ساتھی کی راہوں میں کانٹے بچھانے والا
سوال:
میں ایک ملازمت پیشہ شخص ہوں۔ ترقی کرتے کرتے اب منیجر ہوگیا ہوں۔ تاہم اِس مقام تک پہنچنے میں مجھے دوسرے کئی ساتھیوں کی نسبت بہت زیادہ وقت لگا۔ میرے کئی ساتھی بلکہ بعض جونیئرز بھی آج مجھ سے بہت آگے ہیں۔ آج سے سولہ سال قبل میں اور میرا ایک اور ساتھی دونوں ایک ہی سیٹ پر ترقی کے اُمیدوار تھے۔ میں ہر قیمت پر اپنی ترقی چاہتا تھا۔ اس دُھن میں شیطان مجھ پر حاوی ہوگیا اور میں نے اپنے ایک جاننے والے کی باتوں میں آکر ایک سفلی علم والے سے ملاقات کی۔ اس خبیث شخص نے یقین دلایا کہ وہ میرے دفتر کے ساتھی کی ترقی روکنے کے لئے اس پر بدعملیات کرے گا۔ میں نے اس شخص کو اس برے کام کے لئے کہہ دیا۔ چند دنوں بعد میرا وہ ساتھی شدید بیمار پڑگیا۔ بیماری کے باعث اس کی چھٹیاں بڑھنے لگیں۔ مجھ سے بہتر کارکردگی اور اچھے ریکارڈ کے باوجود وہ ساتھی اپنی ’’ناگہانی بیماری‘‘ کے باعث ترقی کی دوڑ میں مجھ سے پیچھے رہ گیا۔ مجھے ترقی مل گئی جب کہ وہ ساتھی تقریباً چھ ماہ تک بیمار رہا۔ بیماری کے باعث اس پر مالی دباؤ بھی پڑا بعد میں بھی اس کی کارکردگی کئی سالوں تک خراب رہی۔ آج اس واقعہ کو سولہ سال گزر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مجھے اپنے ماضی کی اس گھٹیا حرکت کا شدت سے خیال آیا۔ میں اب اپنی اس گھناؤنی اور خبیث حرکت پر بہت ندامت وپشیمانی محسوس کرتا ہوں۔ میں نے تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لئے ایک شخص کی راہ میں کانٹے بچھائے۔ میرا وہ ساتھی اب کسی اور ادارہ میں ملازمت کررہا ہے۔ کبھی کسی واقف کے ذریعہ اس کی خبر ملتی رہتی ہے۔ ایک ضروری بات اور بتانا چاہتا ہوں۔ اس واقعہ سے تقریباً دو سال بعد میرے ہاں دوبیٹیوں کے بعد بیٹے کی ولادت ہوئی۔ جس پر ہم سب بہت خوش تھے لیکن چند ماہ بعد پتہ چلا کہ وہ بچہ ذہنی طور پر بہت کمزور ہے۔ آج وہ بچہ جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہا ہے لیکن ذہنی طور پر کمزوری کے باعث ایک معذور کی زندگی گزار رہا ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اس بچہ کی معذوری کہیں میرے اس گناہ کی سزا تو نہیں ہے۔
میرے اندر بے چینی اور تکلیف دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ میں نے اپنے ساتھی کے خلاف بدعملیات کا سہارا لے کر بہت بُرا کیا۔ میں اپنی غلطی اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہوں۔ میں ہر روز توبہ استغفار کرتا ہوں لیکن چین نہیں آتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ اس بے گناہ شخص کے پاس جا کر معافی مانگنے کی ہمت نہیں پڑتی۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
بعد از ہزار ہا خرابی اب آپ کا نفس آپ کے ضمیر سے مغلوب ہونا شروع ہوا ہے۔ اس مختصر سی زندگی میں ردِعمل کے کئی انداز مشاہدہ میں آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم کسی شخص کو خوش و خرم دیکھیں تو خود بھی خوش ہوں، کسی کو تعلیمی میدان میں، عملی زندگی میں آگے بڑھتا کامیاب ہوتا دیکھیں تو رشک کریں۔ ماشاء اللہ کہیں اور اسے مزید خوشیوں، مزید ترقی کی دعا دیں۔ ایک انداز یہ ہے کہ کسی کو خوش دیکھ کر اس کی خوشی میں شامل نہ ہوں بلکہ نگاہوں کے تیور بدل کر اس کے سامنے بے دلی سے مسکرائیں یا پھر بُرا سا منہ بناکر سوچیں کہ فلاں کو دیکھو کہ زیادہ ہی چہک رہا ہے۔ کسی کو کامیاب ہوتا دیکھیں تو کہیں کہ ہائے! دیکھو کیسے اترا رہے ہیں۔ یہ ساری کیفیات اس شخص کی ہیں جو دوسرے کو صرف دیکھ کر منفی ردعمل ظاہر کر رہا ہو۔ جو لوگ خود ہی تباہی میں شامل ہوں اور کسی وجہ سے پیچھے رہ جائیں ان میں سے کئی لوگ اپنی خامیوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لینے کے بجائے اور آئندہ زیادہ بہتر طور پر کوشش کرنے کے بجائے دوسرے کی کامیابی کو بلاوجہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ اکثر جلن اور حسد میں مبتلا ہوکر اپنا چین اور آرام گنواتے ہیں اور بعض اوقات اپنے منفی جذبوں کی تسکین کے لئے نہایت نقصان دہ اقدامات پر بھی اُتر آتے ہیں۔ آپ کے خط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا معاملہ بھی ماضی میں کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ آج آپ کو ندامت کا احساس ہورہا ہے تو بہتر ہے کہ ماضی کی دوسری غلط کاریوں کا جائزہ بھی لیا جائے، خاص طور پر مادّی مفادات کے حصول اور دولت کمانے کے لئے کئے جانے والے اپنے تمام غیر اخلاقی اور ناجائز اقدامات کو یاد کیا جائے اور یہ سوچا جائے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچاکر، جھوٹ بول کر، غیبت کرکے اور دوسروں کی راہوں میں کانٹے بچھاکر اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جو دولت کمائی گئی اس سے حقیقی خوشحالی اور سکون حاصل ہوا یا آخرت کی کامیابیوں کے عوض اس دنیا میں وقتی اور مصنوعی خوشیاں حاصل کی گئیں۔
ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی پرورش ظلم و استحصال سے کمائے گئے حرام وسائل سے کرتے ہیں انہیں اکثر اس دنیا میں ہی مکافاتِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت دُکھ ہوا کہ آپ نے اپنے دنیاوی مفادات کے لئے اپنے ساتھی کی حق تلفی کی اور ایک نہایت گھنائونے عمل کے ذریعے اس کی صحت اور کیریئر کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے مجھے خط لکھ کر مجھ سے مشورہ طلب کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے لئے مناسب مشورہ یہ ہے کہ آپ توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے اس ساتھی کے پاس جائیں۔ اسے تمام احوال بتائیں اور اس سے صدقِ دل سے معافی طلب کریں۔ اگر اس شخص نے آپ کو معاف کردیا تو اللہ کی رحمت سے آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
جہاں تک آپ کے بیٹے کی معذوری کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس معصوم کی معذوری آپ کے بُرے اعمال کی سزا کے طور پر نہیں ہے۔ اپنے کئے پر سزا کی ہلکی سی جھلک آپ نے اپنے باطن کی شدید بے چینی اور تکلیف میں دیکھ لی ہے۔ انسان کے اندر سے لگنے والی چوٹیں باہر کی چوٹوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو منفی جذبات سے مغلوب ہونے سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہمارے اندر حسد جیسی ضرر رساں کیفیات سر نہ اُٹھاسکیں۔ آمین