عورت کی کمائی۔۔۔۔۔؟
سوال:
میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں میرا مسئلہ صرف میرا نہیں بلکہ میرے پورے گھر اور آئندہ نسل کا مسئلہ ہے۔ مالی مسائل کی وجہ سے حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے شوہر سمیت تین بھائی ہیں لیکن تینوں مالی طور پر بہت کمزور ہیں۔ میری ایک بیٹی نے میٹرک کرلیا ہے لیکن ہمارے پاس فرسٹ ایئر میں ایڈمیشن کے پیسے نہیں تھے چنانچہ اس کا داخلہ کالج میں نہ ہوسکا۔ ہم کوئی شوق پورا نہیں کرسکتے ۔ میری بچیوں کی صلاحیتیں اس ماحول میں برباد ہورہی ہیں۔ شوہر نے مجھ پر اور بچیوں پر انتہائی ضرورت کے باوجود بھی باہر جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ نہ تو ہم بازار جاسکتے ہیں اورکوئی بیمار ہوجائے تو دوا لینے بھی نہیں جاسکتے ۔ میں دوا یا کسی اور ضروری چیز کے بارے میں اپنے شوہر کو بتادیتی ہوں جب ان کے پاس وقت ہوتاہے تو وہ دوا لادیتے ہیں ۔ بچیا ں کہتی ہیں کہ ہم گھر میں ٹیوشن سینٹر کھول لیتے ہیں لیکن میرے شوہر منع کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح اُن کی بے عزتی ہوگی ۔ وہ لڑکیوں کے کام کرنے کو اور ان کی حلال کمائی کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ اپنے بچوں کا مستقبل مجھے تاریک نظر آرہا ہے ہم کیا کریں، کس طرح اپنی زندگی گزاریں۔۔۔۔۔؟ ہمیں مشورہ اور وظیفہ بتائیں جس سے ہمارے حالات بہتر ہوجائیں۔
<!....AD>
<!....AD>
جواب:
دینِ اسلام نے خواتین کو کاروبار اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حق عطا کیا ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے، اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اس دین نے مرد وعورت ، جوانوں ، بچوں ، بوڑھوں اور معاشرہ کے ہر طبقہ کو حقوق عطا کیے ہیں۔ دینِ اسلام نے خواتین کو بہت زیادہ حقوق عطا کیے ہیں۔ ان میں کاروبار اور دیگر معاشی سرگرمیوں کے ذریعہ پیسہ کمانے کا حق بھی شامل ہے۔ اپنے خاندان کی کفالت مرد کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے لیکن خود پیسہ کمانے کے باوجود خاندان کی کفالت عورت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ خاندان کی کفالت کے لیے عورت کی طرف سے اپنا پیسہ خرچ کیا جانا حسنِ سلوک کے زمرہ میں آتاہے۔ ایک عورت خود برسرِ روزگار ہوتے ہوئے بھی اپنے شوہر سے اپنے لیے ناننفقہ کا مطالبہ کرسکتی ہے لیکن شوہر برسرِ روزگارنہ ہوتے ہوئے بھی اپنی بیوی سے اپنے لیے نان نفقہ کے مطالبہ کا حق نہیں رکھتا۔ کاروبار ، ملازمت یا سروسز یعنی وکالت، طب، اکائوئنٹس وغیرہ کے ذریعہ عورت کی حلال آمدنی اتنی ہی پاکیزہ اور جائز ہے جتنی کہ ایک مرد کی حلال آمدنی۔
ہمارے معاشرے میں جہاں اور کئی طرح کے تضادات پائے جاتے ہیں وہاں عورت اور مرد کے ان حقوق کے بارے میں بھی بعض حلقوں میں مختلف اور متضاد تصورات پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ہمارے دین نے واضح رہنمائی فرمادی ہے۔ ان تصورات کا ماخذ ہمارے سماجی رویے اور علاقائی و ثقافتی روایات ہیں۔ بعض جگہ سماجی یا ثقافتی روایات دانستہ یا نادانستہ طور پر مذہب سے بھی وابستہ کردی گئیں ۔ عملی زندگی کے کئی شعبے ایسے ہیں جہاں ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند عورت ، ایک تعلیم یافتہ ہنر مند مرد کی نسبت زیادہ بہتر اور زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔ان میں ڈاکٹری ، ٹیچنگ اور خواتین کی خدمات کی فراہمی سے متعلق کئی اور شعبے شامل ہیں ۔ ایک بیمار عورت اپنا حال ایک لیڈی ڈاکٹر کو زیادہ سہولت اور اطمینان سے بتاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پرائمری کے بچوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مردوں کی نسبت خواتین اساتذہ زیادہ مفید ہوسکتی ہیں۔ مختلف قانونی امور میں مشاورت کے لیے ایک عورت خاتون وکیل کے ساتھ بات کرنے میں خود کو مطمئن محسوس کرسکتی ہے ۔یہ سب خصوصیات اس وقت میسر آئیں گی جب عورتیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان شعبوں میں عملی طور پر شامل ہوں گی۔ خدمات کی فراہمی کے بعض مخصوص شعبوں میں شمولیت کے علاوہ خواتین کو کاروباری مصروفیات میں شمولیت کی بھی اجازت ہے۔ صنعت ، ٹریڈنگ، ایکسپورٹ، امپورٹ سمیت مختلف کاروباری شعبوں میں خواتین عملی طور پر شامل ہوسکتی ہیں۔
آپ کے شوہر کی سوچ کا سبب روایات بھی ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان کے ارد گرد رہنے والے بعض لوگوں کی طرزِ فکر ان پر اثر انداز ہورہی ہو۔اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ بیٹیوں کے کام کرنے کو اپنی نااہلی سمجھتے ہوں۔ اس حوالہ سے وہ یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ دوست اور رشتہ دار ان کا مذاق اُڑائیں گے کہ یہ اگر کسی قابل ہوتے تو ان کی بیٹیوں کو کام نہ کرنا پڑتا۔ معاشی ضروریات کی فراہمی کے لے مرد عورت پر انحصار نہیں کرنا چاہتا ، مجبوراً ایسی صورت پیدا ہوجائے تو مرد کو شدید ذہنی دبائو یا صدمہ سے گزرنا پڑتاہے۔ بہرحال! وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، اس مسئلہ کے حل کے لیے آپ کو اور آپ کی بیٹیوں کو تحمل سے کام لیتے ہوئے انتہائی احترام کے ساتھ انہیں سمجھانا ہوگا۔ اس معاملہ میں آپ لوگوں کا اصرار ان میں ضد اور شدت پیدا کرسکتاہے۔ یعنی اگر وہ لڑکیوں کے کام کرنے کو نظریاتی طور پر برا سمجھتے ہیں تو آپ لوگوں کے اصرار سے ان کا انکار ان کی ضد اور انا پرستی میں تبدیل ہوسکتاہے۔ موجودہ صورتحال میں بہتر طرزِ عمل یہی معلوم ہوتاہے کہ انہیں قرآن پاک اوراحادیث نبوی کے ذریعہ عورت کی عظمت اور عورت کو عطاکیے گئے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جاتارہے۔
آپ کی بیٹیاں گھر میں ٹیوشن سینٹر کھولنا چاہتی ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا اور دوسروں کو تعلیم دینا نہایت قابلِ قدر کام ہیں۔ اگر آپ کی بیٹیاں اپنے والد کو یہ نہ کہیں کہ وہ اس طرح ان کی مالی مد د کرنا چاہتی ہیں بلکہ ادب واحترام کے ساتھ بس اتنا کہیں کہ ہمیں بچوں کو پڑھانے کا شوق ہے اور اس شوق کی خاطر بچوں کو بغیر فیس پڑھانے کے لیے بھی تیار ہیںتو امید ہے کہ وہ ایک نیک مقصد کی خاطر اپنی بیٹیوں کومعلمی کی اجازت دے دیں گے۔ بطور روحانی علاج آپ رات سونے سے قبل 101مرتبہ سورۂ بقرہ کی آیت256:
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡن ۟ ۙ
قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ
وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭
لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور ان کی طرزِ فکر میں اصلاح اور خیروبرکت کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک یا نوے روز تک جاری رکھیں۔