سُکوتِ سُخن
سوال:
ڈاکٹر صاحب!میں ایک شاعر اور مصنف ہوں۔ پیشے کے لحاظ سے تدریس سے وابستہ ہوں۔ میرے ساتھ ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ درپیش ہے۔ میں کسی کا دکھ نہیں دیکھ سکتا تھا میری آنکھ ہر کسی کے درد کو محسوس کرکے نم ہوجاتی تھی۔ میری قلم کی روانی دریائے اباسین کی لہروں کی طرح تیز اور سیدھے افکار تمام دکھوں کو مسرتوں کو قرطاسِ ابیض پر منتقل کردیتے تھے۔ اِس کے پیچھے جذبۂ عشق کار فرما تھا۔ گذشتہ دو ماہ سے میں اس گراں قدر نعمت سے محروم ہوں لگتاہے کہ پتھر ہوگیا ہوں ۔ اب مجھے کسی کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔ میں بے حس جمود زدہ پانی کی طرح ہوگیا ہوں۔۔۔۔۔ لو گ کہتے ہیں یہ اچھی بات ہے روحانی کیفیت ہے لیکن میں ایک عذاب میں ہوں۔ مجھے عام انسان ہی رہنا ہے عام انسانوں کے غموں ،دکھوں ،خوشیوں سے جذباتی ہونے والا انسان۔ یہ بے حسی مجھے عذاب بن کر ڈس رہی ہے۔ سکوتِ سخن ہے ۔ مجھے دلِ بے قرار چاہیے۔ میرا گداز کہیں کھوگیا میرے اندر عشق ومحبت کی جو قوت کام کررہی تھی لگتا ہے کسی کھنڈر میں دب کے مرگئی۔ براہِ کرم مجھے اس جمود سے نجات دلائیے تاکہ میں اپنے جیسے انسانوں کے مسائل اور دکھوں کو نا صرف سمجھ سکوں بلکہ ان کے کام بھی آسکوں ۔؎
کیا لطفِ انجمن ہے جب دل ہی بجھ گیا ہو
میرا احساس بھرا دل بے حسی کے غلاف میں ہے۔ میری سوچیں جمود کے حصار میں ہیں۔ مجھے نجات دلائیے۔ کا ش آپ میرے دکھ کو سمجھ سکیں میں الفاظ نہیں پارہا کس طرح بیان کروں۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
حساس دل رکھنے والے اہلِ قلم پر مختلف ذہنی و قلبی کیفیات گزرتی رہتی ہیں۔ کبھی فرحت وانبساط کا احساس ہوتاہے تو کبھی تلخی و ا نقباض کی گرفت ہوتی ہے۔ اپنے معاشرہ اور انسانوں کے بارے میں حسّاس ہونا جہاں ایک بڑی خوبی ہے وہیں ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔ ایک طرف تو یہ بات کہ قلم میں بڑی طاقت ہوتی ہے اہلِ قلم کے لیے حوصلہ اور تقویت کا سبب بنتی ہے دوسری طرف برائیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف مسلسل قلمی جہاد کرتے رہنے کے باوجود کوئی معمولی سا مثبت نتیجہ بھی نظر نہ آئے تو دل پر اُداسی و مایوسی چھانے لگتی ہے۔
دنیا میں جدو جہد کے دو بڑے انداز ہوا کرتے ہیں ایک رزلٹ اور ینٹڈ Result Orientedاور دوسرا ایفرٹ اورینٹڈEffort Oriented۔
مختصر مدت کی کوشش نتیجہ خیز Result Oriented ہونی چاہیے۔ مثلاً کاروبار یا ملازمت کے ذریعہ معاشی استحکام کے لیے کی جانے والی کوششیں۔ کوئی شخص معاش میں محنت کرے تو اسے کامیابی بھی ترقی کے ذریعہ ملنا چاہیے۔ایک مثال بچوں کی تعلیم بھی ہے۔۔۔۔۔ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں تو ان میں مقررہ مدت میں ایک خاص قابلیت آجانا چاہیے۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک بچہ دس سال تک پرائمری کلا س میں ہی رہے اور یہ کہا جائے کہ ہم نتیجہ پر نہیں بلکہ جہدِ مسلسل پر یقین رکھتے ہیں۔ ان حالات میں ایسا کہنا یقینا بے وقوفی ہوگی۔ قومی یا اجتماعی معا ملات میں کئی مرتبہ فوری نتیجہ کے لیے کوشش کی جاتی ہے تو کئی مرتبہ نتیجہ فوری طور پر مرتب نہ ہو تب بھی جہد ِ مسلسل جاری رکھنا ضروری ہوتاہے۔ معاشرہ میں لوگوں کی سوچ کو مثبت رخ پر ڈھالنا، قومی یا اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے کوششیں کرتے رہنا یہ سب جہدِ مسلسل کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ بزرگ ایک درخت لگاتے ہیں انہیں معلوم ہوتاہے کہ اس کاپھل ذاتی طور پر انہیں نہیں ملے گا۔ ان کی محنت کا نتیجہ فوری طور پر برآمد نہیں ہوگا اس کے باوجود وہ درخت لگاتے ہیں اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس درخت کے پھل یا ان کی محنت کے پھل ان کے بیٹوں یا پھر پوتوں کو ملتے ہیں۔
محترم شاعر! سکوت سخن کی وجہ نتائج کے فوری حصول کی خواہش بھی ہوسکتی ہے۔ اگر اس جلد بازی سے گریز کیا جائے اور جہد مسلسل کو اپنا لیا جائے توآپ کو اپنی تخلیقی کوششیں رائیگاں محسوس نہیں ہوں گی۔ اپنی کوششوں کے زیاں کا احساس انسان میں مایوسی ، دل شکستی ، لاتعلقی اور بے حسی پیداکرتاہے۔جب جہدِ مسلسل کا عزم ہوگا تو مایوسی محسوس ہی نہیں ہوگئی بلکہ ہرروز ایک عزم تازہ کے ساتھ نئی توانائیاں میسر آئیں گی ۔ذہنی یکسوئی، خود اعتمادی اور تٰخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے دیگر تدابیر کے ساتھ ساتھ مراقبہ مفید ہے:
آپ بھی مراقبہ سے مدد لے سکتے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ صبح سویرے یا رات سونے سے قبل آرام دہ نشست پر بیٹھ جائیں اور یہ تصور کریں کہ آپ نیلی روشنیوں سے منور ماحول میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ نیلی روشنی کا مراقبہ کہلاتاہے۔
مراقبہ سے قبل 101مرتبہ یا اکتالیس مرتبہ درود شریف اور یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ رد کرلیا کریں۔ مراقبہ کے دوران کچھ نہ پڑھیں اور نیلی روشنی کا مراقبہ روزانہ تقریباً پندرہ منٹ تک کیجیے۔