رومیؒ کے شہر میں

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


رُومی کے شہر میں



آج 5 جمادی الثانی مولانا جلال الدین رومیؒ کا یومِ وصال ہے۔ آج سے  748 برس قبل  مولانا رومؒ  5جمادی الثانی 672ھ بمطابق 17 دسمبر 1273ء  کو اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ 

رومی کے یوم وصال کے موقع پر ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے سفرنامہ ترکی  سے   مزارِ رومی پر حاضری کا  اقتباس  پیش خدمت ہے۔ 

 
 ترکی کے شہرقو نیہ میں  اسلامی دنیا بلکہ یوں  کہناچاہیے کہ ساری دنیا کی ایک انتہائی قابل احترام ہستی محو استراحت ہے۔ یہ مثنوی معنوی کے خالق مولانا جلال الدین رومی ہیں ،مثنوی منعوی کو’’ہست قرآن درزبان پہلوی ‘‘کا لقب بھی ملا ہے۔
ہفتہ (اکتوبر 2009ء) کے دن تقریباً گیارہ بجے ہم مولانا کے مزار میں  داخل ہوئے توایک سحر اورتحیر نے ہمیں  اپنی لپیٹ میں  لے لیا۔ترک قوم نے اس عظیم ہستی کاحق ادا کرنے کی خوب سعی کی ہے۔مولانا کا مزار اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔مزا رکے ستونوں  ،دیواروں  اور چھت پردیدہ زیب رنگوں  میں  نہایت دلکش خطاطی کی گئی ہے۔ مولانا اوران کے والد کے قبریں سبز رنگ کی ایک بڑی چادر سے ڈھکی ہوئی ہیں ۔ اس چادر پر نہایت خوبصورت کام بنا ہوا ہے ۔مزار ایک بڑے مستطیل نما کمرہ میں  ہے ۔اس کمرے کے بیرونی دروازے سے مزار میں  داخل ہوں  تو بائیں  ہاتھ پر دیوار کے ساتھ کئی عمدہ نقوش ہیں  جبکہ دائیں  ہاتھ پر ایک قطار میں  کئی قبریں  ہیں ۔یہ مولانا سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھنے والے افراد کی قبریں  ہیں ۔ یہ قبریں بھی نہایت عمدہ منقش چادروں  سے ڈھکی ہوئی ہیں  ۔ یہاں  سے آگے چلیں  تو آخرمیں  مولانا رومیؒ اوران کے والد کی قبریں  آتی ہیں ، اس کے بعد راہداری بائیں  طرف مڑ جاتی ہے۔ چند قدم کے فاصلے پر واقع دوسرے کمروں  میں  رومی میوزیم بنایا گیا ہے۔جہاں  مولانا روم ؒکی نسبت سے صدیوں  پرانی کئی اشیاء نہایت اہتمام کے ساتھ رکھی گئی ہیں ۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کی ولادت بلخ شہر میں   602ھ بمطابق1207ء ہوئی۔جلال الدین بن محمد بہاؤالدین  جوآگے چل کر مولانا رومؒ کے نام سے مشہور ہوئے، خلیفۂ رسول ۔ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اولادمیں  سے ہیں ۔جلال الدین کے والدمحمد بہاء الدین علم وفضل میں  نہایت اعلیٰ مقام پرفائزتھے۔ عالم اسلام کے ممتاز مفکر فخر الدین رازیؒ ، حکمران وقت محمد خوارزم شاہ کے ساتھ حضرت بہاء الدین کی مجلسوں  میں  حاضر ہوتے تھے۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ نیشا پور میں  خواجہ فرید الدین عطارؒحضرت محمد بہائِالدینؒ سے ملنے آئے۔وہاں  اس وقت جلال الدین بھی موجود تھے جن کی عمر اس وقت تقریباًچھ برس تھی۔ عطارؒ نے جلال الدینؒ  کو دیکھا اوردیکھتے ہی پہچان لیا،پھر عطار بہاء الدینؒ سے مخاطب ہوئے اورفرمایااس جوہر قابل سے غافل نہ ہونا ، یہ کہہ کر اپنی کتاب’’مثنوی اسرار‘‘ چھ سالہ جلال الدینؒ کوعنایت کی۔ 
جلال الدینؒ اپنے والد حضرت محمد بہائالدینؒ اور برہانِالدین محقق ؒ کے علاوہ اپنے زمانے کے کئی نامورعالموں  سے تحصیل علم کے بعد علم وفضل میں نہایت بلند مقام پر فائز ہوئے۔ علم ظاہری کا رنگ مولانا پرغالب تھا۔ علمی برتری کا زعم بھی ساتھ تھا لیکن قدرت مولانا سے کچھ اورکام لینا چاہتی تھی۔جلال الدین  قونیہ میں  درس دیا کرتے تھے۔ اُدھر دوردراز علاقے تبریز میں  ایک صوفی بزرگ شمس تبریز تھے، انہیں  حکم ملا کہ قونیہ جاؤ وہاں  ایک دل سوختہ کا حال تمہیں درست کرنا ہے۔ شمس تبریز گھومتے پھرتے قونیہ پہنچے،یہاں  مولانا جلال الدین بہت تزک واحتشام کے ساتھ رہ رہے تھے۔





