علم حصولی، علم حضوری، مادی و رحانی علم، علم نافع

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی



علم حصولی، علم حضوری، مادی  و رحانی علم، علم نافع 

سلسلۂ عظیمیہ کی تعلیمات کامنبع

سلسلۂ عظیمیہ کی جانب سے اپنے وابستگان کی تربیت کے لیے نصاب،  قرآن پاک کی آیات، حضرت محمد ﷺ کی سنت مبارکہ اورحضرت محمد رسول اﷲﷺ کے روحانی علوم کے وراث اولیاء اﷲ کی تعلیمات سے رہنمائی لیتے ہوئے ترتیب دیاگیا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کا منبع و مخزن  اور سرچشمہ قرآن کریم کی آیات  اور خاتمالنبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی احادیث نبوی ہیں۔

حصول علم

قرآنی آیات اورحضرت محمد رسول اﷲﷺ کے ارشادات کے مطابق علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ قران نے کئی مقامات پر اﷲ کی نشانیوں  پر غووفکر کرنے کی تاکید کی ہے۔قرآن کے ان ارشادات پرعمل کرنے کا ایک طریقہ دراصل حصول علم اورریسرچ میں  مصروف  ہوناہے۔
 حضور  علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (حضرت انس۔۔ ابن ماجہ)
 قرآنی آیات اورارشادات نبوی ﷺ کی تعمیل  میں سلسلۂ عظیمیہ اپنے تمام وابستگان کے لیے علم کا حصول ضروری قرار دیتاہے۔ 
حضور ﷺ نے فرمایا ہے :  ہر مسلمان پر حصول علم فرض ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان مرد اورہر مسلمان عورت پر حصولِ علم فرض ہے چنانچہ سلسلۂ عظیمیہ اپنے تمام وابستگان کو تاکید کرتاہے کہ مردوں  کے ساتھ ساتھ عورتوں  کی تعلیم پر بھی پوری توجہ دی جائے۔ والدین اپنی بیٹیوں  کو جہاں  تک ہوسکے بہتر سے بہتر تعلیم دلوانے کا اہتمام کریں ۔ بیٹوں  اوربیٹیوں  کو حصولِ علم کے یکساں  مواقع فراہم کیے جائیں ۔ 
ہمارے معاشرے میں  بعض لوگوں  کی یہ سوچ درست نہیں  کہ بیٹی دوسرے گھر چلی جائے گی اس کی تعلیم پر دولت کیوں  خرچ کی جائے۔ 
بیٹے اوربیٹی کی اچھی پرورش اوراچھی تربیت وتعلیم کا اہتمام کرناوالدین پرفرض ہے۔بیٹی کی اچھی پرورش ،  تربیت اورتعلیم کے لیے والدین کی کوششیں  ہر لحاظ سے لائق تحسین ہیں ۔ دنیا میں  بھی اس کا اجر ہے اورآخرت میں  بھی اس کا اجر ہے۔

مادی علم.....روحانی  علم

علم کی کئی قسمیں  ہیں ۔ علم مادی بھی ہے ، علم روحانی بھی ہے۔مادی علم وہ ہے جس میں  مادے اوراس کے خواص کے بارے میں  علم حاصل ہوتاہے ، انسان کی ظاہری زندگی کے بارے میں  علم حاصل ہوتاہے ۔ تمام طبعی علوم مثلاًفزکس، کیمسٹری ، میتھ،میڈیکل سائنس ، کمیپوٹر سائنس، معاشرتی علوم، معاشیات،عمرانیات، ادب وغیرہ یہ سب مادی علوم ہیں ۔ علم کی وہ قسم جس میں  مادے سے ہٹ کر روح اورباطنی تحریکات کو سمجھا جائے، انوراوتجلیات کو سمجھاجائے ،انسان کی لاشعوری کیفیات کو سمجھا جائے ان کاتعلق روحانی علوم سے ہے۔
مادی علوم کو فزکس(Physics) یا نیچرل سائنس کے علوم اورروحانی علوم کو میٹا فزکس (Meta Physics)کے علوم بھی کہا جاسکتاہے۔
 نوع انسانی کی تاریخ میں  بڑے بڑے دانشوروں  اورمفکروں  نے علوم کو سمجھنے  اورانہیں  عام کرنے میں  خدمات سرانجام دی ہیں  تاہم ان دانش وروں  اورمفکرین نے زیادہ تر علم کے مادی پہلو یاطبعی پہلو کو ہی پیش نظر رکھاہے۔ اس طرح انسانی فکر کی محدودرہنمائی ہوسکی ہے۔ یہ محدود رہنمائی عدم توازن کا سبب بنتی رہی۔ بعض ہستیوں  نے باطنی کیفیات اورروح کوسمجھنا چاہا تو انہوں نے انسان کی مادی ضروریات کو بہت حد تک نظر انداز کردیا چنانچہ یہاں  بھی انسان کو محدوداورغیر متوازن رہنمائی مل سکی۔
صرف مادیت پر مبنی سوچ یاپھردنیاداری سے مکمل کنارہ کشی دونوں  طرزیں  محدود طرزفکر ہے۔محدود طرزفکر کے نتائج بہرحال محدودفہم کاپیش خیمہ ہیں ۔



<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

دین فطرت

اسلام دین فطرت ہے۔ دین فطرت انسانی وجود کے تمام اجزاء کو ظاہری وباطنی ، مادی و ر و حانی تمام تقاضوں کو سب سے بہتر سمجھتاہے۔ اس کائنات میں جاری وساری نظاموں کو سمجھنے کے لیے ،خود انسانی وجود کو سمجھنے کے لیے اعتدال وتوازن کے ساتھ مادی و روحانی دونوں طرح کے علوم کو سمجھنے اوران سے استفادہ کی ضرورت ہے ۔
 حضرت محمدﷺنے فرمایاہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے۔ اس فرمان کی تعمیل میں ہر قسم کے علوم آگئے ہیں۔ان میں مادی علوم بھی شامل ہیں اورروحانی علوم بھی، مذہبی علوم بھی شامل ہیں اورمعاشرتی علوم بھی ۔
اپنے نہایت مہربان آقا ،معلم اعظم حضرت محمد ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ ، تمام اراکین سلسلہ کو یہ تاکید کرتے ہیں کہ آپ نے ماڈرن ایجوکیشن بھی حاصل کرنی ہے۔ ماڈرن ایجوکیشن یا مادی تعلیم کے ذریعہ شعوری استعداد میں اضافہ کرناہے اورروحانی علوم کوبھی سمجھنا ہے۔روحانی علوم کے ذریعہ  لاشعوری استعداد میں اضافہ کرناہے۔

علم نافع

حضرت محمدﷺکے ارشاد کے مطابق علم نافع ہونا چاہیے یعنی علم فائدہ مند ہونا چاہیے۔
حضرت جابر  ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:  
‘‘اﷲ سے علم نافع  مانگا کرو اورعلم غیر نافع سے اﷲ کی پناہ مانگا کرو۔’’ (ابن ماجہ)
 سوال یہ ہے کہ فائدہ مند علم کسے کہا جائےگا......؟
ہر وہ علم جس کے ذریعہ انسان کا، طالب علم کا اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت پر اللہ کی قدرت پر ایمان پختہ تر ہوتا جائے اور اﷲ کے اوپر یقین اور توکل میں اضافہ ہو، علم نافع کہلائے گا۔  فزکس یا نیچرل سائنس کے علوم کے ذریعہ یا مادی علوم کے ذریعہ بھی انسان اس کائنات کے خالق اللہ وحدہ لاشریک کی صفات سے آگہی  حاصل کررہا ہے۔ روحانی علوم کے ذریعہ بھی انسان اﷲتعالیٰ کی صفات ،اﷲ کی مرضی سے واقف ہوتاہے اوراﷲتعالیٰ کے عرفان کوسمجھنے کے قابل ہوتاہے۔
جس علم کے حصول کے بعد اﷲ پرایمان پختہ ہو، دوسرے انسانوں اوراﷲ کی تمام مخلوقات کے لیے اخلاص اورخیر خواہی کے جذبات بیدار ہوں اور آخرت میں اﷲ کے حضور جواب دہی کے احساس میں اضافہ ہو، ایسا علم،علم نافع ہے۔
ایسا علم جسے حاصل کرنے کے بعد کوئی انسان اﷲ کی بندگی کے احساس سے عاری ہونے لگے ، آخرت میں جواب دہی کایقین ذہن سے نکل جائے، دنیا کی رغبت میں بےجا اضافہ ہوجائے (اس میں خودغرضی،لالچ  یا تکبر بھی شامل ہے) توایسا  علم اپنی تمامتر دنیاوی کشش کے باوجود علم نافع نہیں ہے ۔
علم نافع انسان کواﷲ سے قریب کرتاہے۔ جس شخص میں مندرجہ بالا منفی صفات یعنی خود غرضی ،لالچ ،تکبر،حبّ دنیا میں اضافہ ہورہاہو اوروہ اﷲ سے دورہورہا ہو ، ایسا شخص خواہ فزکس کے علوم پڑھ رہا  ہو یاروحانیت کا یا مذہب کا علم حاصل کررہا ہو ، وہ شخص علم نافع نہیں بلکہ علم غیر نافع یا ناقص علم کا طالب علم شمارہوگا۔
حضرت محمد رسول اﷲ ﷺدعافرماتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ اَسْأَ لُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَرَزْقاًطَیَّباً وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً۔  (مسنداحمد۔ابن ماجہ )
ترجمہ: اے اﷲ! میں تجھ سے نافع علم اورپاکیزہ رزق اورایسے عمل کا سوال کرتاہوں جوتیری بارگاہ میں مقبول ہو۔

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے