ظاہری اور باطنی اصلاح کی اہمیت
سلاسل طریقت کے اہم ترین کامیوں میں سے ایک اپنے وابستگان، اپنے مریدوں کو تزکیہ نفس کے لیے تیار کرنا اور ان میں تقویٰ کو بڑھانا ہے۔ سلاسل طریقت کے علمی اور عملی اسباق کا مقصد اللہ کی عبادت اور اطاعت کی رغبت دلانا، معلم اعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو سمجھنا اور سنت نبوی کی پیروی کرنا اور اطیعواللہ و اطیعوالرسول میں مسلسل آگے بڑھنے کی ترغیب دینا ہے۔
گھر اور معاشرے کا ماحول، تعلیم، دوستوں اور دیگر افراد کی ملنے والی صحبت سے آدمی کی فکر متاثر ہوتی ہے۔ آدمی کی شخصیت دراصل اس کی فکر کا اظہار ہوتی ہے۔ شخصیت میں اچھی صفات بھی ہوسکتی ہیں اور بری صفات بھی۔ جس قسم کی صفات کا غلبہ ہوتا ہے آدمی کی شخصیت کے بارے میں ویسا ہی تاثر قائم ہوجاتا ہے۔ گویا اچھی صفات اور اچھی عادتوں سے شخصیت سنورتی ہے اور بری صفات اور بری عادتوں سے شخصیت بگڑتی ہے۔
اچھی شخصیت والے افراد سچے، دیانت دار، خدا ترس، ہم درد، دوسروں کے خیر خواہ، حسنات کو ترجیح دینے والے اور مثبت کاموں کو فروغ دینے والے ہوتے ہیں۔ بری شخصیت والے افراد جھوٹ بولنے والے، دوسروں کو فریب دینے والے، حاسد اور تنگ دل حسنات کے بجائے اپنے مفادات کے لیے سیئات کو ترجیح دینے والے اور معاملے کے خراب ہوتے ہیں۔
سلاسل طریقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ مریدین کو اچھے، احسن اوصاف کو بڑھانے کی ترغیب و تعلیم دی جائے اور خراب اور سیئہ عادتوں کو کم سے کم کرنے کی کوششیں کی جائیں۔
ذاتی اصلاح:
ذاتی اصلاح میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کی اصلاح شامل ہے۔ اصلاح ظاہری ہو یا باطنی عام طور پر یہ درجہ بدرجہ یعنی بتدریج ہوتی ہے۔ تاہم اس کام کے لیے مرید کا خود آمادہ ہونا اور ذہنی طور پر تیار ہونا لازمی ہے۔ بعض اوقات دکھاوے کے لیے یا کسی وقتی جذبے کے تحت اصلاح کے لیے آمادگی کردینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اصلاح کا پروسیس تو دراصل انسان کے باطن سے ہی تعلق رکھتا ہے لیکن معاشرتی سطح پر کئی معاملات میں ظاہری طور پر اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔
آئیے ....! ظاہری اصلاح سے بات شروع کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر جو چیزیں اہم ہیں ان میں سرفہرست لباس ہے۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ لباس سستا ہے مہنگا، لیکن جو کچھ پہنا جائے وہ صاف ستھرا ہونا چاہیے۔ اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کا لباس پھٹا ہوا نہ ہو۔ لباس کم قیمت کا ہو تو احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ لباس قیمتی ہو تو تکبر سے خودکو آلودہ نہ ہونے دیں۔
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مالی طور پر خوش حال تھا لیکن اس نے بہت سستا سا لباس پہنا ہوا تھا۔ انہیں اس حال میں دیکھ کر حضور ﷺ نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو نعمتیں عطا فرمائے انسان کے حال سے اس کا اظہار بھی ہونا چاہیے۔ [مسند احمد، سنن ابو داؤد و نسائی]
نعمتوں کے اظہار میں شکرگزاری کا جذبہ ہوناچاہیے دکھاوے اور تکبر کا نہیں۔ ہم جو لباس پہنیں وہ لباس صاف ہونا چاہیے ، اس پر داغ دھبے نہیں ہونےچاہئیں، پھٹا ہوا نہیں ہو نا چاہیے، اگر پھٹ جائے تو ضروری نہیں ہے کہ اسے پھینک دیا جائے۔ اسے سی لیں۔
ہمارے ہا تھ منہ دھلے ہوئے ہوں، نا خن صحیح طرح ترا شے گئے ہوں ہمیں چاہیے کہ ہم دل سے صفائی کے قائل ہوں۔
دل سے قائل ہو نے کا مطلب کیا ہے....؟ اس کی چھوٹی چھو ٹی نشا نیاں ہو تی ہیں جنہیں ہم ٹیسٹ کرسکتےہیں۔
خود کو مانیٹر کریں:
ہا تھوں کے ناخن دیکھیں ان میں میل تو نہیں بھرا ہوا، اکثر یت کے بالکل ٹھیک ہوں گے، ناخن درست کٹے ہوئے ہو ں گے۔ اپنے پیرو ں کے ناخن چیک کر لیجئے ۔پیروں کے ناخن صحیح طرح سے ترا شے گئے ہیں یا نہیں اور اگر وہ بڑے ہو ئے ہیں تو ان میں میل تو نہیں ....
اگر کوئی شخص بہت اچھا صاف ستھرا لباس پہنے ہوئے ہو لیکن اس کے پیروں کے ناخنو ں میں میل بھرا ہوا ہے تو اس سے کیا ظاہر ہو رہا ہے ....؟
اس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ وہ شخص دل سے صفائی کا قائل نہیں ہے ۔
گفتگو:
انسان کی شخصیت کی ظاہری پہلوؤں میں اس کی گفتگو کی بہت اہمیت ہے۔ گفتگو کا اندا ز کیسا ہے، اس پر تو جہ دیجیے۔ گفتگو میں دوسروں کے لئے ادب و احترام کے الفاظ شامل کیجیے۔
الفا ظ سے بھی زیادہ اہم ہے لہجہ… اس بات پر غور کیجئے کہ کبھی کو ئی ادب وا لا لفظ بھی سخت لہجہ میں کہا جا ئے تو آدمی کے دل پر جا کر لگتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اس بات کا جا ئزہ لیں کہ ہمارے لہجے میں کو ئی تلخی تو نہیں ہے۔ حا لانکہ ایک شخص کے دل میں کسی کے لیے احترام ہو تا ہے، Respectہوتی ہے۔ لیکن لہجہ کی تلخی دوسرے شخص کو تذبذب میں ڈال دیتی ہے کہ یہ میری Respect کر رہا ہے یانہیں ۔
ہم اس بات کی پریکٹس کریں کہ ہما ری گفتگو کے الفا ظ اچھے ہوں اور الفا ظ سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ لہجہ نرم بلکہ شیریں ہو یہ عمل ہماری پرسنیلٹی Development میں بہت زیادہ مددگار ہوگا۔
<!....ADV>
<!....AD>
خوش اخلاقی اور ادب و احترام:
ظا ہری اصلاح میں خوش اخلاقی کی بہت اہمیت ہے۔ لوگوں سے ملنے جلنے میں ہمارا رویہ خو ش اخلا قی پر مبنی اور ادب و احترام کا حامل ہو نا چا ہیے۔
ہر خا ندان کے ، ہر برا دری کے ، ہر ما حول کے کچھ ادب آداب Manners & Etiquettes ہوتے ہیں ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے ۔
کھانے پینے کے آداب کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت اور اہمیت ہے۔
دیانت داری:
دیانت داری.... روحانی تربیت کا حصہ ہے۔
ظا ہری معا ملات میں کا روباری معاملات میں دیانت دا ری ایک اہم معاملہ ہے۔
معاش کے معا ملات میں ہر انسان کا مالی مفاد Interest وابستہ ہو تا ہے۔ اس میدان میں کئی لوگ بےصبرے ہو جا تے ہیں۔ وہ سودا چند سو روپے فا ئدہ کا ہو، چاہے دس بیس ہزار کے فا ئدہ کا ہو، چاہے بیس لا کھ کے فا ئدہ کا ہو۔ بہت سا رے لوگ اس میں جلد بازی کر تے ہیں اور مختلف اخلاقی قدروں کو پھلانگ کر یہ چا ہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے میرا مفاد پورا ہو جائے۔ صا ف ستھرے کا روباری معاملات با عثِ برکت ہو تے ہیں۔ اس بر کت کا اظہار قدرت کی جانب سے مختلف طریقوں سے ہو تا ہے۔ کا روباری معاملات میں دیانت داری بھی روحانی تربیت کا حصہ ہے۔
وعدوں کی پاس داری :
کا روباری معا ملات ہوں، معا شی یا معا شرتی معاملا ت ہوں یا گھریلو معاملات ہوں‘‘وعدوں کی پاس داری’’ ایک بڑی اہم چیز ہے۔
مثلاً آپ نے کسی سے کہا کہ کل آپ کے پاس آؤں گا .... یہ بھی آپ کا وعدہ ہی ہے اس کی پاسداری روحانی تر بیت کا حصہ ہے ۔
دوستوں کا انتخاب:
ظا ہری معا ملات میں ایک اہم بات ‘‘ دوستوں کا انتخاب’’ ہے۔ اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کے دو ست اچھے افراد ہو نے چاہئیں ۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے،
‘‘ آدمی اپنے دوستوں کے دین پر ہو تا ہے۔’’
لہذا جب کسی سے دو ستی کی جائے تو یہ دیکھ لیا جائے کہ کس سے دو ستی کر رہے ہیں۔
ہمارا مختلف لو گوں کے سا تھ ملنا جلنااور Interactionہو تا ہے۔ جہاں ہم کام کر تے ہیں وہاں کو لیگز ہو تے ہیں۔ بہت سا رے لوگوں کا اپنے کاروبار کے لئے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔
ان میں سے کچھ لو گ آپ کو اچھے لگتے ہیں اور کچھ لوگ نا پسند ہو تے ہیں، لیکن ان کے سا تھ رہنا مجبوری ہے ۔ ان کے سا تھ رہناکا روباری تعلق کہلا تا ہے، اس تعلق کو دو ستی نہیں کہتے اسے کا روباری یا پبلک ریلیشن کہہ لیں یا کا روباری یا معا شی تعلقا ت کہہ سکتے ہیں۔ ایسے مواقع پر دوستوں کا انتخاب ہم خود نہیں کر تے بلکہ جو لوگ ساتھ کام کر تے ہیں ہمیں ان ہی کے سا تھ اُٹھنابیٹھناہوتاہے۔
اسی طرح پڑوس کا معاملہ ہے۔ پڑو سی اپنی مرضی سے چن کر نہیں لا ئے جا سکتے ۔پڑو س میں اچھے لوگ بھی ہو تے ہیں بعض اوقات اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھیں کچھ اذیت دینے والے یا خراب لوگ بھی پڑوس میں آجا تے ہیں لیکن بہر حال ان سے ملنا جلنا رکھنا ہو تا ہے۔ہم سب پڑوسیوں کو اپنا دوست تو نہیں کہہ سکتے مگروہ تعلق دار یقیناً ہو تے ہیں۔
ان تعلقا ت کے بر عکس دو ستوں کا انتخا ب آدمی خود کر تا ہے ۔ آدمی چا ہتا ہے کہ اپنے مزاج کے مطابق دوست بنائے۔ دوسروں کے مزاج سے وہ متاثر بھی ہو تا ہے۔ اس لئے کو شش کیجئے کہ اچھے لو گوں کے دوست بنیں۔
دعا کرتے رہیے کہ اللہ کی مہر بانی سے حضورﷺ کی تعلیمات کے زیر اثر ہم علم نافع کے حریص اور طالب بنیں۔ ہم میں دوسروں کے لیے خلوص اور محبت کے جذبات پروان چڑھیں۔ اچھے لوگ ہمیں دوست بنانا چاہیں اور ہم اچھے لوگوں کو دوست بنائیں۔ آمین