<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

 مولانا جلال الدین تصوف کو شکوک وشبہات کامجموعہ سمجھتے تھے۔ایک دن درویش شمس تبریز، جلال الدین کے حلقہ درس میں  پہنچ گئے اورجلال الدین سے پوچھا کہ تم کیا پڑھا رہے ہو۔۔۔۔۔؟
 جلال الدین کو اپنی علمی مجلس میں  ایک فقیر کا منہ اٹھائے چلے آنا اوراس طرح سوال کرنابہت بُرالگا۔انہوں  نے بیزاری سے فقیر کی طرف دیکھا اورڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ وہ علم ہے جسے تم جیسے لوگ نہیں  جانتے جاؤ اپنی راہ لو۔
شمس تبریز نے مولانا کو توکوئی جواب نہیں  دیا البتہ ان کی قلمی کتابیں  اٹھاکر پانی سے بھرے ہوئے حوض میں  ڈالدیں ۔ یہ منظر دیکھ کر مولانا کے شاگرد دوڑے، بعض نے درویش کے ساتھ بدزبانی بھی کی۔کچھ شاگرد شمس تبریز کو مارنے پیٹنے لگے۔ جلال الدین نے غصہ میں  کہا ’’ اے درویش! تو نے ایسی نایاب چیزیں کیوں ضائع کردیں  جو اب کسی طرح نہیں مل سکتیں ۔۔۔۔۔؟
شمس تبریز نے پوچھا :
’’تم حوض میں  پڑی ہوئی گیلی کتابوں  کے بارے میں  فکرمند ہو۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یہ کتابیں  برسوں  کی علمی ریاضت سے لکھی گئی تھیں ۔۔۔۔۔اے فقیر! تونے میری ساری محنت ایک لمحہ میں  برباد کردی‘‘۔۔۔۔۔جلال الدین نے غصہ میں  کہا۔
’’اچھا بھئی !ہم تمہاری کتابیں  تمہیں لوٹادیتے ہیں ‘‘۔
یہ کہہ کر شمس تبریز نے اپناہاتھ اُس حوض میں  ڈالا اورکتابیں  باہر نکال کر رکھ دیں ۔ ایک ناقابل یقین بات حقیقت بن کر سامنے آئی کہ پانی میں  ڈوبی ہوئی وہ تمام کتابیں  بالکل صحیح حالت میں  آگئیں ، جیسے انہیں  پانی کا ایک قطرہ بھی نہ لگاہو۔
کتابوں  کے تمام الفاظ ،تمام سطریں  بالکل محفوظ تھیں ۔ یہ دیکھ کرظاہری علم کے ماہر جلال الدین پر حیرتوں  کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ کچھ دیر تک تو جلا ل الدین گم سم کھڑے رہے ذرا حواس بحال ہوئے تو انہوں  نے شمس تبریز سے پوچھا ’’یہ کیاعلم ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
 اﷲ کے دوست شمس تبریز نے جواب دیا :
’’یہ وہ علم ہے جو تم نہیں  جانتے۔‘‘
اب لوگوں  نے ایک اورناقابل یقین منظر دیکھا۔ انتہائی تزک واحتشام کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا اپنے وقت کا سب سے بڑاعالم ایک بظاہر عام سے شخص کے قدموں  میں یعنی درویش شمس تبریز کے قدموں  میں  گرکر معافی طلب کررہاتھا۔روایات کے مطابق یہ واقعہ 642 ہجری کا ہے۔ شمس تبریز نے جلال الدین کا ہاتھ پکڑ کر اوپر اٹھایا اورانہیں  اپنے سینے سے لگا لیا۔ اﷲ کے ایک ولی نے جلال الدین کا ہاتھ کچھ اس طرح پکڑ کر انہیں  اوپراٹھایاکہ جلال الدین کو ہمیشہ کے لیے قددرومنزلت اوربلندی مل گئی۔ جلالِالدین علم ظاہر میں  توبہت بلند مقام پر فائزتھے ہی ، شمس تبریز ی کی صحبت وتربیت نے ان کی باطنی نگاہ بھی کھولدی۔ مولانا رومیؒ کے معنوی شاگرد و مریدہندی ،شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس واقعہ کو اپنی ایک فارسی نظم میں  خوب بیان کیا ہے۔
مولانا رومیؒ  کے مزار کے ساتھ والے کمروں  میں  رومی میوزیم قائم کیا گیا ہے۔ یہاں  قرآن پاک کے کئی قدیم قلمی نسخوں  کے علاوہ مولانا رومی کی نسبت سے کئی اشیاء رکھی گئی ہیں ۔ 
مولانا رومؒ کا مزار اور میوزیم ایک بڑے علاقے پر تعمیر کیا گیا ہے، اس عمارت میں  داخلے کے لیے 2لیرا فی کس کا ٹکٹ لینا ہوتا ہے۔ یہاں  ہم نے دیکھا  کہ ناصرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں  آئے ہوئے تھے۔ مولانا رومیؒ کا کلام ناصرف ایشیاء کی مسلم اور غیر مسلم اقوام میں  بلکہ یورپین اقوام میں  بھی بہت مقبول ہے۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق رومی ، امریکہ کے مقبول ترین شاعروں  میں  ہیں ۔ 
مولانا رومؒ کے مزار کے کمرے میں  داخل ہونے کے لیے تعمیر کردہ درازے کے اوپر لکھا گیا ہے کہ یہ جگہ عاشقوں  کا کعبہ ہے۔
روایت ہے کہ حضرت بو علی شاہ قلندر پانی پتی  ؒ بھی مولانا رومؒ کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور اُن سے فیض پایا۔ مولانا رومؒ کے انتہائی عقیدت مندوں  میں  شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ بھی شامل ہیں ۔ برادر ترک قوم نے رومی سے اقبال کی عقیدت کو بھی شایانِ شان طریقے سے یاد رکھا ہے۔ مولانا روم کے مزار و میوزیم کی عمارت کے احاطے میں  ایک جگہ علامہ اقبال کی یاد میں  ایک تختی نصب کی گئی ہے۔ 
رومی کے مزار پر حاضری کے بعد ہم نے رومی کے مرشد حضرت شمس تبریز کے مزار پر حاضری دی۔ شمس تبریزی ؒ کا مزار رومی میوزیم سے چند کلومیٹر دور ہے۔ حضرت شمس تبریزی کے مزار پر ہم نے فاتحہ پڑھی اور کچھ دیر مراقبہ کیا۔ یہاں  ایک بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے شہر ملتان میں  بھی ایک شمس تبریزی ؒ کا مزار ہے۔ بعض لوگ ملتانی شمس تبریزؒ  کو مولانا روم کا مرشد سمجھتے ہیں ۔ تاہم حقائق سے یہ بات ثابت نہیں  ہوتی۔
حضرت شمس تبریز اور مولانا روم ؒ کا زمانہ ساتویں  صدی ہجری کا ہے۔ جبکہ ملتان والے شمس تبریز کا دورِ حیات دسویں  یا گیارہویں  صدی ہجری کا ہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملتان والے شمس تبریزؒ مولانا روم کی وفات کے تقریباً تین سو سال بعد کے ہیں ۔
ہفتہ کی رات ہم درویشوں  کا عالمی سطح پر معروف رقص درویش دیکھنے مولانارومی آڈیٹوریم گئے۔ بلدیہ قونیہ کی جانب سے تعمیر کردہ مولانا رومی آڈیٹوریم کئی ایکڑ رقبے پر جدید ترک طرزِ تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہے۔ موسمِ سرما میں  رقصِ درویش آڈیٹوریم کی عمارت کے اندر ہوتا ہے جبکہ گرمیوں  کے لیے اس عمارت کے ساتھ ایک وسیع کھلے اسٹیڈیم میں  یہ رقص منعقد ہوتا ہے۔ 
شمس تبریز کی نگاہ کرم نے اوران کی صحبت کے اثر نے کتابی عالم جلال الدین کو حقیقت کا عارف بنادیا۔علم سے عرفان کا یہ سفر شمس تبریز کی ایک نگاہ کے ذریعہ ہی طے ہوگیا تھا یا مرشد تبریز ی نے اپنے شاگرد رومی کو راہ سلوک میں  بہت طویل مسافت طے کروائی تھی۔ یہ جاننے اورسمجھنے کے لیے مثنوی مولوی معنوی (ہست قران درزبان پہلوی) سے رجوع کرناہوگا۔
مرشد شمس تبریز نے اپنے مرید جلال الدین رومی کو کیا سے کیا بنا دیا ۔اس کااظہاربھی مولوی جلال الدین نے خو ہی کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں 

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تاغلام شمس تبریزی نہ مرشد

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے