باہمی تعلقات بھائی چارے کا ماحول

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات

 باہمی تعلقات بھائی چارے کا ماحول


موجودہ دور میں  معاشی دباؤ بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ ملازمت ہو یا ذاتی کاروبار ہر جگہ لوگ مصروف نظر آتے ہیں۔اخراجات پورے کرنے کے لیے بعض لوگ اُور ٹائم لگاتے ہیں تو کچھ لوگ  دفترسے فارغ ہوکر پارٹ ٹائم جاب پر چلے جاتے ہیں۔گھریلو خواتین بھی بہت زیادہ مصروف رہنے لگی ہیں۔
ان حالات میں  رشتہ داروں اوردوستوں کا آپس میں ملنا جلنا بہت کم ہوگیاہے۔اس دور کا ایک خاصہ یہ ہےکہ سینکڑوں  ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے رابطے  تو بہت آسان  ہوگئے لیکن اکثر لوگ اپنے برابر رہنے والوں یا اپنے قریبی رشتے داروں کے حالات سے بےخبرہیں۔ آج اکثر لوگ ایک بات اورکہتے سنائی دیتے ہیں کہ ان کے رابطے تو بہت لوگوں سے  ہیں، ان کے تعلقات  کا دائرہ تو بہت وسیع ہے لیکن ان میں سچے اورمخلص دوست بہت کم ہیں۔ایسا لگتاہے کہ  آج کل کے ترقی یافتہ دور میں سچے اورمخلص لوگ نایاب ہوگئے ہیں۔
 حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ کے تشکیل کردہ ماحول  کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ماحول مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ اخلاص اوربھائی چارے کے جذبات کو فروغ دیتاہے۔روحانی سلاسل سے وابستہ افراد کے درمیان تعلقات  کی بنیاد اللہ اوراس کے رسول کی محبت، مرشد کی عقیدت اورتصوف کی تعلیمات پر ہے۔ تصوف  کی یہ تعلیمات کتاب اللہ یعنی قرآن پاک اورتعلیمات نبویﷺ یعنی حدیث اورسنت مبارکہ علیہ الصلواۃ والسلام ،اہل بیت،صحابہ کرام اوراولیاء اللہ کی حیات وتعلیمات سے اخذ کی گئی ہیں۔
موجودہ دور میں ترقی اور آسائشوں میں بہت اضافہ ہواہے وہیں  انسانوں کے درمیان لاتعلقی ،خود غرضی ،لالچ ،خوف  جیسی کیفیات نے بھی بہت زور پکڑلیاہے۔ان کیفیات کے زیر اثر بے یقینی اورعدم تحفظ  کے احساس میں بہت اضافہ  ہوگیاہے اور ذہنی سکون شدید متاثر ہواہے۔مسائل روزبروز شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان مسائل کے اثرات مختلف  تکلیف دہ صورتوں میں ظاہر ہورہے ہیں مثال کے طورپر گھروں میں میاں بیوی کے تعلقات میں محبت وسکون کے بجائے  ٹینشن اورتلخیاں، اولاد اوروالدین کے درمیان دوریاں اورایک دوسرے سے گلے شکوے ،والدین کا یہ سوچنا کہ ان کی اولاد ان کی توقعات پر پورا نہیں اتررہی،اولاد کا یہ  کہنا کہ ہمارے ماں باپ نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا،رشتہ داروں کے درمیان تنگ دلی اور حسد کے مظاہرے، دوستوں کے درمیان ذراذرا سی بات پر بدگمانیاں اور اس سے ملتے جلتے  دوسرے کئی آثار۔
ان حالات میں روحانی سلاسل ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں لوگوں کے درمیان باہمی تعلقات  کی نبیاد اخلاص وبھائی چارہ پر ہو۔جہاں ایک آدمی کی کامیابی اورترقی پر دوسروں  میں حسد اورجلن کے  بجائے اپنائیت  اوررشک کے جذبات ابھارنے کی  ترغیب   دی جائے۔ اپنی اصلاح کے خواہش مندوں کو منفی جذبات پر قابو پانے اورمثبت جذبات ابھارنے کی ترغیب دی جائے۔


<!....AD>
<!....AD> 

 یہاں ایک بات واضح رہنی چاہیے....
ماحول انسان کی سو چ اور اس کے افعال پر بہت زیادہ  اثر ڈالتاہے  تاہم  سوچ کی تبدیلی کے لیے کوئی ماحول اسی وقت موثر ہوتاہے جب ایک آدمی وہ اثرات قبول کرنے کےلیے ذہنی طورپر تیارہو اور اپنی ناقص فکر  ترک کرنے پرآمادہ ہو۔
 کسی  روحانی سلسلسہ سے وابستہ افراد بھی اگر حسد، جلن، بغض،ایک دوسرے کی کاٹ کرنے جیسے افعال میں ملوث اورمصروف ہوں تو اس کامطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے روحانی سلسلے کے ماحول کی مثبت خصوصیات کو ذہنی طورپرقبول  نہیں کیا۔  وہ اپنے  منفی جذبات  کو لگام دینے  پر آمادہ نہیں ہیں۔  اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایسے لوگ محض دنیاوی مفادات  کے لیے کسی بزرگ سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا مقصد اپنی تربیت یا تزکیہ نہیں  ہوتا۔ایسے لوگ روحانی  سلسلے کے ماحول کی مثبت خصوصیات  کو اپنے اوپر حاوی  ہی نہیں آنے دیتے۔ 
اس مختصر وضاحت  سے یہ بتانا مقصود ہے کہ بری عادتوں سے نجات اوراچھی عادتوں کو اختیار کرنے کے لیے ماحول مدد گار ہوسکتاہے لیکن اس کے لیے متعلقہ شخص کی اپنی ذہنی آمادگی لازمی ہے۔ کبھی کسی معاملے  میں استثنیٰ بہرحال ہرجگہ ہوتاہے۔
سلسلہ عظیمیہ کی کوشش ہے کہ مادہ پرستی کے زیر اثر  نفسا نفسی کے اس دور میں اخلاص اور بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دیاجائے۔ الحمدللہ.... اس مقصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیابیاں ہوئیں، سلسلہ عظیمیہ کے ماحول میں گفتگو زیادہ تر اللہ کی صفات اور احکامات پر،  رسول ﷺ کی تعلیمات پر،اولیاء کرام کے ارشادات ،امام سلسلہ عظیمیہ قلندربابا اولیاء کی فکر اورمرشدکریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی کتب اورتقاریر کے موضوع پرہوتی ہے۔ ہماری  یہ کو شش ہونی چاہیے کہ ہماری آپس کی گفتگو زیادہ تر مفید اور مثبت اور بامقصد ہو فضول اور غیر ضروری باتوں سے گریز کیا جائے۔ ہماری ایک دوسرے سے ملا قات اور ہماری آپس کی باتیں کچھ اچھا سیکھنے کا اور ایک دوسرے کے کام آنے کا اورخیر کے فروغ کا ذریعہ بنیں۔

دوسروں کی خوشی میں ردِعمل 

 ذاتی اصلاح کے کئی را ستے ہیں ۔ظا ہری طور پر تبدیلی اور اصلاح کے ساتھ ساتھ باطنی طور پر بھی اصلاح بہت ضروری ہے۔ اس میں سب سے اہم نیت کی سچا ئی اور پا کیز گی ہے۔ اس کے سا تھ سا تھ ایک اہم خصو صیت ہر شخص  میں یہ ہو نی چا ہیے کہ ہم دوسروں کے لیے اچھا چا ہیں۔ دو سروں کو خوش دیکھ کر خوش ہوں ۔ انہیں برکت کی دُعائیں دیں۔ اگر ہم دیکھیں کہ کسی کو کا میابی مل رہی ہے تو ہمیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہیں محسوس کر نی چاہیے بلکہ خوش ہو نا چاہئے کہ اللہ نے اسے عطا کیا ہے ۔ اس نے  کوشش کی اس کی کو ششوں کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا۔ اللہ تعالیٰ اسے اور نوا زے۔ 
رشتہ داروں سے، ملنے جلنے والے دوست احباب سے، دوسروں کی کامیابیوں سے کبھی دل میں تنگی نہیں آنے دینی چا ہیے۔ کو ئی تنگی آئے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اس سے مقابلہ کر نا ہے اور اس منفی خیال سے نکلنے کی کوشش کرنی ہے۔  (جاری ہے)



اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے