ساس کا غصہ
سوال:
میری شادی خاندان سے باہر ہوئی ہے۔ یہ شادی میرے شوہر کی پسند سے ہوئی ہے اُن کی والدہ اس شادی پر راضی نہیں تھیں، میں نے شادی کے بعد ساس کے ساتھ ساتھ دیور اور نند کی بھی دن رات خدمت کی لیکن میں اُن لوگوں کے دل میں جگہ نہ بناسکی اس کی وجہ ساس صاحبہ تھیں وہ میری خدمت کے باوجود مجھ سے برا سلوک کرتی تھیں۔وہ میرے دیور اور نند سے بھی کہتیں کہ اسے ذلیل کیا کرو۔ کچھ مہینوں تک تو میں نے یہ سب بڑی ہمت سے برداشت کیا آخر ایک دن میں نے اپنے شوہر کو ساری تفصیل بتادی یہ سب سن کر میرے شوہر نے کہا کہ تم دن میں صرف ایک بار چند منٹ سے زیادہ اوپر نہ جایا کرو (میری ساس اُوپر پہلی منزل پر رہتی ہیں) لیکن وہ چند منٹ بھی انتہائی تکلیف سے گزرتے ہیں۔ وہ مجھے بے انتہا باتیں سناتی ہیں۔ اور جب میں اُمید سے ہوئی تو ساس کا غصہ نفر ت میں تبدیل ہوگیا۔ ان کے ساتھ ساتھ دیور اور نند نے بھی میرا جینا دوبھر کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور میرے گھر بیٹا پیدا ہوا اب ساس نے ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا، دن دن میں اپنے پوتے کی خود دیکھ بھال کریں گی، وہ کبھی شام اور کبھی رات کو میرے پاس آسکتاہے ۔ اب میرا بیٹا تین سال کا ہوگیا ہے لیکن اس کا معمول یہی بنادیا گیا ہے، اوپر سے اُسے بری بری گالیاں سیکھائی گئی ہیں۔ جب میری ساس اُسے اشارہ کرتی ہیں تو یہ مجھے بھی گالیاں سناتاہے اس پر وہ دونوں خوب ہنستے ہیں۔ میں نے شوہر سے شکایت کی تو وہ کہتے ہیں کہ زندگی کا حصہ ہے برداشت کرو۔ میں اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ آپ ایسا عمل بتائیں کہ ساس، دیور، نند کی ذات سے پہنچنے والی ازیت سے مجھے نجات مل جائے اور میں اپنے بیٹے کی خود اپنے ہاتھوں پرورش اور اس کی اچھی تربیت کرسکوں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
ساس بہو کا قصہ تو صدیوں پرانا ہے لیکن آپ کو درپیش مسئلہ کی بنیا دساس بہو کے روایتی جھگڑے میں نہیں بلکہ ایک نفسیاتی عارضہ میں پنہاں معلوم ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کی ساس نفسیاتی مریض ہیں۔ انہیں درپیش نفسیاتی مسئلہ اذیت رسانی کا ہے۔ ایسے لوگ اذیت پسند ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کا نشانہ زیادہ تر ایسے لوگ بنتے ہیں جن پر ان کا زور چلتاہو۔ جن پر ان کا کوئی زور نہیں چلتا یا جہاں سے ڈانٹ پڑ جانے کا خطرہ ہو وہاں ایسے لوگ۔۔۔۔۔۔مہارت پر ظاہر کرتے ہیں ۔آپ ان کی بہو ہے ان کی ہر غلط صحیح بات سننے پر مجبور ہیں آپ کے شوہر بھی آپ کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کرتے اس لیے آپ کی طرف ان کی اذیت رسانی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اگر آپ پر ان کا زور نہ چل پاتا تو پھر اُن کی اذیّت رسانی کا شکار کوئی اور ہوتا کوئی غیر نہ ملتا تو اُن کی اپنی اولادمیں سے ہی کوئی اُن کی اس عادت کا شکار ہوسکتاتھا۔ شاید آپ کی شادی سے پہلے ایسا رہا ہو۔ اس مسئلہ کا کوئی فوری اور آسان حل نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کے شوہر اور ان کے بہن بھائیوں کو (گھریلو گروپ بندی سے بالاتر ہوکر) یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی والدہ کو اپنی طرزِ فکر اور روئیے میں بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔ آپ کے شوہر کو یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ ان کا بیٹا کس قسم کے ماحول میں پرورش پارہا ہے ۔ میری دانست میں آپ کے شوہر اپنے بیٹے کی پرورش اور تربیت کے ساتھ بھی سنگین کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گھریلو پالٹکس میں ننھے بچوں کو انوالو کرلینا اور اپنی ماں کے خلاف ورغلاتے رہنا انتہائی درجہ عاقبت نہ اندیشی ہے ، جو دادی ،چچا اور پھوپھی آج اس بچے کی گالیوں سے محفوظ ہورہے ہیں ہوسکتاہے کہ یہ بچہ کل انہیں نہ صرف گالیوں سے نواز رہا ہو بلکہ ان کے خلاف اس کے دل میں شدید نفر ت اور بغض بھی بھر جائے ۔ اس مسئلہ سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ بچہ زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ رہے۔ جو لو گ اس بچہ کو اس کی ماں سے بدظن کررہے ہیں وہ اس کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ آپ کے شوہر کو یہ بات سمجھنا چاہیے اور خاموش رہنے کے بجائے عملی اقدام کرتے ہوئے بچے کے معمولات تبدیل کردینے چاہییں۔ اگر معاشی لحاظ سے ممکن ہو تو آپ لوگوں کو اپنی رہائش بھی الگ کرلینی چاہیے۔
بطور روحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ اخلاص۔
اوّل آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ انہیں آپ کے اور اپنی اولاد کے معاملہ میں درست فیصلہ کرنے کی توفیق عطا ہو۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔ ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثر ت سے اسمِ الٰہی یَاعِزَیْزُ یَا سَلَامُ کا ورد کرتی رہا کریں۔