لاشعوری استعداد میں اضافہ اور وقت میں برکت

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



لاشعوری استعداد میں اضافہ  اور وقت میں برکت




روحانی علوم کی تفہیم اورلاشعوری استعداد میں اضافے کے لیے ذکر اورمراقبہ کے ساتھ ساتھ ایک اورطریقہ اختیارکیاجاتاہے۔اس طریقے کا تذکرہ بھی تقریباً تمام سلاسل طریقت میں ملتاہے۔ سلاسل طریقت کے بزرگوں نے خود بھی اس پرعمل کیا ہے اوران کے شاگردوں (مریدین)نے بھی اس پر عمل کیاہے۔ یہ ہے کمی یا قلت کردینا۔یہ کمی یا قلت خصوصاً ان تین  چیزوں میں درکار ہے۔
1۔ گفتگو 2۔کھاناپینا 3۔  نیند 
گفتگو میں کمی کردنیا،باقی دوامور سے آسان معلوم ہوتا ہے۔آدمی غیر ضروری گفتگو سے گریز کرے گا،کم بات کرے گا تواس کی جسمانی اورذہنی صحت پرکوئی منفی اثر نہیں ہوگا لیکن عام خیال یہی ہے کہ کھانا پینا کم کردینے سے ،نیندکم کردینے سے صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ غذا کے ذریعہ انسانی جسم کو کیلوریز ملتی ہیں۔ کم غذا لینے سے مطلوبہ کیلوریز نہیں ملیں گی۔نیند صرف آرام کاذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ نیند کے دوران جسم میں ریپیئر اینڈ مینٹی نینس Repair & Maintenance کاعمل وقوع پذیر ہوتاہے۔ نیند کی کمی سے اس رپییئراورمنٹی نینس کاعمل متاثر ہوسکتاہے۔ 
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی تعداد میں صوفیائے کرام نے تقلیل طعام اورتقلیل نوم یعنی کھانے پینے اورنیند میں کمی کردینے کے باوجود بہت بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ماضی اورحال میں اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ماضی کی ایک نمایاں مثال  تاریخ اسلام کے عالی مرتبت مفکر،صوفی بزرگ حضرت محمد بن محمد الغزالیؒ کی ہے۔ امام غزالی ؒ کا سن ولادت 1058ء اورسن وفات1111ء ہے۔عیسوی تقویم کے لحاظ سے آپ نے 53سال کی عمر پائی۔ زندگی کے ابتدائی بیس برس حصول علم میں صرف کیے ۔تقربیاً تیس سال کی عمر میں بغداد کے مشہور مدرسہ نظامیہ کے معلم مقرر ہوئے۔  اولیاء اللہ کے زیر تربیت محمدالغزالی کایہ یقین ،حق الیقین میں تبدیل ہوا کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے عقل کافی نہیں۔ امام غزالی  نے پچیس سال کی مدت میں انہتر کتابیں لکھیں۔ جن میں سے اکثر کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔ آپ ؒ  کی معروف تصانیف   میں کیمیائے سعادت اور احیائے علوم الد ین  جیسی معرکۃ آلارا اور انتہائی ضخیم تصانیف بھی شامل ہیں۔
حضرت اما م جعفرصادق  (80ھ تا 145ھ)کی عمرپینسٹھ سال تھی۔ ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو علم پھیلانے میں صرف کیا۔ اس دوران انہوں نے علم الحدیث، علم الکلام، کیمیا، طب ،فلسفہ اوردیگر علوم پر شاگردوں کو دروس دئیے۔ 
امام بخاری (194ھ تا 256ھ)نے باسٹھ برس عمر پائی۔ دورطالب عمری میں ہی انہوں نے مشہور عالموں کی کتابیں اور پندرہ ہزار سے زائد احادیث حفظ کرلیں تھیں۔علم حدیث کے شوق میں انہوں نے اس دورمیں شام، مصر اور جزیرہ کا دومرتبہ اور بصرے کا چارمرتبہ سفر کیا۔ چھ سال مکہ میں گذارے۔   احادیث کے علاوہ انہوں ے تاریخ ، تفسیر اورفقہ پر بھی کتابیں تصنیف کیں۔
بوعلی سینا کا شمار عظیم سائنسدانوں میں ہوتاہے۔ انہوں نے صرف 57برس عمر پائی۔سترہ برس کی عمر تک حصول تعلیم میں مصروف رہے تھے۔ آپ نے  تقریباً 15سال سفر میں گزارے۔اس کے بعد انہوں نے فلسفہ، منطق، ریاضی، فزکس، کیمیا، ارضیات اور طب کے موضاعات پر کئی ضمیم کتب لکھیں جو آج بھی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 
 بارہویں صدی کی عبقری شخصیت ، عظیم فلسفی،  مفکر اور محقق    شیخ اکبر  حضرت محی الدین ابن عربی ایک ایسے غیر معمولی  اور منفرد  مصنف تھے  انہوں  نے 75 برس کی عمر پائی۔ بطور مصنف     46  برس میں 800 سے زیادہ ضخیم کتابیں تصنیف  کیں، آپ کی صرف ایک کتاب فتوحاتِ مکیہ کے صفحات کی تعداد   تقریباً 15 ہزار تھی ، اس دوران  آپ نے اندلس سے شمالی افریقہ ، مصر،  عرب، شام، عراق ،  یروشلم ، ترکی تک سفر بھی کیے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ایک دن میں سو سے زاید صفحات لکھتے ہوں گے۔   
موجودہ دور میں  عالم اسلام کے دانش وروں  اور  مفکروں   میں سے ایک عظیم اور حیرت انگیز شخصیت ڈاکٹر حمید اللہ تھے۔ جنہوں نے مختلف زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے،  آپ 22 زبانوں کے ماہر تھے   اور سیکھنے کا عمل انہوں نے تا عمر جاری رکھا ،   84 سال کی عمر میں اپنے وصال سے پہلے انہوں نے آخری زبان تھائی سیکھ لی تھی۔  آپ نے  58 ہجری میں لکھی گئی حدیث کی اولین کتاب ‘‘صحیفہ ہمام بن منبہ ’’کی  تاریخی دستاویز کو 1300 سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور تحقیق کے بعد شائع کرایا۔  ‘‘تعارف اسلام ’’ کے نام سے ایک شاہکار کتاب لکھی جس کے دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔  آپ  نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ و تفسیر لکھا جس  کے بیسوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،  آپ  کے ہاتھ پر چالیس ہزار  سے زاید غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا۔  



<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 


حالیہ دور میں ہمارے لیے سب سے نمایاں مثال سلسلہ عظیمیہ کے مرشد حضر ت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی ہے۔ آپ نے اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے معاشی ذمہ داریاں بھی پوری کیں،خدمت خلق کے مشن میں بیس لاکھ سے زیادہ خطوط کے جواب دیے۔لاکھوں لوگوں سے بالمشافہ ملاقات کی۔اخبارات میں کالم اور مضامین لکھے۔ روحانی ڈائجسٹ کا اجراء کیا،اس کی ادارت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔مختلف متنوع موضوعات پرپچاس سے زایدکتابیں لکھیں۔ مختصر کتابچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں ماہنامہ قلندر شعور کا اجراء کیا۔ پاکستان اوربیرون پاکستان دوردراز علاقوں میں مسلسل سفر بھی فرماتے رہے اورسلسلہ عظیمیہ کے مشن کو پھیلانے میں مسلسل کوششیں کرتے رہے۔پاکستان اوربیرون پاکستان مختلف یونیورسیٹیز میں اورکئی دوسرے تعلیمی اداوں میں لیکچر دیے۔ 
ایک طرف اتنے بہت سارے کام دوسری طرف  غذابہت سادہ اورنیند بہت کم ۔ ایک ہستی نے اتنے بہت سارے بظاہر ناممکن نظرآنے والے کام کس طرح سرانجام دیئے....؟
ایک طرف تویہ سمجھا جارہا ہے کہ کھانا پینا کم کردینے سے اورنیند کم کردینے سے توانائی کی فراہمی متاثر ہوگی۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیاء کرام کے زیرتربیت کئی افراد نے ان طریقوں پر عمل کرکے بہت اعلیٰ بلکہ انتہائی غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ سب کس طرح ممکن ہوا.....؟
اس غیر معمولی کارکردگی کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرنا آجائے تو   ایسی ہستی کی  استعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتاہے۔ 
روحانی سلاسل میں پیرومرشد کی زیر نگرانی تربیت ،  ذکر واذکار ،  مراقبہ اوردیگر مشقوں کے ذریعہ مرید کو بہت زیادہ توانائی (Energy)ملتی ہے۔
ہر انسان جتنا چاہے کم یا زیادہ ،وقت سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی طر ف سے خودکو عطا کردہ صلاحتیں کو بروئے کار لاکر ایک ہفتہ کاکام ایک دن میں بھی کرسکتاہے توایک شخص ایک دن کا کام کرنے میں ہفتہ یامہینہ بھر لگاسکتاہے۔ اس زمین پربسنے والے ان دونوں افراد کے لیے دن چوبیس گھنٹوں کا ہی ہے۔ دونوں ایک ہی شہر ایک جیسی آب وہوا میں رہنے والے ہیں، البتہ  دونوں کے ذہنی رویوں اوروقت سے استفادہ کرنے کے انداز میں فرق ہے۔وقت گذر نے کی رفتار کا تعلق کہیں شماریات سے ہے تو کہیں صرف احساس سے ۔ انسان کواللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطافرمائی ہے کہ وہ اس زمین پر رہتے ہوئے بھی بیک وقت مختلف ٹائم زون کی کیفیات کو محسوس کرسکے۔ ضرورت صرف اسے سمجھنے اور بروئے کار لانے کی ہے۔  مادی طورپر رفتار بڑھا کر وقت گھٹانے کی عام مثالیں جیٹ ہوائی جہاز ،خلائی جہاز وغیرہ ہیں۔
اپنی شعوری زندگی میں اس زمین پر مادی عالم میں رہتے ہوئے بھی ذہن کی رفتار بڑھا کر بالکل اسی طرح نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جیسے کہ تیز رفتار ہوائی جہاز سے سفر کرکے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کیا جاتاہے۔ تاریخ سے اس کی نمایاں مثالیں مندرجہ بالا  اسکالر ز کا علمی کنٹری بیوشن ہے۔
آج کل اکثرلوگ وقت کی کمی کاشکوہ کرتے ہیں۔مرد اپنے روزگار میں،خاتون خانہ گھریلو کاموں میں،طالب علم کالج و یونیورسٹی میں اس قدر مصروف ہیں کہ اپنے کئی ضروری کاموں کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے ۔اس مصروفیت کے عالم میں ہم دیکھتے ہیں کہ کئی بزرگوں نے کم وقت میں بھی بہت زیادہ کام سرانجام دیئے۔ ایسااس لیے ہوا کہ ان بزرگوں کے وقت میں برکت ہوگئی۔ 
وقت میں برکت کا کیا مطلب ہے....؟
وقت میں برکت کا ایک مطلب ذہن کی رفتار کا بڑھنا بھی ہے۔ رفتار بڑھنے سے فاصلے سمٹنے لگتے  ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وقت عطیہ خداوندی ہے۔ 
ہمیں وقت کی قدرکرنا ہے۔ وقت کی قدر صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بیکار بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہے۔ صحیح معنوں میں وقت کی قدر کرنا یہ ہے کہ وقت سے زیادہ سے زیادہ  استفادہ کیاجائے۔ وقت کا حق پہچاناجائے اور یہ حق اداکرنا سیکھا جائے۔



اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے