عورت کی کہیں عزّت نہیں؟

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی


عورت کی کہیں عزّت نہیں؟


سوال: 

میری عمر 29 سال ہے۔ ایک بڑے اسکول میں انگلش کی ٹیچر ہوں۔ ابھی تک میری شادی نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے گھر میں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے۔ وہ ماں ہو، بیٹی ہو یا بہن ہو خصوصاً بیٹیوں کو تو ہمارے ہاں بھاری بوجھ سمجھا جاتا ہے انہیں منحوس اور ان کی موجودگی کو نحوست سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے والد تو ہم تینوں بہنوں کو شروع سے ہی مُردے اور جنازے کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیٹیاں بھی شادی کے بعد جنازوں اور مُردوں کی طرح کبھی باپ کے گھر واپس نہیں آتیں۔ ہمارے ابو ہم بہنوں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہاری پڑھائی پر میرا اتنا پیسہ خرچ ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں شادی کے بعد پرائی ہوجاتی ہیں لہٰذا ان کی تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم ضائع ہوجاتی ہے۔ میں ٹیچنگ کرتی ہوں، میری تنخواہ بہت اچھی ہے۔ اپنی ساری تنخواہ میں اپنی امی کو دے دیتی ہوں۔ دوسال پہلے ایک رشتہ آیا تھا لیکن بات بنتے بنتے ختم ہوگئی۔ میرے والد اور بڑے بھائی کہتے ہیں کہ لڑکے کا اپنا مکان اسی شہر میں ہو اور وہ سرکاری ملازم ہو۔ اُس کی بڑی فیملی نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ پرائیویٹ نوکری والے کا اپنا مکان نہ ہوا تو وہ ہماری بیٹی کو ہمارے گھر پر دوبارہ نہ بٹھادیں۔ ایک مسئلہ اور ہے وہ یہ کہ میں شام کی شفٹ میں پڑھاتی ہوں۔ واپسی میں محلہ کے لوگ ایسی بُری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ زمین میں گڑ جاؤں۔ خاص طور پر آج کل سردیوں میں تو گھر واپس آتے آتے مغرب ہوچکی ہوتی ہے۔ ہمارے محلہ کے لوگ نجانے کیا سمجھتے ہیں کہ میں کہاں سے آرہی ہوں۔ مغرب کے بعد گھر پہنچ پانے کی وجہ سے مجھے محلہ میں اور خاندان میں لوگوں کی طرح طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں لڑکیوں کے لئے لوگوں کا رویہ اور ماحول بہت ہی خراب ہے۔


<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE> 

جواب:

انسان کے لئے اس دنیا میں آنا ایک امتحان تو ہے لیکن لگتا ہے کہ بہت سی عورتوں کے لئے حواکی بیٹی ہونا بھی ایک نہایت سخت امتحان ہے۔ اس امتحان سے دوچار عورتوں کے لئے اس دنیا میں رہنا گویا دہرا امتحان ہے۔ عورت کی عزت و تکریم نہ کی جائے اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جائے یہ طرزِفکر ایک مسلمان معاشرہ اور ایک مسلمان گھرانہ کے لئے انتہائی دکھ اور تاسف کا باعث ہے۔ یہ قطعی طور پر ایک منفی طرزِفکر ہے۔ لڑکیوں کے سامنے کئی نسلوں سے دہرائی جانے والی ایک بات ہمارے معاشرہ میں گویا خدائی قانون کا درجہ حاصل کرچکی ہے، وہ یہ کہ رخصتی کے وقت دلہن کو یہ کہا جائے سسرال میں جہاں تمہاری ڈولی جارہی ہے وہاں سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔ اگر یہ بات کہنے کا مقصد لڑکی کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اپنے سسرال کو اپنا گھر سمجھے اور میکہ سے اس کا تعلق سسرال سے اس کی وابستگی کو گم نہ کرے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن اگر اس بات سے کسی کے ذہن میں یہ مقصد ہے کہ لڑکی بیاہ دینے کے بعد والدین کے سر سے بوجھ اُتر گیا ہے۔ اب لڑکی سسرال میں خوش رہے یا ناخوش، مرے، جیئے، میکے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی، تو یہ بات اسلامی، قانونی، اخلاقی ہرلحاظ سے غلط ہے۔ جو لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں وہ غلط اور منفی طرزِفکر کے حامل ہیں۔ ایسے لوگوں کو مناسب طریقہ سے باور کروانا چاہیے کہ ان کی سوچ غلط ہے۔ بیٹی ہونا کوئی جُرم نہیں ہے۔ بیٹیوں کو بوجھ سمجھنا بھی بالکل غلط ہے۔ ایک بیٹی یا کئی بیٹیوں کا باپ ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ اسی طرح خوشی کا باعث ہے جس طرح ہرشخص کو صاحبِ اولاد ہونے پر خوشی ہوتی ہے۔ جہاں تک بوجھ کا معاملہ ہے تو اس کا تعلق صنف سے نہیں۔ اگر کسی شریف خاندان میں کوئی لڑکا آوارہ یا جرائم پیشہ ہوجائے اور جرم کرکے بار بار اپنے گھر میں آکر پناہ لے تو وہ بھی خاندان کے لئے بدنامی کا باعث اور والدین کے لئے بوجھ ہی کہلائے گا۔ اسی طرح کوئی لڑکی اگر کسی غلط طرزِعمل کو اختیار کرلے اور والدین کے سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے تو اسے لڑکی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی منفی حرکتوں کی وجہ سے غلط سمجھنا چاہیے۔ ان گزارشات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اولاد کا باعثِ راحت ہونا یا باعثِ پریشانی ہونا درحقیقت اس کی صنف پر نہیں بلکہ اس کے رویہ اور طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ اولاد کی پرورش و تربیت کے معاملہ میں اسلام نے لڑکیوں میں امتیاز نہ برتنے کی واضح ہدایت کی ہے۔ 
یہ سمجھنا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہورہی ہے لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی نشانی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ لڑکے کی تعلیم پر کثیر رقم خرچ کرکے اطمینان محسوس کرنے والے والدین کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کا لڑکا سعادت مند و فرمانبردار ہوگا۔ میں نے تو اپنے معاشرہ میں ایسے بہت سے گھرانے دیکھے ہیں جہاں لڑکے شادی کے بعد اپنے والدین کو چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ چلے گئے۔ جب کہ بیٹیوں نے شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اپنے والدین کی خدمت جاری رکھی۔
آپ کے والدین بھی بیٹیوں کے معاملہ میں منفی سوچ میں شدت سے مبتلا محسوس ہوتے ہیں۔ اس سوچ کی تشکیل میں کارفرما عوامل نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں اس لئے ان کی اس منفی سوچ میں تبدیلی آسان نہیں ہے۔ حکمت و تدبر کے ساتھ کوشش بہرحال کرتے رہنا چاہیے۔ آپ کو درپیش اس مسئلہ کا فوری حل تو شادی ہی ہے۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے آپ کو جلد از جلد ازدواجی زندگی کی بھرپور خوشیاں نہایت عزت و احترام کے ساتھ حاصل ہوں۔
آپ کو درپیش دوسرے مسئلہ کی جڑیں بھی ہمارے سماج کے کئی منفی تصورات و رویوں میں پیوست ہیں۔ بعض سماجی تصورات کے زیر اثر بہت سے لوگ عورت کا گھر سے باہر نکلنا انتہائی معیوب سمجھتے ہیں، چاہے عورت کا باہر نکلنا درس و تدریس یا علاج معالجہ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ عورت کو حصولِ معاش کا حق عطا کیا ہے۔ عورت معلمہ بن سکتی ہے۔ معالج بن سکتی ہے۔ تجارت کرسکتی ہے اور اسلام کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے زندگی کے کئی دوسرے شعبوں میں عملی طور پر شمولیت اختیار کرسکتی ہے۔ان میں سے کئی کام گھر کے اندر رہ کر کئے جاسکتے ہیں جب کہ کئی کاموں کے لئے گھر سے باہر بھی نکلنا پڑتا ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عورت یا کسی بھی عورت کے بارے میں ناحق کوئی بری بات کہنا دراصل ایسی بات کہنے والے ان لوگوں کی اپنی بُری ذہنیت کا اظہار ہے۔ اس ذہنیت کی تشکیل بھی صدیوں پرانے ان فضول تصورات و اعتقادات کے تحت ہوتی ہے جن میں عورت کو کمتر، حقیر، گناہوں کی طرف راغب کرنے والی، بلکہ ناپاک وجود تک قرار دیا گیا۔ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے ایسے تمام تصورات کو باطل قرار دیا ہے اور مردوں کو عورت کی عزت و تکریم کا حکم دیا ہے۔
شام کو اسکول سے اپنے گھر جاتے ہوئے جس صورتحال کا آپ کو سامنا ہے اس عمومی صورتحال میں مثبت تبدیلی بھی وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طرزِفکر میں اصلاح ہونے سے آئے گی۔ لوگوں کی اجتماعی طرزِ فکر کی اصلاح ایک مشکل اور وقت طلب امر ہے۔ بہرحال ہم سب کو اﷲ سے بہتری کی اُمید رکھنا چاہیے اور ذاتی تحفظ و سلامتی کے لئے اﷲتعالیٰ کے حضور مصروفِ دعا رہنا چاہیے۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ احزاب کی آیت 43
ھُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا 
اور اس کے بعد اکتالیس مرتبہ سورۂ البروج کی آیت14  
وَ ھُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُ 


گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بہتر جگہ رشتہ طے ہونے اور خیر و عافیت کے ساتھ شادی کے لئے دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔ 
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے یامومن یاسلام کا ورد کرتی رہا کریں۔



روحانی ڈاک ۔ جنوری 2007ء سے

اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے