شک

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


شک

وقار یوسف عظیمی
جنوری 1992ء کے روحانی ڈائجسٹ سے انتخاب

انسانی ذہن دو طرح سوچتا ہے ایک طرز یقین پر مبنی اور دوسری شک پر، یقین کی طرز انسان کو مسرت، اعتماد اور سکون سے آشنا کرتی ہے بکہ شک کے زیر اثر انسان اصمحلال، ٹوٹ پھوٹ اور اعصابی شکستگی  کا شکار ہوجاتا ہے اور با الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو طرز فکر کے دو زاویے حاصل ہیں ایک  زاویہ یقین ہے اور دوسرا شک۔ انسان کی زندگی میں اعتدال و توازن اعصابی تحریکات پر منحصر ہے انسان بالا طبع آرام پسند واقع ہوا ہے بہت سی کیفیات ایسی ہیں جن کو دشواری  مشکل، بیزاری، بےعملی، بےچینی، بیماری وغیرہ کا نام دیا گیا ۔ ان کیفیات میں بالمقابل ایک دوسری کیفیت ہے جس کو سکون کہا جاتا ہے انسان کے دماغ کا محور شک اور یقین پر ہے جس قدر شک کی زیادتی ہوگی اسی قدر دماغی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ  ہوگی اور اس کے نتیجے میں اعصاب متاثر ہوں گے اور اعصاب کا اس طرح متاثر ہونا انسان کو سکون سے دور اور بےچینی اور بےآرامی سے قریب کردیتا ہے۔
بیماری صرف مادی اسباب کی بناء پر ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ روحانی، جذباتی اور ذہنی اسباب بھی بیماری کو وجود میں لاتے ہیں اس طرح ہم بیماریوں کو دو زمروں میں تقسیم کرسکتےیں۔
1۔ جسمانی بیماریوں
2۔ مابعد الطبیعاتی بیماریاں


<!....A>
<!....A> 

یعنی وہ بیماریاں جو محسوسات میں نشو  ونما پاتی ہیں نفرت، سنگ دلی، حسد، تکبر، ناشکر گزاری، بےعملی، احساس کمتری، وہم، شک وغیرہ مابعد الطبیعاتی بیماریوں کی چند مثالیں ہیں۔
شک کیونکر جنم لیتا ہے....؟ شک میں مبتلا مریضوں کے مفصل تجزیہ سے یہ بات سامنے آءی ہے کہ شک دراصل احساس عدم تحفظ یا حقوق چھن جانے کے خوف سے جنم لینے والی ایک کیفیت ہے۔ درحقیقت شک میں مبتلا مریض لاشعور میں یہ بات واضح ہوچکی ہوتی ہے کہ اس کی زندگی یا اس کا گھر  بار یا اس کی دوسری یا ذریعہ معاش خواہ وہ کاروبار ہو یا ملازمت سخت خطرہ میں ہے۔ یہی احساس ہوتا ہے جو اس کے ذہن کو آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم کرکے ذہن کو یکطرفہ طور پر فیصلہ کرنے کا عادی بنا دیتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شک انتہا پسندی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔
اگر ہم معاشرہ سے مثالیں اکھٹی کریں تو یہ بات صاف طور پر سامنے آئے گی کہ شک میں مبتلا ہونے والی عورت یا مرد اس ہستی کی وجہ سے شک میں مبتلا ہوئے ہیں جس سے ان کو بےپناہ لگاؤ یا تعلق ہوتا ہے اور جن سے دوری، جن کی طرف سے بےنیازی کا ہلا  سا تاثر بھی ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث ہوتا ہے اور اس کے پس پردہ درحقیقت خون ان کا کوئی جذباتی یا مادی مفاد وابستہ ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک شخص زید کی محمود سے گہری دوستی ہے اور وہ اس دوستی کو  اپنی ہستی کے لیے بےانتہا اہم قرار دیتا ہے۔ اگر محمود کسی وقت کسی وجہ سے زید کو حسب سابق وقت نہ  دے سکا اور زید حقیقت پسندانہ طریقہ سے اس تبدیلی کی وجہ جان کر اس صورت حال سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے یہ سمجھنا شروع کردے کہ محمود کو کوئی تیسرا شخص اس کے خلاف ورغلا کر اس کی دوستی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور وہ اپنی اس یکطرفہ  سوچ کے نتیجے میں دل ہی دل میں کڑھنا شروع کردے اور رفتہ رفتہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا جائے تو یہ کیفیت شک کہلائے گی آپ نے بہت سی عورتوں کو دیکھا ہوگا جو دوسری  عورتوں کو برا بھلا کہتی ہیں اس وجہ سے کہ وہ ان کے شوہروں سے گھل مل کر گفتگو کرتی ہیں عموماً گھریلو خواتین اس کیفیت میں زیادہ مبتلا نظر آتی ہیں درحقیقت ایسی عورت کا شوہر اس کی زندگی میں بےانتہا اہمیت کا حامل  ہوتا ہے اور وہ اس بات کو برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوتی کہ کوئی دوسری عورت اس کے شوہر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اپنے وہر کی تمام تر توجہ کی مستحق وہ خود ہے اور جب وہ  یہ خیال کرتی ہے تو  اس کا ذہن دوسرے اسباب پر غور کرنے کے بجائے صرف یہ سوچتا ہے کہ ہو نہ ہو ضرور اس کے شوہر کی نظر میں کوئی دوسری عورت ہے جس کی وجہ سے اس نے بیوی کونظر انداز کیا  حالانکہ ایسی عورت اگر خود اپنا تجزیہ کرے تو اس پر یہ بات آشکار ہوگی کہ کتنی ہی مرتبہ مختلف وجوہات کی بناء پر  وہ خود اپنے شوہر پر توجہ نہیں دے سکی ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے کہ شک احساس عدم تحفظ یا حقوق چھن جانے کے خوف سے جنم لیتا ہے اور یہ ایک حقیقت پسندانہ کیفیت ہے اس کیفیت کے زیر اثر انسان صرف اپنے  مقرر کردہ پیمانوں سے حالات کو پرکھتا ہے اور اس کی طرز فکر غیر جانبدارانہ ہونے کے بجائے جانبدار اور یکطرفہ ہوجاتی ہے۔
شک میں مبتلا مریضون کو کسی قسم کی دوا کی ضرورت ہوتی ہے....؟ ایسے مریضوں کے لیے دوائیں تو یقیناً موجود ہیں  لیکن سب سے موثر دوا شفاخانہ میں نہیں بلکہ خود مریض اور اس کے متعلقین کے پاس ہے  اور وہ ہے مریض کا احساس محرومی کا ازالہ۔ ایسے مریضوں کو بجائے غصہ  کے توجہ اور احترام کی ضرورت ہے خصوصاً وہ خواتین جو اپنے شوہروں پر شک کرتی ہیں ان کے بارے میں ان کے شوہروں کا رویہ مدمقابل کا سا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو مسلسل ایسے اقدامات کرنے چاہئین جن سے شک میں مبتلا ان کی بیگم کا احساس عدم تحفظ رفتہ رفتہ ختم ہو اور ان کو ہر بات کا مکمل یقین حاصل ہوجائے کہ ان کے حقوق ہر طرح محفوظ ہیں خود شکی لوگوں کے لیے یہ سوچنا ضروری ہے کہ وہ جس سبب سے شک میں مبتلا ہو کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اپنی جسمانی صحت کو کھو رہے ہیں اس سبب کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو کیوں تیار نہیں کرتے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شک کے مابعد اثرات کے نقصانات کے بجائے اپنی خود اعتمادی میں اضافہ کرنے کی تدبیر کریں کہ یقین ایک ایسی دولت ہے جو بڑے سے بڑے مصائب اور مسائل سے نبردآزما ہونے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے