عرفانِ الٰہی کی راہ پر کس طرح چلا جائے....؟؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی





عرفانِ الٰہی کی راہ پر کس طرح چلا جائے....؟؟




سلاسل طریقت کا بنیادی مقصد یہ ہوتاہے کہ انسان کا تعلق اس کے خالق اللہ سے قائم ہوجائے۔ انسان اللہ کی محبت اور اللہ کی معرفت پالے۔ اپنے خالق و مالک اللہ  کو پہچان لے۔ اللہ  خود یہی چاہتاہے کہ میرے بندے مجھے پہچان لیں اور میری عبادت پورے اخلاص کے ساتھ کریں۔  سلسلۂ عظیمیہ کی تعلیمات کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کی ہر سوچ اور اس کا ہر عمل اللہ  سے وابستہ ہوجائے۔ بندہ کی نظر اللہ  کی مشیّت اور رضا پررہے۔   اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ  سے تعلق کس طرح قائم کیا جائے....؟
اللہ سے تعلق کے تین مراحل یا تین درجات ہیں۔ 
1۔ ذہنی تعلق
2۔  قلبی تعلق
3۔ روحانی تعلق
ان میں سے ہر مرحلے میں بندہ کچھ کیفیات سے گزرتا ہے ۔  ان کیفیات کی  چند نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں اور مرحلہ وار ہر تعلق کا بندے کی سوچ پر،   اس کی طرز فکر پر کچھ اثر Impactہوتا ہے۔ 
 حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں 
آدمی دید است باقی پوست است
 بندے کی اصل تو  اس کی نگاہ ، اس کی سوچ ہے باقی سب گوشت پوست ہے۔
واضح رہے کہ یہ کیفیات اور اثرات سلسلہ طریقت سے وابستہ سب  افراد میں خود بخود ظاہر نہیں ہو جاتے۔   یہ اثرات وہی افراد قبول کرتے ہیں جو  تربیت کے  لیے اور تزکیہ نفس کے لئے خود کو پیش کرتے ہیں  اور اس کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔  جو  لوگ اپنی تطہیر یعنی باطنی صفائی کے لئے خود کو پیش نہیں کرتے اور اس صفائی یعنی تذکیہ کے لئے آمادہ نہیں ہوتے ان کا کسی  سلسلہ طریقت  میں رہنا محض عقیدت یا کسی دنیاوی  ضرورت کی وجہ سے  ہی فائدہ مند  ہو سکتا ہے۔ 
تربیت میں دلچسپی نہ رکھنے والے ہوں یا تربیت کے تقاضے پورے نہ کرنے والے ہوں ایسے لوگ سلسلہ طریقت سے وابستگی کے اخلاقی و روحانی ثمرات سے محروم رہتے ہیں۔
قرآن کے مطابق اللہ سے محبت، اللہ سے تعلق کا ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری ہے۔ اطاعت سے انحراف کرنے والے اللہ کی محبت سے محروم رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے....
قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ   قُلْ اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۖ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِـرِيْنَ
ترجمہ: آپ فرما دیجیے.... اگر تم اللہ سے محبت (کی خواہش) رکھتے ہو تو محمدﷺ کی اتباع کرو، (تمہاری اس اتباع پر خوش ہوکر) اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ آپ فرما دیجیے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ اس اطاعت سے انحراف کرنےو الے یعنی مشرکین اللہ کی محبت سے  محروم رہیں گے۔ 
[سورہ آل عمران(3) آیت 31-32]


<!....ADV> <!....AD> 


 قلندر بابا اولیاءؒ نوعِ انسانی کو اس علم وبصیرت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ 
سلسلۂ عظیمیہ کی جو تعلیمات ہیں یا دوسرے لفظوں میں اس کا جو تعلیمی نصاب ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ انسان کا تزکیہ نفس ہو اور تزکیہ نفس کے ذریعہ انسان اپنی صلاحیتوں سے باخبر ہوسکے۔ وہ یہ جان لے کر اس کی تمام صلاحیت روح کے تابع ہیں اور  روح اللہ  کا امر ہے۔ 
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘مومن کو عبادت میں مرتبہ احسان حاصل ہوجاتاہے’’.... 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘جب تم صلوٰۃ قائم کرو تو محسوس کرو کہ اللہ  مجھے دیکھ رہاہے یا پھر یہ تصورّ کرو کہ میں اللہ  کو دیکھ رہاہوں’’۔
 انسان کے لیے یہ مشاہدہ ناممکن نہیں ہے.... اس لیے ناممکن نہیں ہے کہ اس دنیا میں آنے والی تمام ارواح میں، آپ یومِ ازل میں اللہ  کے حضور حاضری کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ قرآن پاک میں واضح طور پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے کہ جب اللہ  تعالیٰ نے عالمِ ازل میں تمام انسانوں کی روحوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان سے پوچھا ‘‘الست بربکم ’’  کیا نہیں ہوں میں تمہارا  رب؟ 
جب اللہ  تعالیٰ کی آواز  انسانی ارواح کے کانوں میں پڑی تو تجسس بیدار  ہوا، روحوں نے نگاہ دوڑائی اور سوچا ہوگا، غور کیا ہوگا اور نتیجہ نکالاہوگا اور خوب سوچ سمجھ کر جواب دیا
‘‘بلیٰ’’ جی ہاں، آپ ہی ہمارے رب ہیں....
 اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اپنی تخلیق کے بعد جو سب سے پہلی آواز سنی وہ اللہ  تعالیٰ کی آواز تھی اور سب سے پہلے جس ہستی کو دیکھا وہ اللہ  کی ہستی ہے، سب سے پہلے جس ہستی کے بارے میں سوچا وہ اللہ  کی ہستی ہے اورجس ہستی سے ہمکلام ہوئے وہ اللہ  کی ذات ہے۔ 
سلسلۂ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاؒء فرماتے ہیں کہ انسان اس دنیامیں رہتے ہوئے، اپنے شعوری حواس میں رہتے ہوئے، شعور میں رہتے ہوئے دورِ  ازل کی اس کیفیت کو دوبارہ محسوس کرسکتا ہے۔ اس کیفیت کے حصول کے لیے ہمیں روح کے تقاضوں اور  روح کی تحریکات کو سمجھنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ روح کا تقاضہ کیا ہے روح کا تقاضہ اللہ  ہے روح اللہ  سے قرب چاہتی ہے جس طرح ہم مادی تقاضوں مثلاً کھانا ، پینا، سونا، جاگنا، شادی بیاہ وغیرہ کی تکمیل کے لیے جدّوجہد کرتے ہیں اسی طرح روحانی تقاضہ یعنی اپنی اصل سے پہچان اور اللہ  سے تعلق قائم کرنے کی خواہش کی تکمیل کے لیے بھی جدّوجہد کرنی ہوگی....مادّی تقاضوں کو سمجھنے اور ان تقاضوں کو بہتر طور پر پورا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنے کی خاطر ہم مختلف مادی علوم وفنون سیکھتے ہیں اسی طرح روحانی تقاضوں کو سمجھنے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے خود کو تیار کرنے کی خاطر یہ ضروری ہے کہ ہم روحانی علوم سے آگہی حاصل کریں۔ جس طرح مادّی علوم کے حصول کے لیے اُستاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی علوم کے حصول کے لیے بھی رہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ فریضہ صوفیاءؒ اور اولیائے کرام ؒ ادا فرماتے ہیں۔ سلاسلِ طریقت کے بزرگوں کا مطمعِ نظر یا تصوف کے اسکول کا نصاب انہی اصولوں پر مبنی ہے جن پر عمل کرکے بندے کا اللہ  سے ربط قائم ہوسکے۔ تزکیہ ٔ نفس کے لیے مختلف سلاسل نے مختلف طریقہ ٔ  تعلیم اختیار کیے۔ 
سلسلۂ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی خواہش اور تعلیم یہی ہے کہ سلسلۂ عظیمیہ کے اراکین اللہ  تعالیٰ کی محبت اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق سے سرشار ہوکر اپنی زندگی بسر کریں۔ 
ہم اس بات کو محسوس کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ ہمیں ہر آن فیڈ کررہاہے ، ہمیں زندگی کی نعمتیں دے رہاہے۔ کائنات کا سسٹم اللہ  کی مرضی پر چل رہا ہے۔ زبانی طور پر یہ تسلیم کرلینا کہ ہم اللہ  کو مانتے ہیں، درست ہے۔ لیکن اس اقرارمیں قلب کی شرکت ضروری ہے۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ان کی روحانی اولاد اللہ  سے تعلق کو صرف زبانی نہیں بلکہ قلبی طور پر محسوس اور تسلیم کرے۔ اللہ  سے محبت کا احساس   ہمارے اندر پیدا ہو۔ ہم اس تعلق میں اضافہ کے لیے بےچین و بے تاب ہوں اور اس کے حصول کے لیے اسی طرح جدّوجہد کریں جس طرح مادّی زندگی کی آسائشات کے حصول کے لیے جدّوجہد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اگلے گریڈ میں ترقی ہو۔ اس کے لیے ہم اپنے سینئیرز کے فرماں بردار اور تابعدار رہتے ہیں۔ اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے۔ اس کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہوتاہے کہ بہتر سے بہتر کام کرکے ترقی کا راستہ ہموار کیا جائے۔ کاروبار کے لیے بھی ہم ان تھک محنت کرتے ہیں ۔ ہمارے روز وشب اسی سوچ میں گزر رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح کاروبار میں وسعت ہو، بالکل اسی طرح اپنے روحانی تقاضوں کو سمجھنے اور ان کی تکمیل کے لیے کوشاں رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ  سے تعلق قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ  کے محبوب سیدنا حضورﷺ کی تعلیمات کو سمجھا جائے اور آپﷺ کے اسوہ پر عمل کیا جائے۔ 
سلسلۂ عظیمیہ کے پلیٹ فارم سے اس بات کی آگاہی فراہم کی جاتی ہے کہ عرفانِ الٰہی کی راہ پر کس طرح چلا جائے....؟ اس سفر کے تقاضے اور ادب وآداب کیا ہیں؟....





اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے