -4 زکوٰۃ، -5 حج
ایمان کے بنیادی ارکان درج ذیل ہیں۔
-1اللہ پر ایمان ، -2 اللہ کے فرشتوں پر ایمان -3 اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان،
-4اللہ کے رسولوں پر ایمان ، -5روز قیامت پر ایمان۔ -6تقدیر پر ایمان۔
اسلام اور ایمان (سَلَمَ ۔ اَمَنَ )کو سمجھتے ہوئےزمین پر زندگی بسر کرنے کے لیے ، انسان کو اللہ کی طرف سے ہدایات عطا کی گئی ہیں۔ ان ہدایات پر عمل کیسے کیا جائےاس کے لیے واضح رہنمائی دی گئی ہے۔ انسان کو ان ہدایات پر عمل کرنے یا عمل نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
دینِ اسلام کا ایک اہم تقاضہ نفس کی تربیت اور اس کا تزکیہ ہے۔ تزکیہ نفس سے ہم اپنے خالق اللہ رب العالمین کو پہچان سکتے ہیں، اللہ کے قریب ہوسکتے ہیں۔
اللہ کے کلام قرآن پاک سے علم ہوتا ہے کہ انسان کو دی جانے والی ہدایت و رہنمائی کے تین بڑے ذرائع اور کئی مراحل(Phases) ہیں۔
پہلا ذریعہ :
اس زمین پر آنے سے پہلے دور ازل میں اللہ کی طرف سے نوع انسانی کو براہ راست دی جانے والی ہدایت....
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِىٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِـمْ ذُرِّيَّتَـهُـمْ وَاَشْهَدَهُـمْ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْۚ اَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غَافِلِيْنَO اَوْ تَقُوْلُـوٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَـآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْ بَعْدِهِـمْ ۖ اَفَتُـهْلِكُنَا بِمَا فَـعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ O
ترجمہ :اور جب تمہارے رب نے آدم کی پشت سے اُن کی ساری اولاد کو نکالا اور انہیں خود اُن پر گواہ بنایا (اور اُن سب سے پوچھا )کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔اُن سب نے کہا، کیوں نہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ (یہ اہتمام اس لیے کیا گیا کہ )قیامت کے دن تم یہ نہ کہوکہ ہم تو (اس حقیقت سے) واقف نہیں تھےیا یہ نہ کہو کہ (زمینی زندگی کے دوران )شرک تو ہمارے باپ دادا نے کیا تھاہم تو بعد میں اُن کی اولاد بنے۔ تو کیا آپ ہمیں (ہمارے اجداد کے ) باطل کاموں پر ضائع کردیں گے۔ [سورۂ اعراف (7)کی آیت 172،173]
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسان کی روح میں یا انسان کے باطن میں محفوظ ہے۔ اسے آج کی اصطلاح میں DNA کہا جاسکتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے خالق اللہ سے محبت اور اپنے رب کی پرستش کا تقاضہ انسان کی فطرت میں ہے۔
اس حوالے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے مزید رہنمائی ملتی ہے کہ:
كلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ [راوی ابو ہریرہ۔ بخاری، مسلم]جب انسان میں مثبت اوصاف کا غلبہ ہوجاتا ہے اور منفی صفات مغلوب ہوجاتی ہیں تو انسان کا تعلق اس عالم سے قائم ہوجاتا ہےجہاں اس نے اللہ کے حضور اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا۔
دوسرا ذریعہ :
انبیاء کرام ؑ کے ذریعے انسان کو دی جانے والی ہدایات....
حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت ادریسؑ، حضرت نوح ؑ، حضرت صالحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت الیاسؑ، حصرت یحییٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ ، اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک اللہ کے بھیجے ہوئے سب انبیاء ؑ کا پیغام اور ان کی دعوت ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالی کی توحید پر ایمان اور صرف اللہ کی عبادت کا اقرار ۔ لا الہ الا اللہ ۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّـٰى بِهٖ نُـوْحًا وَّالَّـذِىٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٓ ٖ اِبْـرَاهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيسٰٓى ۖ اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۚ
ترجمہ: اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس دین کا حکم اللہ نے نوح کو دیا، اس کا حکم اللہ نے ابرہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا۔ اس دین کو قائم کیا جائے اور اس میں تفرقہ نہ ڈالا جائے۔۔ [سورۂ الشوریٰ(42) : آیت 13]
تیسراذریعہ :
انسان کو ودیعت کردہ آگہی....
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔
فَاَلْهَـمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَاOقَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَاOوَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا O
مفہوم : بدی اور تقویٰ سے آگہی انسان کے دل میں ڈال دی گئی ہے۔ نفس کا تزکیہ کرنے والوں کے لیے فلاح ہے۔ اور نفس کو اللہ کی نافرمانی سے آلودہ کرنے والوں کے لیے خسارہ ہے۔ [سورۂ شمس (91) کی آیات 8 تا 10]
اِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا
مفہوم : اللہ نے انسان کو صحیح راستے کی ہدایت فرما دی ہے۔ اب چاہے وہ درست راہ چل کر نعمت کے شکر گزاروں میں شامل ہو جائے یا بھٹک کر منکروں میں شامل ہوجائے۔ [سورۂ دہر (76) کی آیت 3 ]
اَلَّـذِىْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ O
ترجمہ: اللہ نے موت اور حیات تخلیق کی ۔ اس کے ذریعے وہ تمہیں آزماتا ہے کہ تم میں سے کون احسن عمل کرتا ہے اور اللہ العزیز و الغفور ہے۔[سورہ ملک(67):آیت 2 ]یہاں آنے والا ہر انسان امتحان میں ہے۔ انسان اس امتحان سے جس طرح گزرتا ہے، اس کے اچھے یا برے اثرات انسان کی ذاتی زندگی پر اور اجتماعی طور پر یعنی نوع انسانی پر مرتب ہوتے ہیں۔ انسان کو اس زمین پر غلبہ اور اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے انسان کے اچھے یا بُرے کاموں کے اثرات زمین پر، خشکی و تری ( بحر و بر) میں آباد لاکھوں دوسری مخلوقات پر بھی ہوں گے۔ اس طرح اس امتحان کی ایک نوعیت انفرادی ہے اور ایک اجتماعی۔
انفرادی طور پر ہر آدمی اپنے اپنے کاموں کا نتیجہ پائے گا۔ اچھے کاموں کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے، برے کاموں کے برے نتائج مرتب ہوں گے۔ اچھے یا برے بعض نتائج اس دنیاوی زندگی میں سامنے آجائیں گے۔
آخرت میں انسان کے سب کام خواہ وہ کتنے ہی معمولی یا کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں ، انسان کے سامنے کردیے جائیں گے ۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَه O وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه O
[سورۂ زلزال (99): آیت 7 تا8]اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے، اپنی ذات میں اور اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرنے، مشیت کے تقاضوں کو پورا کرتے رہنے کا ایک نتیجہ انسان نفس مطمئنہ کی شکل میں حاصل کرتا ہے۔
اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۖ
ترجمہ: (اللہ نے فرمایا ) میں زمین میں (آدم کو اپنا) خلیفہ بنانے والا ہوں۔ [سورۂ بقرہ(2): آیت 30 ]
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا
ترجمہ: اوراللہ نے آدم کو سب اسماء سکھادئیے۔ [سورہ بقرہ(2): آیت 31]علم الاسماء کا ایک مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے اپنی صفات کو سمجھنے کی دانائی اور صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ اس صلاحیت کے تحت انسان کو اللہ کی تخلیقات میں تصرف کی استعداد بخشی گئی ہے اور اسے اختیارات دیے گئے ہیں۔ اللہ کی طرف سے انسان کو دی گئی عقل و سمجھ اور اسے عطا کی گئی صلاحیتوں کے کئی مقاصد ہیں۔
- ....ایک مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کا فرماں بردار ، اطاعت گزار اور صرف اللہ کی پرستش کرنے والا بنے۔
- ....تقویٰ کی زیادہ سے زیادہ صفات اختیار کرتے ہوئے اللہ کی سب مخلوقات کے لیے سلامتی اور خیر کا ذریعہ بنے۔
- ....سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ انسان حقیقت تک رسائی اور اللہ کی معرفت حاصل کرے۔
ان مقاصد کو پانے کے لیے اللہ کی طرف سے انسان کی کثیر پہلو مدد کی گئی۔ انسان کو دیگر سب مخلوقات سے زیادہ حسین اور زیادہ کارآمد جسم عطا کیا گیا۔ انسان کے ہاتھ اور پیر منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ ہاتھ میں چار انگلیوں کے ساتھ انگوٹھے کی وجہ سے انسان کئی ایسے کام کرنے کے قابل ہوا جن سے اس زمین پر زراعت، تعمیرات، صنعت اور فنون لطیفہ کے کئی شعبوں کا آغاز ممکن ہوا۔ انسان کے پیر میں موجود ایڑی (Heel Bone) کی وجہ سے انسان دو پیروں پر سیدھا کھڑا ہوجانے اور پیچھے گرجانے سے بچنے کے قابل ہوا۔
علم سیکھنے کے لیے، اس دنیا میں معاملوں کی بہتر تفہیم اور اچھی کارکردگی کے لیے انسان کو عقل سے نوازا گیا۔ عقل کی وجہ سے انسان سوچنے، سمجھنے ، یاد رکھنے، تجزیہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہوا۔
اس دنیا میں سب فنون و علوم انسانی عقل کی وجہ سے وجود میں آئے ۔ عقل کے بہتر استعمال کے لیے انسان کو دانش*1، فراست*2، بصیرت *3 سے نوازا گیا۔ حکمت*4 عطا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکمت کو خیر کثیر کہا ہے۔ اس دنیا میں خیر کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عقل کو اللہ کی مرضی کے مطابق حکمت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
حاشیہ:
- *....‘‘علم’’جاننے اور معلومات اکھٹے کرتے رہنے یعنی Update رہنے کا نام ہے۔
- *1.... ‘‘دانش’’(Wisdom) کا مطلب یہ ہے کہ حاصل کیے ہوئے علوم اور تجربات کے ذریعے بننے والی فہم کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے۔ علم کو اچھی طرح کام میں لانے کے عمل کا نام دانش ہے۔
- *2.... ‘‘فراست ’’ (Insight, Sagacity)کا مطلب ہے کسی معاملے کے ظاہری و باطنی پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھ لینا اور اس کی مدد سے بہتری کی طرف قدم بڑھانا۔
- *3.... علم و دانش و فراست کو استعمال کرتے ہوئے آنے والے وقت کے تقاضوں کو سمجھ لینا ‘‘بصیرت ’’(Vision) ہے۔ صاحب بصیرت کو Visionary کہا جاتا ہے۔
- *4.... علم، دانش، فراست و بصیرت کا درست سمت میں علمی اور عملی اظہار ‘‘حکمت ’’ہے۔
انسان کا امتحان انفرادی ہو یا اجتماعی ، ہر امتحان میں کامیابی کے لیے اللہ کی فرماں برداری ، کائنات کے لیے خالق کے بنائے ہوئے قوانین و احکامات کی پیروی، تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اللہ کے عطا کردہ نظام کی پابندی کرنا (یعنی مسلم ہونا) لازمی ہے۔
اللہ کے احکامات و قوانین اس زمین پر انسان تک دو بڑے ذرائع سے پہنچے ہیں۔
- اللہ کے انبیاء پر نازل ہونے والی کتابوں کے ذریعے۔ان میں وحدانیت، ایمانیات ، اللہ کی عبادت ، تقویٰ، دینی فرائض، شرعی امور، زندگی قبل از موت، زندگی بعد الموت سے کچھ آگہی، انسانوں اور دوسری مخلوقات کے حقوق وغیرہ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کی ایک صفت یہ ہے کہ یہ قبل ازیں نازل ہونے والے کلام الٰہی کا مصدق، جامع اور مھیمن بھی ہے۔
- اس زمین پر اللہ کی نشانیوں کے ذریعے۔ ان نشانیوں سے انسان مادی و روحانی علوم کے ذریعے واقف ہورہا ہے ۔ ان میں نیچرل سائنس اور صوفیانہ علوم بھی شامل ہیں۔
کائنات میں جاری سب نظام اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔ان نظاموں میں کارفرما سارےقوانین اللہ کے نافذ کردہ ہیں۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔ انسان کو یہ صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں کہ وہ اللہ کی تخلیقات میں تصرف کرسکے۔
اَلَمْ تَـرَوْا اَنَّ اللّٰـهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَةُ ظَاهِرَةً وَّّبَاطِنَةً ۗ
ترجمہ: (اے انسانو!) کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ تمہارے لیے مسخر کردیا گیا اور تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتیں کثرت و فراوانی سے عطا فرمائی ہیں۔ [سورۂ لقمان(31): آیت 20]
مزید حوالے : [سورۂ نحل(16): آیت 12، سورۂ جاثیہ(45) : آیت 13]اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ :
اللہ کی منشاء پر عمل کرتے ہوئے تقویٰ کی صفات اپنائے اور اس زمین پر نوع انسانی اور دوسری سب مخلوقات کے لیے پُرخیر نتائج حاصل کرے۔
کائنات کے خالق اور مالک اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ملنے والی صلاحیتیوں کو استعمال کرتے ہوئے، علم کے حصول ، جستجو اور تحقیق میں مصروف ہو۔
ان کاموں کے لیے راستوں کے تعین ، منزل تک پہنچنے کی جدوجہد اورمبنی برخیر نتائج کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہدایات یعنی وحی کے تابع ہو۔ {عقل کو وحی کے تابع رکھا جائے تو انسان ‘‘خدا ہے کہ نہیں ہے ’’جیسے فلسفیانہ مباحث اور تخلیق انسانی کے حوالے سے نظریہ ارتقا (Theory of Evolution) جیسی عقلی ٹھوکروں سے بچا رہے گا۔ }
ان اوصاف کے حامل افراد معنوی طور پر‘‘ مسلم’’ کہلائیں گے۔
نطام قدرت کو سمجھنے ، خالق کی فرماں برداری کے طریقے سیکھنے کے لیے جامع ترین رہنمائی اللہ کی کتاب قرآن میں عطا فرمادی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھ کر قرآن سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ اللہ کا ارشاد ہے۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلـذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ
[سورۂ قمر(54): آیت17]بیسویں اور اکیسویں صدی میں انسانی عقل کے استعمال کی وجہ سے سائنس کے حاصلات اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤنے انسان کو بہت زیادہ سہولتیں فراہم کردی ہیں۔ ان کے باوجود آج کے انسان کو کئی مشکل چیلنجز اور نئی مشکلات کا سامنا ہے۔ انسان کا مادی وجود خطرے میں ہے اور روحانی وجود پر کثافتوں کا شدید دباؤ ہے۔ حصول معاش کے لیے انسان کی سرگرمیاں خود انسانوں اور خشکی اور پانی میں آباد لاکھوں مخلوقات کی بقاء کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ زمین کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ انسان بطور خلیفتہ الارض اپنا مادی اور روحانی کردار ٹھیک طرح ادا نہیں کر رہا۔ زمین پر ماحولیات کا بگاڑ، دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کی وجہ سے اربوں انسانوں کی غربت اور محرومیاں اس امتحان میں ناکامی کی علامتیں ہیں۔
اللہ الحئی القیوم نے اپنی مخلوقات کے لیےزندگی گزارنے کے وسائل بہت بڑے پیمانے پر فراہم کیے ہیں۔ اللہ رب العالمین مخلوقات کو روزی فراہم کرتا ہے۔ انسان ہو یا دیگر مخلوقات اس دنیا میں روزی کے حصول کے لیے سب کو کچھ نہ کچھ کوشش کرنا ہوتی ہے، یہ کوشش بھی اس لیے ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نظام ایسا بنایا ہے کہ مخلوقات کے ارکان حرکت میں رہیں۔ سب مخلوقات فطرت کے قوانین کے مطابق اپنی زندگی بسرکرتی ہیں۔ اپنی روزی کے حصول کے لیے انسان کے علاوہ کسی ذی نفس نے فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔ یہ انسان ہی ہے جو اللہ کی طرف سے ملنے والی صلاحیتوں کو نافرمانی میں بھی استعمال میں لاتا ہے۔
آج اس زمین پر مخلوقات کو درپیش سنگین خطرات کی سب سے بڑی وجہ انسان کا اپنی معاشی سرگرمیوں میں قوانین قدرت سے انحراف اور کئی برے کاموں کا ارتکاب ہے ۔ فطری قوانین سے انحراف کرتے ہوئے حاصل کی جانے والی ترقی چند لوگوں کے لیے بہت زیادہ دولت کے حصول کا ذریعہ تو بن سکتی ہے لیکن نوع انسانی کے لیے فلاح اور دوسری مخلوقات کے لیے بقا کا باعث نہیں بن سکتی۔
سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
’’سائنس کی ساری ترقی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصل کرلے اور ساری نوع انسانی اس کی غلام بن جائے یا ایجادات سے اتنے مالی وسائل پیدا کیے جائیں کہ ایک قوم یا ایک مخصوص ملک مال دار ہوجائے اور نوعِ انسانی غریب اور مفلوک الحال بن جائے کیونکہ اس ترقی میں نوعِ انسانی کی فلاح مضمر نہیں ہے اس لیے یہ ساری ترقی نوعِ انسانی کے لیے اور خود ان قوموں کے لیے جنہوں نے جدوجہد اور کوشش کے بعد نئی نئی ایجادات کی ہیں مصیبت اور پریشانی بن گئی ہے۔ مصیبت اور پریشانی ایک روز ادبار بن کر زمین کو جہنم بنادے گی۔‘‘ [حوالہ : مجموعۂ مضامین کشکول]
زمین کو اس خوفناک انجام سے بچانے اور زمین پر آباد اللہ کی مخلوقات کی بقاء کے لیے یعنی امتحان میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی غلط روش سے باز آجائے اور اپنی معیشت اور معاشرت کے معاملات کو خالق کائنات کا فرماں بردار (مسلم ) بن کر طے کرے۔
سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء موجودہ دور کے انسان کو درپیش مسائل سے نجات پانے کے لیے رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی، نَوعِ انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے۔‘‘ [حوالہ : لوح و قلم ، قلندر بابااولیاء ۔ صفحہ 209]
انسان اس دنیا میں امتحان کس طرح دے اور اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ٹھیک طرح کیسے اداکرے؟....
یہ سمجھنے کے لیے اور اس امتحان کی تیاری اور اپنے کردار کی ادائی کی تربیت لینے کے لیے تصوف کی تعلیمات بہت زیادہ مدد گار ہیں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
عنوان نمبر2 :
تصوف
تصوف دین اسلام کا باطنی رخ ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کی زیرنگرانی تعلیمات تصوف کا اعلیٰ ترین مقصد حقیقت تک رسائی ، اللہ کی معرفت اور قربت پانا ہے۔ اولیاء اللہ سے ملنے والی اچھی تربیت شاگرد کو تقویٰ کی صفات سے آگہی فراہم کرتی ہے، تزکیہ نفس میں مدد دیتی ہے، اس تربیت سے انسان میں اللہ کی عبادات کا ذوق ابھرتا ہے، مرتبہ احسان کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ اولیاء اللہ کا تربیت یافتہ فرد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادات میں غور و فکر اور اسوۂ حسنہ پر زیادہ سے زیادہ عمل کے ذریعے نبی ﷺ کی نظر رحمت اور نسبت کا امیدوار بن کر قرب الٰہی کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔ اللہ سے قرب کی راہ کا مسافر قرآن سے ہدایت اور تربیت لیتے ہوئے انسانی معاشروں میں خیر کے فروغ اور اللہ کی سب مخلوقات کے لیے بھلائی کا ذریعہ بنتا ہے۔
سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں:
محبت، توحید، تقویٰ اور عرفان نفس تصوف کی بنیاد ہے۔ [بحوالہ: کتاب احسان و تصوف : 1]حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی کوئی نیا رسول نہیں۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے۔ نوع انسانی کو اللہ کی توحید کی دعوت دینا، قرآن پاک اور نبی ﷺ کی تعلیمات پہنچانا اب امت مسلمہ کا اجتماعی فرض ہے۔ صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور تابعین کے بعد اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے کئی شعبے یا ادارے بنے، اسلام کی تبلیغ ، عبادت کے مقصد کو سمجھنے، تقویٰ، تزکیہ نفس، معرفت نفس اور معرفت الٰہی کی تربیت دینے اور بعض دیگر امور کی ذمہ داریاں سلاسلِ طریقت نے سنبھالیں۔ سلسلہ عظیمیہ صدیوں سے قائم سلاسل طریقت کا تسلسل ہے۔
حضرت محمد عظیم برخیاء ، قلندر بابا اولیاء کے قائم کردہ سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نصاب اور تعلیمات کا مقصد اس فہم اور فکر کو سمجھنا ہے، جس کا تعلق انسانی ذات کے روحانی اور مادی پہلوؤں سے ہے۔ قرآنی آیات، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور اولیاء اللہ کے افکار کی روشنی میں بنائے گئے اس نظام کا مقصد ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے فرد کی تربیت اور تعلیم ہے۔ اس نظام میں باطنی پہلو کو اولیّت اور زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
قلندر بابا اولیاء ؒ کے شاگرد رشید، سلسلہ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
صوفی اپنے باطن سے واقف ہوتا ہے۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کرتا ہے۔اس کے اوپر غیب کی دنیا روشن ہوتی ہے وہ صرف تزکیہ نفس کی تلقین نہیں کرتا۔اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے کہ انسان کے اندر پوری کائنات بسی ہوئی ہے،کائنات باہرنہیں ہے ہمارے اندر ہے۔ [ کتاب احسان و تصوف: 39]
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع:
مذہب اور تصوّف:
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں
- تصوّف مذہب کی روح ہے۔
- مذہب کیا ہے؟....مذہب اپنے پیروکاروں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔
- مذہب شعور عطا کرتا ہے کہ رزق اللہ دیتا ہے،میں جو کچھ خرچ کرتا ہوں،وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔
- مذ ہب․․․․․․ انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتا ہے۔
- جب کوئی انسان مذہبی ارکان پورے کرتا ہے تو وہ روح کی حقیقت سے باخبر ہوجاتا ہے اور یؤمنونَ بالغیب کے زون میں داخل ہوجاتا ہے۔
- ....مذہب مساوات کا درس ہے،اور اپنے پیروکاروں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ اللہ ہر وقت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔
- .... سچاآدمی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔
- ....اللہ کی رسی کو متحد ہوکر مضبوطی سے پکڑنے اور تفرقوں سے بچنے کئے لئے مذہب ایک پلیٹ فارم ہے۔
- عمل کے بغیر عرفان حاصل نہیں ہوتا۔پس جو شخص با عمل نہیں وہ صوفی نہیں ہے۔ اسے ہم فلسفی یا متکلّم کہہ سکتے ہیں۔ [احسان و تصوف : 39]
عادات:
جسمانی عادتوں میں کسی وقت کچھ خاص چیز کھانے یا پینے کی طلب مثلآ صبح اٹھتے ہی چائے پینا ، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے کے انداز ، چہل قدمی یا ورزش کی عادت، رات سونے سے پہلے کچھ مطالعے کی عادت ، رات کو دیر تک جاگنا صبح دیر سے اٹھنا یا اور بہت سی ایسی عادتیں شامل ہیں جو آدمی کے معمول میں شامل ہوکر ظاہر ہوتی رہیں ۔
فکری عادتوں میں وہ جذبات اور خصلتیں شامل ہیں جو کسی آدمی کی سوچ پر غلبہ پاکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جائیں۔ ان میں منفی اور مثبت دونوں جذبے اور خصلتیں شامل ہیں ۔ یہاں منفی کا پہلے ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ شخصیت پر حاوی منفی جذبوں پر قابو پانا تصوف کی تربیت میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
منفی جذبوں اور خصلتوں میں خود غرضی ، دولت اور دیگر مادی ضروریات کی ہوس ، شہرت کی طلب، بخیلی، بغض و کینہ، حسد، تکبر، خود پسندی وغیرہ شامل ہیں ۔
مثبت جذبوں میں ایثار، خیر خواہی، شفقت، قناعت ، دل کا غنی ہونا ، نرم مزاجی، عاجزی و انکسار وغیرہ شامل ہیں۔
مثبت اور منفی دونوں طرح کے جذبات آدمی کے رویوں ، باتوں اور کاموں سے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ حسد یا خیر خواہی یعنی منفی اور مثبت جذبوں کے اثرات بعض اوقات کافی عرصے بعد سامنے آتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے اقدامات سے ان کے پس پردہ منفی جذبوں کا پتہ نہیں چل پاتا۔ منافقت اکثر اسی راہ سے عمل پزیر ہوتی ہے۔تصوف اخلاص نیت اور ظاہر و باطن کی یکسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔
- شاگردوں کو اپنی صلاحیتوں سے آگاہی ملے ، ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں روحانی استاد اپنے شاگردوں کی رہنمائی اور مدد فرماتے ہیں۔
- روحانی استاد یا مرشد ، معلم ، مربی اور مزکی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مرید کا تزکیہ نفس ہوتا رہے ۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ مرید کو اپنے اندر موجود منفی جذبات اور منفی خصلتوں کا ادراک بھی ہو۔
طرز فکر اور طرز عمل میں اصلاح کاعمل تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔ یہ اصلاح جلدی بھی ہوسکتی اور اس میں طویل وقت بھی لگ سکتا ہے۔
پہلا مرحلہ : اپنی کسی غلطی، خامی یا کسی منفی جذبے یا خصلت کا ادراک ہونا۔ کسی برائی میں پھنسے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی خامی، غلطی کا احساس یا ادراک ہی نہیں ہو پاتا۔
دوسرا مرحلہ: ادراک کے بعد اگلا مرحلہ ہے اعتراف ۔ کئی لوگ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ ان میں فلاں خامی یا منفی جذبے موجود ہیں، لیکن وہ ان کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کی توجیہہ بیان کرنے لگتے ہیں یا کوئی تاویل پیش کرتے ہیں۔ ادراک ہوجانے کے باوجود اپنی خامی کا اعتراف کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔ اس کی معاشرتی مثالوں میں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ امتیازی رویے ، تعلیم سے بے رغبتی ، صحت سے لاپرواہی اور عبادت میں عدم توجہی وغیرہ شامل ہیں۔
تیسرا مرحلہ: اصلاح کا آغاز ۔ ادراک اور اعتراف کے بعد اصلاح کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل کئی لوگوں کے لیے ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔
ایسی عام مثالوں میں صبح دیر تک سوتے رہنے کی عادت، بسیار خوری، سگریٹ نوشی وغیرہ شامل ہیں۔ کئی لوگ جانتے ہیں کہ یہ عادتیں صحیح نہیں،وہ اپنی غلط روش کا اعتراف بھی کرتے ہیں، لیکن ان غلطیوں کا ازالہ کرنے سے خود کو معذور پاتے ہیں۔ اپنی اچھی صلاحیتوں سے استفادہ نہ کرنا بھی ایک خامی یا کم زوری ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے سستی کا مقابلہ کرنا بھی اصلاحی عمل ہے۔ اصلاح کے عمل میں مضبوط قوت ارادی (Strong Will Power) درکار ہے ۔تصوف کا تربیتی نظام مرشد کے ذریعے اپنے وابستگان میں یقین کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قوت ارادی کو بہت زیادہ تقویت عطا کرتا ہے۔ تعمیل ِ حکم کا جذبہ مرید کے لیے اصلاح کے عمل کو آسان بنادیتا ہے۔
یہاں مجھے 70 کی دہائی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ میں (وقار یوسف عظیمی) ایک دن حسب معمول قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں حاضر تھا، اس نشست میں بابا صاحب نے کئی باتیں ارشاد فرمائیں۔ دورانِ گفتگو اماں *1نے مجھ سے فرمایا کہ
‘‘خواجہ صاحب *2 سے کہنا کہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ ’’
حاشیہ:
- س *1....ہم سب بہن بھائی قلندر بابا کو اماں کہتے تھے ۔ یہ بات مجھے میرے امی ابا نے بتائی ہے کہ میرے بچپن سے ہی قلندر بابا مجھے بھائی جان کہہ کر بلاتے تھے، ان کے بعد میری امی ابا ، قلندر بابا اولیاء کے اہل خانہ، ابا کے سب پیر بھائی اور سلسلہ عظیمیہ میں بعد میں شامل ہونے والے بھی مجھے بھائی جان کہنے لگے۔
- *2....میرے والد خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
میں اماں سے مل کر ناظم آباد اپنے گھر آیا تو ابا گھر پر نہیں تھے۔ اگلے روز میں کہیں باہر سے گھر واپس آیا تو ابا اپنے کمرے میں میز کے سامنے کرسی پر بیٹھے اخبار کے لیے کالم لکھ رہے تھے ۔ میز پر سگریٹ کا پیکٹ اور ایک طرف ایش ٹرے رکھی ہوئی تھی۔ لکھنے کے دوران ابا اس وقت سگریٹ پی رہے تھے۔ مجھے ابا کے لیے قلندر بابا کی ہدایت یاد آئی، میں نے اسی وقت ابا سے کہہ دیا کہ اماں نے کہا ہے کہ آپ سگریٹ پینا چھوڑ دیں۔
ابا اس وقت تک تقریباً نصف سگریٹ پی چکے تھے۔ سگریٹ نوش بخوبی جانتے ہیں کہ سگریٹ کے آخری کش میں بہت زیادہ لطف ہوتا ہے۔ میری بات سن کر ابا نے صرف اتنا کہا :‘‘اچھا’’....، اور اسی وقت وہ سگریٹ چھوڑ دی جسے وہ تقریباً آدھی پی چکے تھے۔ اس کے بعد ابا نے ساری عمر سگریٹ نہیں پی۔
بعد میں، میں نے اس واقعہ پر بہت غور کیا۔ ایک تو میں نے یہ سوچا کہ ابا اس وقت ہاتھ میں موجود سگریٹ تو پی لیتے ۔ یہ واقعہ میرے ذہن پر نقش ہے کہ ابا نے تو بابا صاحب کا حکم سنتے ہی سگریٹ کو اچھال کر کمرے سے باہر پھینک دیا۔ دوسری بات میں یہ سوچتا رہا کہ ابا نے کئی سالہ سگریٹ نوشی کی عادت سے یکدم چھٹکارا کیسے پالیا۔ سگریٹ کے عادی افراد جانتے ہیں کہ سگریٹ کی عادت سے نجات پانا ایک بہت مشکل کام ہے۔
خیر اور شر:
یاد رکھیے! ذرا سی غفلت سے محض ایک چنگاری سے بھڑکنے والی آگ کسی بہت بڑے جنگل کو تباہ کرسکتی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی میں لوگوں نے کئی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھا ہے کہ حفاظت مقدم ہے یعنی Safety First۔
بجلی کے تاروں میں معیار (Quality) کی ذرا سی بھی خرابی یا کسی ٹیکنیشن کی معمولی سی غلطی سے ہونے والے شارٹ سرکٹ سے بہت بڑی تنصیبات میں تباہی آسکتی ہے۔
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ انسان پر وہ کئی طریقوں سے وار کرسکتا ہے۔ انسان کے دل میں شیطان کبھی شک ڈالتا ہے ، کبھی اسے خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔ کبھی وسوسے آدمی کوگھیر لیتے ہیں۔ آدمی کو صحیح راہ سے ہٹانے کے لیے شیطان صرف ڈر اور خوف جیسے جذبوں سے کام نہیں لیتا، وہ ترغیبی اور تائیدی انداز بھی اپنالیتا ہے۔ اللہ نے انسان کو شیطان کے شر سے بچنے کی تاکید تخلیق آدم کے وقت سے ہی کردی ہے۔
اللہ کی عبادت کرنے والے اور معرفت الٰہی کی جستجو میں مصروف بندے شیطان کا خاص ہدف (Target) ہوتے ہیں ۔ شیطان کئی طریقوں سے انہیں باور کرواتا ہے کہ تم پر بہت نوازشات ہورہی ہیں، تم بہت اہم ہوگئے ہو اور بہت زیادہ اکرام کے حق دار ہو۔
بڑے پیر صاحب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مشہور واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے ان پر کئی بار اپنے فریب آزمائے، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے شیطان کے ہر فریب پر اللہ کی پناہ مانگی اور اللہ سے مدد طلب کی۔ [بحوالہ : کتاب بہجۃ الاسرار]
شیطان کی چالوں اور اس کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے ہر آدمی کو اپنے نفس امارہ پر کنٹرول کے لیے مسلسل مراقبہ کی ضرورت ہے۔
مادی علوم کے ذریعہ انسان معیشت و معاشرت ، سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرتا ہے۔ جمالیاتی علوم (فنون لطیفہ)کے ذریعہ انسان کی شخصیت کو نکھار اور انسانی معاشروں کو توازن وہم آہنگی جیسی خوبیاں مسیر آتی ہیں۔ روحانی علوم کے ذریعہ انسان کی روحانی نظر بیدار ومتحرک ہوتی ہے۔ اﷲ وحدہٗ لاشریک پر ایمان کی پختگی ،نیت کے اخلاص ، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی ،خود احتسابی جیسی صفات پروان چڑھتی ہیں۔ تصوف کی تعلیمات علوم کے ان تینوں شعبوں میں باہمی ربط و اشتراک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
سلاسل طریقت کے بزرگوں سے تربیت یافتہ کئی ہستیوں نے علوم کے ان تینوں شعبوں سے بہرہ مند ہوکر انسان کو اللہ کی طرف بلایا، جمالیات کے تقاضوں کو پورا کیا اور اللہ کی نشانیوں میں غور وفکر کرتے ہوئے انسانی معاشروں میں علوم و فنون کی ترقی کے لیے محرک اور رہنما کا کرداراداکیا۔
نظامِ تصوف سے وابستگی کے کئی درجے یا مراحل ہیں ۔ نمایاں مراحل سات ہیں۔
مرحلہ اول ۔ Phase 1
کوئی شخص (مرد یا عورت) ماورائی علوم میں دلچسپی ، باطنی صلاحیتوں کی بیداری کی خواہش ، دولت کے حصول، ملازمت میں ترقی، کسی مرد یا عورت سے قربت کی تمنا یا اپنے دیگر دنیاوی معاملات میں کسی بزرگ کی دعاؤں کے زیر سایہ رہنے یا کسی اور ظاہری مقصد کے لیے نظام تصوف سے وابستہ ہوسکتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے کئی لوگ عملیات ، وظائف یا بعض دیگر مشقوں سے مدد لینا چاہتے ہیں۔
اس درجے میں آدمی کے لئے سکون کے ذرائع کسی بزرگ کی خدمت میں حاضری ، کسی ایک یا زیادہ مزارات پر حاضری، ، عرس کی تقریبات ، قوالیوں اور دیگر محافل میں شرکت کرنا ، وظائف، چلّے کرنا، تعویذ یا کسی خاص پتھر کی انگوٹھی پہننا وغیرہ شامل ہیں۔ تصوف سے اپنے تئیں وابستہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ساری عمر اسی مرحلے میں گزاردیتی ہے۔
کسی بزرگ سے وابستہ ایسے افراد میں ان بزرگ سے محبت یا عقیدت تو بہت ہوسکتی ہے لیکن عموماً ان میں اطاعت نہیں ہوتی اور ادب بھی بالعموم محض ظاہری یا سطحی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ادب کی تعریف میں مرشد کی تعمیل ، سلسلہ طریقت کی تعظیم ، اراکین سلسلہ کے لیے اعتماد کا حامل ہونا اور ان کا احترام کرنا، سلسلہ طریقت میں، اپنے خاندان میں اور معاشرے میں حفظ مراتب کا لحاظ اور دیگر امور شامل ہیں۔
مرحلہ دوم ۔ Phase 2
کسی بزرگ سے یا سلسلہ طریقت سے وابستہ افراد میں محدود اطاعت کے جذبے بیدار ہونےلگتے ہیں۔
تعلیماتِ تصوف میں دلچسپی لینے والوں کو وقتی طور پر اپنی غلطیوں کا احساس و ادراک ہونے لگتا ہے۔
مرحلہ سوم ۔ Phase 3
روحانی سلاسل میں مرشد اپنے مرید کو اللہ کی ذات پر توکل کے معنی، مفہوم اور توکل پانے کے طریقوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے مشاہدے اور یقین کے لیے مرید کو تربیت کے کئی مراحل سے گزارا جاتاہے ۔ اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ جو شخص جتنے بڑے درجے پر فائز ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ ذمہ داریاں ٹھیک طرح نبھانے کے لیے مرید کی سخت تربیت کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ جتنی بڑی ذمہ داری اتنی زیادہ تعلیم اور سخت تربیت....
مرحلہ چہارم ۔ Phase 4
مرحلہ پنجم ۔ Phase 5
یہ جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ارتقا کے ہر مرحلے میں نظم و ضبط (Discipline) کی زیادہ پابندی اور شیطان کے شر سے زیادہ محتاط رہنا اور اللہ کی پناہ مانگتے رہنا ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر بڑا خسارہ ہے۔
مرحلہ ششم و ہفتم Phase 6-7
انسانی معاشروں میں تصوف کے فروغ کے ذریعہ اخوت وبھائی چارہ، احترام آدمیت، عفو ودرگزر، رشک وتحسین، اللہ کی شکر گزاری ،اللہ کی محبت، حضرت محمدﷺکا عشق اور آپﷺکی اطاعت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
حضرت محمدؐ کے وارث اولیاء اللہ اپنی روحانی اولاد ،اپنے مریدوں کی تربیت اس نہج پر فرماتے ہیں کہ سالک کادل اللہ کی محبت سے لبریز ہوجائے۔
سلسلہ عظیمیہ میں نئے شامل ہونے والے افراد ہوں یا سلسلہ کے قدیمی اراکین، انہیں اپنی علمی و روحانی تعلیم و تربیت کے لیے قرآن اور تعلیماتِ نبوی سے مستقل رہنمائی لیتے رہنے کے ساتھ ساتھ سلسلہ عظیمیہ کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط کو ہمیشہ پیش ِنظر رکھنا ہے اور ان پر عمل کرنا ہے۔
موجودہ دور کے تقاضوں اورآج کے انسان کی ذہنی سطح کے پیش نظر سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاء اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تربیتی نصاب اس طرح مرتب فرمایا ہے کہ انسان مادی تقاضوں اورجمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی تقاضوں کی تکمیل کے قابل ہوسکے۔ انسان اپنی روح کا عرفان حاصل کرکے انفرادی ذمہ داریوں کو حسنات کے ساتھ پورا کرسکے اور اجتماعی طور پر خلیفۃ فی الارض کی ذمہ داریوں کو ٹھیک طرح نبھاسکے۔
انسان کی زندگی کا اصل کا مقصد اپنے خالق،اپنے مالک اللہ وحدہٗ لاشریک کی سچی اورخالص بندگی کرنا اور اللہ کے عرفان کا حصول ہے۔
حاصل مطالعہ:
یادداشت
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………
……………………………………………………………………