با ادب ، با نصیب بے ادب ، بے نصیب
روحانی سلاسل میں ادب کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے ہر رکن کے لیے ، ہرطالب علم کے لیے پہلا سبق ‘‘ادب ’’ ہے ۔سلسلہ کے ہررکن کے لیے سلسلہ طریقت کے مرشد کا ادب و احترام لازمی ہے۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں : حضور قلندربابااولیاءؒ نے میری تعلیمات کے دوران کچھ ضروری نکات اورامور تحریر کروانے کے لیے ایک رجسٹر منگوایا۔ اس رجسٹر پر پہلے صفحے پر تحریر فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس کے نیچے حضور قلندربابا اولیاءؒ نے تحریرفرمایا:
با ادب ، با نصیب
بے ادب ، بے نصیب
مرشد کایہ ادب اوراحترام ظاہری طورپرنہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہونا چاہیے۔ادب کے اس دائرے میں مرشد کے ساتھ ساتھ سلسلہ طریقت کااورنسبت کاادب بھی شامل ہے۔
سلسلۂ عظیمیہ کے اراکین کے لیے ادب کے اس دائرے میں نگراں مراقبہ ہال ،دیگر ذمہ داران اورسلسلۂ عظیمیہ کے سینئر اراکین بھی شامل ہیں ۔ ادب کے دائرے کوتوسیع دینے والے اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ سلسلہ عظیمیہ میں حفظ مراتب کا پوراپورا خیال رکھا جائے۔بڑوں کا ادب واحترام کیا جائے اورچھوٹوں کے ساتھ شفقت کابرتاؤ کیاجائے۔سلسلہ طریقت کے علاوہ ادب کے اس دائرے میں والدین کے ادب واحترام کو اولیت حاصل ہے۔نگراں مراقبہ ہال کے لیے ضروری ہے کہ سلسلہ عظیمیہ کے معاملات میں مرکز سے ملنے والی ہدایات پرعمل کیا جائے ۔
ایک مرشد کے ہزاروں لاکھوں مرید ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے جو مرشد کے حقوق اورسلسلہ طریقت کے حقوق کو سمجھتے ہیں اورنیک نیتی اوراخلاص کے سا تھ اپنی تربیت کا حق اداکرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں خوب فیض ملتاہے۔ وہ معرفت کے سفرمیں اعلیٰ مقامات طے کرتےہیں ۔
ویسے ولی اللہ ، مرشد کی دعائیں توسب کے لیے ہیں اوران کی نظر ، محبت اور شفقت اپنی تمام روحانی اولاد پرہوتی ہے۔
روحانی بزرگوں کی تربیت کے ابتدائی اثرات میں جو چیز سب سے پہلے نمایاں ہوتی ہے وہ ہے ادب۔ روحانی درسگاہوں کا پہلا سبق ہی ادب ہے۔ روحانی سلاسل میں مرشد کا ادب, اپنے سلسلہ طریقت کا ادب اورمرشد کے ذریعہ ملنے والی نسبت کا ادب بنیادی شرط ہے اورتربیت کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ مرید یا شاگرد کو ادب سکھایا جائے۔ جس مرید میں ادب نہیں ہوتا یا وہ صرف دکھاوے کے لئے ادب کااظہار کرتاہے تو وہ سلسلہ میں کتنا بھی وقت گزارے باطنی طورپروہ کچھ حاصل نہیں کرتا ۔
علم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شاگرد کے اندر استاد کی اطاعت، فرمان برداری اور ادب و احترام کا جذبہ کار فرما ہو، جب تک شاگرد استاد کی ہدایات پر عمل نہیں کرے گا وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔
سلوک کے راستے پر گامزن رہنے کیلئے ضروری ہے کہ علوم کے حصول اور ترقی کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سمجھا جائے۔ روحانی علوم کے انعامات کو اپنی ذاتی کوشش نہ سمجھا جائے۔ باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب سالک کی زندگی کیلئےمشعل راہ ہے۔
‘‘باادب بانصیب بےادب بے نصیب .... روحانیت کا پہلا سبقہے’’....
مذہب کی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصوف کے ادارے میں داخل ہوکر فیض پانے کے لئے ضروری ہے قلب و ذہن مسلم (فرمان بردار اور خیر پر قائم) ہونے لگیں ۔ راہ سلوک کے مسافر کی طرزِفکر میں شر، تخریب، شیطنت پر مبنی عناصر غالب نہیں رہنے چاہئیں۔ نافرمانی کے ذہن کو مغلوب کرنے کے لئے ہی صوفیا اپنے شاگردوں کو مجاہدے اور ریاضیتں کرواتے ہیں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>