باتیں قلندر بابا اولیاء کی
قلندر بابا اولیاؒء یہ نام آج زبان زد خاص و عام ہے۔ جس مبارک و مسعود ہستی کا یہ خطاب ہے ہم اسے ‘‘اماں” کہہ کر پکارتے تھے۔ اس ہستی سے تعارف تو اول روز سے ہی ہے کہ ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اور جس ماحول میں پرورش پائی اس میں قلندر بابا اولیاء کی ہستی گھنے درخت کے سایہ کی طرح ہر طرف محیط تھی۔ اماں ہمارے لئے محبتوں کا خزانہ تھے۔
میں اسکول میں پڑھا کرتا تھا کہ اماں کے اندر چھپے ہوئے ایک بڑے آدمی کا وجود رفتہ رفتہ مجھ پر آشکار ہونا شروع ہوا۔ اماں کے سامنے میں نے خاموشی اور ادب سے بیٹھنا شروع کردیا۔ مختلف لوگ اماں سے مختلف موضوعات پر بات کرتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ اماں سوال سن کر اکثر برجستہ جواب دینا شروع کر دیتے تھے۔ اماں سے بات کرنے کے لئے کسی موضوع کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہیں شعر و ادب سے خصوصی لگاؤ ضرور تھا لیکن ان سے مذہب و روحانیت کے علاوہ کیمسٹری اور جغرافیہ پر بھی بات کی جاسکتی تھی اور طب وحکمت پربھی ۔ وہ اپنے پسندیدہ علوم کے مختلف شعبوں کے بارے میں سوالوں کا جواب اتنی آسانی و برجستگی سے دیتے تھے کہ جیسے وہ اسی ایک شعبے کے ماہر ہوں۔
اماں کے پاس بیٹھنا اور ان کی باتیں سننا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ ذہن جیسے کہ کھل جاتا اور نئی نئی باتیں ذہن میں آنے لگتیں۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت میں جو باتیں ہوئیں وہ سب کی سب الفاظ و جملوں کی شکل میں من و عن تو اب ذہن میں نہیں ہیں البتہ ان باتوں کا مفہوم اور تاثر ذہن میں رچ بس کر میری شخصیت کا حصہ بن گیا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اماں کی عظمت و توقیر میرے دل میں بڑھتی رہی اور اب ایک نیا احساس دل میں جاگزیں ہوا وہ یہ کہ جس طرح اماں کو ہمارے ابا جانتے ہیں یا ہم چند لوگ جانتے ہیں اسی طرح انہیں سارا عالم جانے۔ جی چاہتا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اماں کی باتیں پہنچیں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
اماں کا پیغام پھیلنا چاہیئے کہ محبت کا پیغام ہے۔ وہ اللہ کی محبت و چاہت کی باتیں بتاتے ۔ وہ کہتے کہ اللہ کے قریب ہوجاؤ اللہ سے محبت کرو اللہ تعالیٰ خالق ہیں ان کی ہر تخلیق محبت کی ساتھ تشکیل پائی ہے چنانچہ تم بھی ہر دوسرے فرد سے محبت کرو۔ اسے اچھا جانو ، اس کا احترام کرو۔
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں کسی دوسرے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے تو پہلے اپنی ذات کو دوسروں کے لئے باعث راحت و سکون بناؤ۔ بہتر بات یہ ہے کہ تمہاری ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچے لیکن اگر یہ کوئی نہیں کرسکتا تو اتنا ضرور کیا جائے کہ اس کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات یہ ہیں کہ نوع انسانی کو ہولناک تصادم سے بچنے اور اپنی بقاء کے لیے توحید کی اس تعریف پر مجتمع ہونا ہوگا جو قرآن پاک نے متعین کی ہے اور ان رہنما اصولوں کی پیروی کرنا ہوگی جو انسان کامل محمد رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائے ہیں۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ دنیا میں رائج نظام حکومت و معیشت انسانی صرف انسانی عقل پر بھروسہ کر کے بنائے گئے ہیں اور ان میں وحی سے ملنے والی رہنمائی کو شامل نہیں کیا گیاہے۔ حالانکہ انسانی عقل کو وحی کے تابع ہوناچاہیے۔
مسلمان قوم کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے وحی کی تعلیمات کو سرے سے نظر انداز تو نہیں کیا لیکن اس نے یہ غضب ڈھا دیا کہ حکومت و معیشت کے معاملات قرآن کی ہدایت و رہنمائی کے بغیر چلائے جانے لگے اور دین کے احکامات کو محض عبادات تک محدود کردیا گیا۔ عبادات و معاملات کو ایک ساتھ رکھنے کے بجائے معاملات کو عبادات سے الگ کردیا گیا۔ ان تمام عوامل کے باعث آج مسلمانوں کے معاشروں میں منافقت اور دھوکے پن نے رواج پانا شروع کردیا ہے۔ عبادات روح سے خالی ہو کر رہ گئیں۔ معاملات میں ذاتی مفاد کو ترجیح دی جانے لگی اور افراد معاشرہ میں بحیثیت مجموعی دنیا اور آخرت میں جواب دہی کا احساس بہت کم رہ گیا۔
بابا صاحب کی تعلیمات کے مطابق معاشرہ کو اس صورتحال سے نجات دلانے کے لیے اس طرز کی رہنمائی کی ضرورت ہے جو مادی اور روحانی دونوں لحاظ سے جامع ہو۔ یہ کام ان لوگوں کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے جن کے قلب و ذہن مادی علوم کے ساتھ ساتھ روحانی علوم کی روشنیوں سے بھی منور ہوں۔