ساس جو کبھی خالہ تھی
خالہ کی محبت /ساس کی رقابت
سوال:
میری شادی تین سال پہلے اپنے خالہ زاد سے ہوئی ہے۔ میری خالہ شادی سے پہلے تو مجھے بہت چاہتی تھیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ میں ان کی لاڈلی تھی لیکن شادی کے بعد ان کے رویہ میں حیرت ناک تبدیلیاں آگئی ہیں۔ خالہ کے رویہ میں تبدیلیاں کچھ اس طرح آئیں کہ پہلے تو ان کے لہجہ میں میرے لیے پیار سمٹنا شروع ہوا۔ انہوں نے شفقت وپیار کے بجائے مجھ سے عام انداز میں بات کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان کے لہجے میں تلخی آنے لگی۔ میرے سسر میرے ساتھ بہت اچھے ہیں لیکن میری خالہ کو یہ بات بھی پسند نہیں چنانچہ اگر کبھی میرے سسر میری حمایت کریں تو خالہ ان سے لڑنے لگتی ہیں۔ چند ماہ سے ایک نیا کام یہ شروع ہو ا ہے کہ وہ میرے شوہر سے، دیوروں اور نندوں سے میری جھوٹی شکایتیں لگانے لگی ہیں۔ اپنے ساتھ ان کے تلخ رویے کو تو میں جیسے تیسے برداشت کررہی تھی لیکن ان کے اس نئے کام سے مجھے بہت خوف آرہا ہے ۔ شوہر میرا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنی ماں کی زبانی میری شکایا ت سن کر میرے سامنے ان کا موڈآف ہوجاتا ہے۔ چند مرتبہ وہ ان جھوٹی شکایات پر مجھے ڈانٹ بھی چکے ہیں ۔ میرے ساتھ خالہ کے رویہ میں تبدیلی کو خاندان میں سب نے نوٹ کیا ہے۔
دو تین مرتبہ میری امی نے ان سے بات کی لیکن انہوں نے ان سے بھی جھگڑنا شروع کردیا۔ خاندان کے بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ ان مسائل کا حل علیحٰدہ گھر میں رہنا ہے۔ لیکن میری خالہ اس کے لیے رضامند نہیں۔ چارسال پہلے میرے جیٹھ اور جٹھانی اپنا الگ گھر لے چکے ہیں۔ خالہ کہتی ہیں کہ وہ دونوں تو یہاں سے چلے گئے۔ لیکن میں تجھے ہر گز نہیں جانے دونگی۔
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
لڑکے لڑکیوں کے رشتوں کے وقت غیروں میں بات ہورہی ہو تو عموماً بہت زیادہ چھان بین کی جاتی ہے مختلف طریقوں سے اطمینان کیا جاتا ہے۔ قریبی عزیزوں میں رشتہ ہورہا ہو تو عموماً یہ مراحل طے نہیں کیے جاتے۔ دو بہنیں اگر اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کررہی ہوں تو اس موقع پر عموماً اطمینان کا اظہار ہی کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خالہ کو اپنی بہن کی بیٹیاں یا بہن کے بیٹے بہت پیارے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں خالہ کو ماں کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے۔ خالہ کے پیار کے حوالہ سے کئی کہاوتیں بھی مشہور ہیں۔ لیکن ساس بن کر وہی خالہ صاحبہ بعض اوقات انتہائی تکلیف دہ روپ اختیار کرلیتی ہیں۔ میرے علم میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں خالہ اپنی بھانجی پر جان چھڑکتی تھیں۔ وہ بہت پیار محبت سے بھانجی کو اپنی بہو بنا کر لائیں لیکن ساس بننے کے بعد نہ صرف یہ کہ پہلے والی محبت باقی نہ رہی بلکہ اس محبت کی جگہ شدید رقابت اور نفرت نے لے لی۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے کئی واقعات کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شادی خواہ غیروں میں ہو یا اپنوں میں یہ بہرحال ایک رسک ہے۔ کتنی ہی شادیاں ایسی ہیں جو بالکل غیروں میں ہوئی ہیں اور میاں بیوی کی زندگی بہت اچھی طرح گزری ہے جب کہ بالکل قریبی رشتہ داروں میں جب کہ لڑکا، لڑکی اور ان کا پورا خاندان ہر طرح سے دیکھا بھالا تھا وہاں کہیں ساس کی طرف سے تو کہیں بہو کی طرف سے شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
آپ کے خاندان کے بزرگ آپ کی ساس کے مزاج سے خوب واقف ہوں گے اس لیے اُنہوں نے آپ کے مسائل کا حل علیحدہ گھر میں رہنا تجویز کیا ہے۔ آپ کے مسئلہ کا بہتر حل یہی ہے۔ علیحدہ رہنے سے آپ کی ساس کا مخالفانہ جذبہ ختم تو نہیں ہوجائے گا تاہم روز روز کی بک بک جھک جھک سے آپ کی اور ان کے گھر کے باقی افراد کی جان چھٹ جائے گی۔ آپ کے شوہر بھی کشمکش اور ذہنی دباؤ سے بچ جائیں گے۔
رات سونے سے قبل 101 مرتبہ سورۂ یونس کی آیات 86-85
فَقَالُوْا عَلَى اللّـٰهِ تَوَكَّلْنَاۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَO وَنَجِّنَا بِرَحْـمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِـرِيْنَ O
اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اﷲتعالیٰ سے دعا کریں یہ عمل کم از کم چالیس روز یا نوے روز تک جاری رکھیں۔